آج کل تو ہائی سکول پیدل جانے کا رواج ناپید ہو چکا ہے کیونکہ زیادہ تر بچے سوزوکی کیری یا پھر چنگ چی پر لدے نظر آتے ہیں۔ ہمارے وقت میں طلبا کی اکثریت سکول پیدل جایا کرتی تھی۔ جو طالبعلم گاؤں سے آتے تھے ان میں سے نصف کے پاس سائیکل ہوتے تھے۔ ہمارے کلاس فیلو ایسے بھی تھے جو پانچ چھ میل چل کر روزانہ سکول آیا کرتے تھے۔ اب تو گاؤں والے بھی ویگنوں پر آنے لگے ہیں۔
صبح والدہ کے ہاتھوں سے ناشتہ کرنے کے بعد لطیف نائی کے پھٹے پر جا کھڑا ہونا اور جونہی تمام دوست اکٹھے ہو جایا کرنے، سکول کی طرف پیدل مارچ شروع کر دیا کرنا۔ اس وقت موبائل فون اور ایم پی تھری تو ہوا نہیں کرتے تھے اسلیے ہماری مصروفیت صرف گپ شپ تک ہی محدود ہوتی تھی۔ بڑی سے بڑی عیاشی کرنی تو کسی دن جو والدین سے چوری چھپے فلم دیکھنے میں کامیاب ہو جاتا اس نے فلم کی کہانی سنانا شروع کردینی۔ کہانی بھی اتنی لمبی ہوتی تھی کہ سکول کا راستہ ختم ہو جاتا مگر کہانی ہاف ٹائم تک بھی نہ پہنچ پاتی۔
کبھی کبھار ہم نے سستانے کیلیے راستے میں ارائیوں کے ڈیرے پر درخت کی گھنی چھاؤں تلے سستا لیا کرنا۔ جس دن طبیعت زیادہ مچلنی، ارائیں کی دو چار گاجریں اور مولیاں چرانے کی کوشش کیا کرنی۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ پیچھے پیچھے آنے والے دوست نے شرارت کرتے ہوئے ارائیں کو خبر دار کر دیا کرنا۔ پھر کیا تھا سب نے وہ دوڑ لگانی کہ سکول پہنچ کر ہی سانس لینا۔
یہ سب قصے پنجاب کے چھوٹے قصبوں کے ہیں جن پر کراچی جیسے بڑے شہر والوں کو حیران ہونے کا حق بنتا ہے کیونکہ جس وقت ہم پیدل سکول جایا کرتے تھے اس وقت بھی بڑے شہروں کے طلبا گاڑیوں کی سہولت سے بہرہ ور تھے۔ ہم پر بڑے شہروں کی زندگی کا راز تب آشکارہ ہوا جب ہم یونیورسٹی میں پہنچے۔
آج بھی جب ہم پرانے دوست ملتے ہیں تو سکول کے زمانے کو یاد کر کے بہت خوش ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ پچھتانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ موجودہ زمانے میں کیوں پیدا نہیں ہوئے۔ کیونکہ جو سہولتیں اب میسر ہیں ان کا تصور بھی اس وقت دیومالائی کہانی کی طرح لگا کرتا تھا۔
10 users commented in " سکول آنا جانا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوہ گلی، وہ کوچہ، وہ بستی کیوں چھوڑ آئے
آج وہ اُس گلی سے دل گرفتہ گزرتا ہوگا
بچوں کواجنبی شہزادے کی کہانی سنا کر
ایک آنسو، اس کے دامن پہ ٹپکتا ہوگا
وہ باغ، بیری، وہ پینگیں اور اسکول کا رستہ
وقت کس کس موڑ پر ٹہر کر سسکتا ہوگا
کیا بات ہے جی
سارے بلاگر ماضی میں گم ہیں آج کل
ماضی ہمیشہ سہانا لگتا ہے لیکن سچ بات ہے کہ وہ دن جب جدید اوزار نہیں تھے واقعی اچھے تھے ۔ میں پہلی جماعت سے لے کر انجنیئرنگ پاس کرنے تک پيدل ہی جاتا اور آتا رہا چاہے تیز بارش ہو یا تیز دھوپ
سادی اور لطیف بات کا مزاح اور ہی ہوتا ہے۔ پنڈی، لاہور ہو یا کراچی، متوسط اور غریب طبقے کے بچے آج بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بڑے شہروں سے اس طرح کی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ پانچویں جماعت تک تو ہم بھی پیدل اسکول جایا کرتے تھے اور دوسری جماعت تک تو تختی لکھنا اور اس پر ملتانی مٹی کا لیپ کرنا بھی یاد ہے۔۔ بس بڑے شہروں میں فاصلے اتنے ہوتے ہیں کہ چاروناچار آپ کو پبلک بس یا اسکول وین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سفر کی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں۔ کراچی میں کے ٹی سی کی بڑی بسوں میں اسکول جانا نا معلوم وجوہات کی بنا پر ہمیشہ اسکول کے بچوں کی پہلی پسند ہوا کرتی تھی شاید کنڈیکٹر کرایہ لینے میں رعایت کردیا کرتے تھے جس سے چار آنے یا آٹھ آنے جیسی خطیر رقم کی بچت ہوجایا کرتی تھی۔۔ وقت اتنی تیزی سے آگے کی طرف گیا ہے کہ ہمارے جیسے تیس کے پیٹے میں موجود لوگوں بھی اپنا ماضی فراعین مصر کے آس پاس معلوم ہوتا ہے۔
بچپن کی یادیں خوب تازہ کر دیں آپ نے، میں خود پیدل اور سائیکل پر اسکول اور کالج جاتا رہا ہوں اور ٹولیوں میں، واقعی سہانے دن تھے۔
راشد کامران صاحب نے بلکل صحیح نقشہ کھینچا ہے کراچی میں ہم مڈل کلاس لوگ اسی طرح پڑھنے جایا کرتے تھے،اور اب منی بسوں کا دور ہے،
میں خود پرائمری اور ھائی سکول میں پیدل بھی جاتا رہا اور کبھی کبھار سائیکل پر بھی، سچ بتائوں تو اب زندگی میں وہ مزا نہیں رہا، بچپن اور لڑکپن کا دور سنہری ہوتا ہے
حضرات آج بھی غریب اور متوسط طبقے کے بچے بچیاں پیدل سکول جاتے ہیں نہیں یقین آتا تو کبھی صبح سویرے اٹھ کر شہر کا ایک راونڈ لگائیں ۔
راولپنڈی میں رہتے ہوئے میں سکول کالج ہمیشہ پیدل ہی گیا
یونیورسٹی جانے کے لئے یونیورسٹی کی بس استعمال کیا کرتا تھا
لیکن چونکہ یونیورسٹی کافی دور تھی اور اکثر سمیسٹرز میں ایک پیریڈ صبحہوتا تو دوسرا شام کو۔ بس پر آنا جانا ممکن نا ہوتا تو ہم بھی سائیکل پر جایا کرتا تھا
اور وہ بھی دن میں دو دو دفعہ
ہر سہولت کے باوجود، مجھے آج بھی وہی دن اچھے لگتے ہیں
سوچ کر بھی اطمنان حاصل ہوتا ہے
Leave A Reply