پاکستان میں جہاں بيروزگاري کا دور دورہ ہے وہيں پر ايک ايسا پيشہ ہے جس کيلۓ کسي خاص قابليت کي ضرورت بھي نہيں اور نہ ہي کسي امتحان ميں بيٹھنےکا تردد کرنا پڑتا ہے۔ يہ پيشہ صرف اشرافيہ کے سپوتوں کيلۓ مخصوص ہے۔ اس ميں بھرتي کيلۓ آپ کا خانداني پس منظر ہونا چاہيۓ۔ اس پيشے کيلۓ صرف اور صرف ايک خوبي درکار ہے اور وہ ہے مکاري سے عوام کو بيوقوف بنانا اور لوٹا بننے میں دير نہ کرنا۔ اسي موقع کي مناسبت سے کولکتا کي کي منور رعنا کا ايک شعر ياد آيا ہے۔

مواليوں کو نہ ديکھا کرو حقارت سے

نہ جانے کونسا غنڈہ وزير ہو جاۓ

آپ صحيح سمجھے يہ پيشہ ہے قومي يا صوبائي اسمبلي کا ممبر ہونا۔ اگر کسي وجہ سے آپ کا داخلہ ادھر نہ ہوسکے تو پھر آپ سيلف فنانس سکيم کے تحت سينيٹر بن سکتے ہيں۔

اب آئيں ديکھيں کہ اس پيشے کي کتني تنخواہ ہے اور اس پيشہ ور کو کون کونسي مراعات حاصل ہيں۔

 تنخواہ – ايک لاک بيس ہزار سے دو لاکھ ماہانہ

اسمبلي کے  اخراجات – ايک لاکھ ماہانہ

دفتر کے اخراجات  – ايک لاکھ چاليس ہزار ماہانہ

سفري رعائيت – اڑتاليس ہزار ماہانہ اسلام آباد آنے جانے  کيلۓ

اسمبلي کے اجلاس کے دوران خرچہ – پندرہ ہزار ماہانہ

فرسٹ کلاس اےسي ٹرين کا سفر – فري

فرسٹ کلاس جہاز کا سفر – فري چاليس دفعہ

سرکاري ہوٹل رہائش – فري

بجلي – ستر ہزار يونٹ فري

ٹيليفون – ايک لاکہ ستر ہزار کاليں فري

ٹوٹل تنخواہ اور مراعات – تين کروڑ بيس لاکہ سالانہ

پانچ سال کي تنخواہ اور اخراجات – سولہ کروڑ

پانچ سو چونتيس ارکان کي تنخواہيں اور مراعات پانچ سال کيلۓ – نو سو کروڑ

مزے کي بات يہ ہے کہ آپ اس عرصے ميں کام بھي ايک آنے کا نہيں کرتے اور ٹھاٹھ باٹھ الگ ہيں۔ نہ آپ کي اے سي آر لکھي جاتي ہے اور نہ ہي آپ کا باس آپ کے برے کام کي سرزنش کرتا ہے۔ آپ چاہے جتني مرضي چھٹياں کريں آپ کي نوکري بحال رہے گي۔ آپ کيلۓ کوئي ادب اداب کي پابندي نہيں ہے۔ آپ دنگا مشتي بھي کرسکتے ہيں، گالي گلوچ بھي دے سکتے ہيں اور مخالف جنس کو رقعہ بھي لکھ سکتے ہيں۔ ليکن رقعہ لکھنے سے پہلےاس کے برے نتائج سے آگاہ ہونا ضروري ہے۔

آپ چاہے حزبِ اختلاف ميں ہوں يا حزبِ اقتدار ميں ، آپ کي مراعات ميں کوئي فرق نہيں آۓ گا بلکہ حذبِ اختلاف ميں آپ کروڑوں ميں بک سکتے ہيں۔ آپ پر يہ بھي کوئي پابندي نہيں کہ آپ ايک ہي جماعت سے منسلک رہيں بلکہ موقع پرستي سے لوٹا بھي بن سکتے ہيں۔

اس کے علاوہ بھي اس نوکري کے بہت سے فوائد ہيں جو اگر بيان کرتے جائيں تو شيطان کي آنت کي طرح ختم نہيں ہو ں گے۔

ليکن يہ نوکري حاصل کرنا اتنا ہي مشکل ہے جتنا جوۓ شير لانا۔ جب سے سٹوڈنت يونينز پر پابندي لگي ہے اس نوکري کے حصول کي راہيں عام پبلک کيلۓ بلکل مصدود ہو کر رہ گئي ہيں۔

نوٹ – ہم نے يہ ساري معلومات اسما مرزا کي اي ميل سے اخز کي ہيں۔