وزیرستان میں آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ اس طرح کا آپریشن مشرقی پاکستان میں بھی ہوا تھا جو ملک کی تقسیم پر ختم ہوا۔ وزیرستان میں اس سے پہلے بھی کئی فوجی آپریشن ہو چکے ہیں اور سب کے سب ناکام رہے ہیں کیونکہ ان کا نتیجہ سوائے نقصان کے کچھ نہیں نکلا۔ آخر میں امن تبھی قائم ہوا جب دونوں متحارب گروپوں یعنی فوج یا حکومت اور بلوچوں کے درمیان صلح ہوئی۔ اسی طرح افغانستان سمیت قبائلی علاقوں میں آج تک جنگ کے ذریعے امن قائم نہیں ہو سکا۔ جب بھی امن ہوا مذاکرات کے بعد مشترکہ حکومت کی شکل میں ہی قائم ہوا۔
اس بات کی سمجھ امریکہ کو آ گئی اور اس نے عراق میں اپنے مخالفین سنیوں کو ساتھ ملایا اور عراق فتح کر لیا۔ اب یہی طریقہ افغانستان میں آزمانے کی بات ہو رہی ہے یعنی طالبان کو حکومت میں حصہ دیا جائے۔ لیکن یہ بات ہمارے حکمرانوں اور فوج کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ان لوگوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور فوجی آپریشن سے قبل ایک دفعہ بھی جرگہ بلا کر امن و آشتی سے اختلافات ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجہ ظاہر ہے وہی نکلے گا جو مشرف کے ہاتھوں بگٹی کے قتل کے بعد نکلا تھا یعنی مشرف پر قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔
حکومت اور فوج اگر غیروں کی چالوں میں نہ آئی ہوتی اور ویزستان کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتی تو کبھی اسلحہ لیکر اپنے ہی لوگوں پر نہ چڑھ دوڑتی۔ بلکہ سب سے پہلے وزیرستان کے زعما کو اکٹھا کرتی اور صلح جوئی سے کام لیتی۔ آپریشن سے قبل فوج نے سیاستدانوں کو بریفنگ دی مگر کسی میں یہ جرات پیدا نہ ہوئی کہ وہ جنگ کی بجائے مذاکرات کی بات کرتا سوائے جماعت اسلامی کے جسے اس بریفنگ میں بلایا ہی نہیں گیا۔
ہمارے گھروں میں آئے روز آپس میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں مگر وہ گھر گنے چنے ہوں گے جہاں اسلحہ استعمال ہوتا ہو گا کیونکہ اکثریت کو معلوم ہے کہ قتل و غارت کی صورت میں وہ ہمیشہ کیلیے تھانہ کچہری کے چکروں میں پڑ جائیں گے جس کی وجہ سے وہ دانے دانے کو محتاج ہو جائیں گے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ خدا کسی کو بھی تھانے کچہری کا راستہ نہ دکھائے۔ وہ گھر سکھی رہتے ہیں جن کے جھگڑے وہ خود ہی نپٹا لیتے ہیں اور تیسرے فریق کو شامل نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ “تیسرا رلیا تے کم گلیا” یعنی دنیا میں وہ لوگ کم ہی ہوں گے جو دو فریقین میں صلح کی کوشش کریں گے۔ یہی حال عالمی برادریوں کا ہے۔ سپر طاقتوں نے کبھی جنگ ٹالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہی جنگوں کی وجہ سے وہ سپر طاقتیں ہیں۔ یعنی وہ ان جنگوں میں دونوں فریقین کو اسلحہ فراہم کرتی ہیں اور ان کو کمزور کر کے سپرپاور بنتی ہیں۔ سنا ہے پاکستان کو بھی اسلحے کی ترسیل بڑھا دی گئی ہے۔
دعا ہے کہ خدا ہمارے دلوں میں رحم پیدا کرے تا کہ ہم اپنے جھگڑے میدانوں کی بجائے ڈرائینگ روموں میں بیٹھ کر نپٹائیں اور مستقبل کے ایسے نقصانات سے بچ جائیں جن کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔
7 users commented in " میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجنگ کا مقصد ہی ڈالر بٹورنا ہے۔
افضل صاحب عراق کے حالات اور سنز آف عراق کی تشکیل کے لیے جو حالات وہاں موجود تھے وہ قبائلی علاقوںمیں نہیںہیں۔۔ دوسری طرف حکومت نے کب کب ان سے مذاکرات اور معاہدہ نہیں کیے؟ اب اگر کسی کا ایجنڈا ہی امن نا ہو بلکہ پوری ریاست کو تتر بتر کرنا ہو تو کیا ہوسکتا ہے؟
آپ تو صبح شام اخبارات پڑھتے ہیں اور پاکستانی خبروں سے ان ٹچ رہتے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا کہ ان سے مذاکرات نہیں کرے گئے یا تو لاعلمی ہے یا بلاسوچے سمجھے لکھ دیا ہے۔
پاکستانی وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، پاک فوج اور ایجنسیاں پچھلے کئی سالوں سے مذاکرات کررہی ہیں جرگے بلارہی ہیں۔ اسوقت بھی مذاکرات جاری ہیں۔
جنگیں سورش کو ختم کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ انہیں دبانے کے لئے ہوتی ہیں۔ تاکہ عارضی امن قائم ہو حکومت کی رٹ بحال ہو اور مذاکرات و ڈیولپمنٹ کے ذریعے پائیدار امن قائم ہو۔
اخبار پڑھنے والوں نے مذاکرات کا ذکر کیا ہے جسے کۓی کالم نگاروں نے مذاق رات لکھا جو شاید ان کی نظروں سے نہیں گذرا
پہلے مذاکرات پشاور کے کور کمانڈر نے کئے تھے ۔ دوسرے دن امریکی ڈورون سے چلائے گئے میزائل نے اسے کسی اور کے گھر میں بمع میزبانوں کے ہلاک کر دیا گیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں ۔
صوفی محمد سے مذاکرات ہوئے اس نے حکومت کو سپورٹ کیا ۔ ایک واقعہ ہوا جس پر صوفی محمد اور اسکے لوگوں کا مؤقف تھا کہ کوئی دشمن ہے جو صلح نہیں چاہتا ۔ کراچی سے اسلام آباد تک مارو مارو کا شور اُٹھا اور فوجی کاروائی شروع کر دی گئی
لال مسجد پر بھی مذاکرات ہوئے ۔ مسؤدہ صدر کو بھیجا گیا جس کے بھجنے کے چند گھنٹے بعد لال مسجد پر يک طرفہ فوجی کاروائی شروع ہو گئی
اُسے یعنی جس سے مذاکرات کئے گئے تھے ۔ فقیر محمد
سنا ہے کہ اس کے بعد جنوبی پنجاب کی باری آئے گی۔
افضل صاحب كي تحرير اور عارف كریم اور اجمل صاحب كے تبصرے سے متفق هوں۔ الله تمام مسلمانو كو هدايت دے
Leave A Reply