ہماری نظر سے کالم نگار ارشاد حقانی کا کالم نہیں گزرا مگر شکریہ ابوشامل کا جنہوں اس موضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔ اس کے بعد میں ہم نے جنگ کے کالم نگار سفیر احمد صدیقی کا کالم بھی پڑھا۔
عبدالقادرحسن جو بہت دھیمے مزاج کے آدمی ہیں بھی ارشاد حقانی پر ایسے برسے کہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے۔
موضوع اچھا ہے اور ہم نے سوچا کیوں ناں اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بھی اپنا حصہ ڈال دیں۔ ہم گاؤں میں پیدا ہوئے پھر پرائمری سکول کے زمانے میں ایک قصبے میں رہائش اختیار کر لی۔ وہیں سے میٹرک کیا اور ایف ایس سی شہر کے کالج سے کی۔ یونیورسٹی بھی ایک قصبے میں تھی اسلیے تعلیم کے دوران ہمیں کسی بڑے شہر میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں نوکریاں ہم نے لاہور، گوجرانوالہ اور واہ کینٹ جیسے بڑے شہروں میں کیں۔ اس کسیاتھ ساتھ کراچی، لاہور اور پشاور کو بھی قریب سے دیکھا۔
زندگی کا نچوڑ یہی کہتا ہے کہ جو آدمی اپنی مادری زبان میں سیکھتا ہے وہ بدیسی زبان میں نہیں سیکھ سکتا۔ پاکستان میں پہلے ہی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں اور اردو قومی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ پنجاب میں تعلیم کا ذریعہ اردو ہے جو پنجابی سے کافی ملتی جلتی ہے مگر پھر بھی اسے سیکھنے کیلیے پنجابی بچوں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ پٹھان، بلوچ اور سندھی بچوں کیلیے اردو سیکھنا پنجابیوں سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہوگا۔ ہمیں یاد ہے ہماری کتابیں اردو میں ہوا کرتی تھیں مگر استاد پنجابی میں پڑھایا کرتے تھے۔ یقین مانیں کالج میں استاد سے سوال پوچھتے ہوئے ہم اس لیے جھجھک جاتے تھے کہ ہمیں اردو پوری طرح بولنی نہیں آتی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی اکثریت کا یہی مخمصہ ہو گا کیونکہ پاکستان کی نوے فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔
اس وقت قومی سطح پر اردو اور علاقائی زبانوں کو نظر انداز کر کے انگریزی کی پذیرائی زیادہ کی جا رہی ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ یہ ہمارے بدیسی آقاؤں کی زبان ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی انگریزی سیکھیں تا کہ عوام کی شخصیت کو انگریزی زبان میں چھپے لٹریچر اور الیکٹرونکس میڈیا کی مدد سے بدلنا آسان ہو۔
ہمارے خیال میں اردو، انگریزی اور عربی کے چکر میں پڑنے کی بجائے سب سے پہلے حکومت کو ایک سمت کا تعین کرنا چاہیے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے اردو میں نصاب تعلیم نہیں چھاپنا اور اسے انگریزی میں ہی پڑھانا ہے تو پھر اردو عربی کے چکر سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی الگ زبان سے اپنا قومی تشخص قائم رکھنا ہے تو پھر اسے انگریزی سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ نصاب تعلیم کیلیے ملک میں صرف ایک زبان رائج ہونی چاہیے اور باقی زبانیں اختیاری یعنی اگر کسی کا جی چاہے سیکھ لے اور نہ چاہے تو نہ سیکھے۔ میٹرک تک اردو، آگے انگریزی اور عربی میں مذہبی مواد کا امتزاج بچے کے ذہن کی نشونما روک دیتا ہے۔
ہمارے خیال میں اگر ہم نے اپنے بچوں کو پاکستان میں ہی نوکریاں دینی ہیں تو پھر ہماری قومی زبان اردو کو فروغ دینا چاہیے اور اگر ہم نے گریجوایٹس کو تعلیم دے کر اپنے آقاؤں کے دیس بھیجنا ہے تو پھر ہمیں اردو کو بھول کر انگریزی کو قومی زبان کا درجہ دے دینا چاہیے۔ عربی بھی لازمی کی بجائے اختیاری ہونی چاہیے اور اسے طلبا پر زبردستی تھوپنا زیادتی ہو گی۔
یہ مانا کہ دنیا گلوبلائزیشن میں بدل کر سمٹ چکی ہے اور ہر طرف انگریزی کا دور دورہ ہے مگر ان ملکوں کی مثال ہمیں سامنے رکھنی چاہئیں جو ابھی تک اپنی قومی زبانوں میں ترقی کر رہے ہیں یعنی چین، جاپان، فرانس، جرمنی وغیرہ۔ اس لیے یہ کہنا کہ انگریزی ترقی کیلیے ضروری ہے غلط ہو گا ہاں اگر ہم اردو کو ذریعہ تعلیم مصیبت سمجھتے ہیں تو پھر انگریزی اپنا لیں۔ مگر خدارا ایک ہی دفعہ ایک زبان اپنا لیں اور ہمیشہ کیلیے اس مسئلے سے آزاد ہو جائیں۔ یہ چوں چوں کا مربع ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔
8 users commented in " کونسی زبان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbacktotally agreed with you. people are helpless. what to do? most of our population read english without any understanding. children just cram the whole chapters because they are forced to learn in a strange language.
ابو شامل صاحب کے بلاگ پر بھی میں نے یہ لنک پوسٹ کیا تھا ور یہاں پر بھی یہی عرض کروں گا کہ چھوٹی عمر میں ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنا انتہائی آسان ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے سے ذہنی نشونما پر برا اثر نہیں پڑتا بلکہ دونوں زبانوں میں یکساں مہارت ہوتی ہے اور اس کی مثال بیرون ملک مقیم لوگوں کے بچے ہیں جو اپنی مادری زبان اور اس ملک ی زبان یکساں مہارت سے بولتے ہیں۔
http://www.webmd.com/baby/news/20021104/never-too-early-to-learn-second-tongue?pagenumber=2
ایک زمانے تک تو ہماری تعلیم کے لازمی جزو کے طور پر عربی، فارسی، اردو اور انگریزی سیکھنا شامل تھا نا معلوم اسے کیوں صرف اردو اور انگریزی تک محدود کیا گیا ہے۔
نصاب کو مختلف زبانوں میں پڑ ھنا ایک مشکل عمل ضرور ہے تاہم میں راشد کامران صاحب کی بات سے متفق ہوں کہ “چھوٹی عمر میں ایک سے زیادہ زبانیں سیکھناآسان ہوتا ہے۔“
اگرآپ پڑوسی ملک کودیکھیں تو وہاں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد شاید شمار کرنا ہی مشکل ہو اور ہر بچہ غالبآ ایک سے زیادہ زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ تاہم انگریزی کی تعلیم وہاں ہر بچے کو ابتدا سے ہی دی جاتی ہے، رہی ہندی تو وہ انکے لیے رابطے کی زبان کی حثیت رکھتی ہے، جسطرح اب ہمارے یہاں اردو۔
میرا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر اساتذہ نصاب کو انگریزی میں پڑھائیں اور اسکو مقامی زبان میں سمجھائیں تو بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔
دور حاضر کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی پڑھائی جائے اور جہاں تک اردو کی بات ہے یہ رابطہ کی زبان ہے اور اب تو پاکستان میں ہرجگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے نصاب میں شامل رکھنے میں فائدہ ہی ہے نقصان نہیں۔
اس پر جتنا بحث کی جائے کم ہے
پر سننے والا کون؟؟؟؟؟
یہ تبصرہ میں نے ابو شامل صاحب کی تحریر پر بھی کیا ہے اور وہی یہاںچھاپ دیتا ہوں
میرے خیال میں حقانی صاحب کو بے وجہ ہی تختہ مشق بنا لیا
عین ممکن ہے کہ لوگ بلکہ لوگوں کی اکثریت ان کے خیالات سے متفق نا ہو
لیکن حقانی صاحب جتنے سینئرصحافی اور بڑے بڑے نام ان کو استاد مانتے ہیں
ابو نثر کو اس طرح کی تحریر زیب نہیں دیتی تھی
اور میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں اردو ہی وہ واحد زبان ہے جسکو سیکھ کر ہم ترقی کر سکتے ہیں
اگر عربوں نے عربی پڑھ کر ترقی کی ہے تو انگریزوں نے بھی انگریزی پڑھ کر ترقی کی ہے
جاپانیوں کورئین اور چینیوں نے بھی تو اپنی اپنی زبان پڑھ کر ترقی کی ہے
نا ہی انہوں نے عربی پڑھی نا ہی انگریزی
تو میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ہم 60-65 سالوں میں انگلش پڑھا سکے نا عربی تو اردو بیچاری کا کیا قصور ہے؟
اس کو بھی تو ایک موقع ملنا چاہئے نا
بھائی ہمسایہ ملک میں زبانیں بولی بہت جاتی ہیں لیکن ماسوا انگریزی کے کوئی بھی زبان ملک کے طول و عرض میں سمجھی اور بولی نہیں جاتی۔ یہ ہے المیہ “آزادی“ کا۔ اگر زبانیں ہی سکھانی ہیں تو سندھی، بلوچی، سرائیکی، براہوی، پشتو، شنا، پنجابی وغیرہ سکھاؤ۔ ان میںکیا بُرائی ہے؟ ویسے بھی اگر انگریزی پڑھ کر ہی ترقی ہوتی ہے تو یہ فرانس، جرمنی، جاپان، کوریا، چین، بیلجیئم، روس وغیرہا کیوں ترقی کر رہے ہیں؟ لگتا ہے ان تک ابھی یہ گُر کی بات ہی نہیں پہنچی 🙂
حیرت مجھے ان لوگوں پہ ہے۔ جنہیں اللہ تعالٰی نے عقل سلیم سے نوازا ہے ۔ وہ برسوں ارشاد احمد حقانی کو پڑھنے کے بعد بھی ارشاد احمد حقانی کو سمجھ نہیں پائے ۔ پاکستان کی صحافتی اجارہ داری اور بلخصوص بڑے اخبارات( بشمول نگریزی اخبارات) پہ قابض چند ایک کالم نویس ماسوائے کچھ لوگ چھوڑ کر باقی سب صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کے تابع لکھتے ہیں ۔ انکا مفاد اگر حکومت کے ساتھ ہے تو اسکی حمایت میں کالم کالے کرینگے ۔ اگر انہیں اپوزیشن کی آئیندہ حکومت بننے کا یقن ہو تو یہ اس کے ساتھ ہونگے۔ بہت سے ایجنسیوں کے تنخواہ دار ہیں اور بڑے بڑے کروڑوں روپے کے پلاٹس کے انعامات پانے والے تو بہت ہی ہیں۔ درست بات تو یہ ہے کہ بہت سے اخباری اور میڈیا کے لوگ صحافت کو اپنے اثر رسوخ کے لئیے استعمال کرتے ہیں ۔ خدا لگتی بات ہے ،یہ پینچ اور کھڑ پینچ قسم کے صحافی نہ صرف شخصیات بلکہ حکومتی اداروں کو بھی اپنے استعمال یا مفاد کے لئیے بلیک میل کرنے سے باز نہیں آتے ۔ الغرض اپنے مفاد کی خاطر یہ کسی بھی اصول کو کبھی بھی توڑ مروڑ کر پیش کر سکتے ہیں۔
جہاں تک کچھ لوگوں کی ان سے اندھی عقیدت کا تعلق ہے تو یہ عقیدت بنانے میں بھی توپ مار قسم کے کالم نویسوں کی شان میں رطب السان جونئیر کالم نویسوں کی خوشامد اور چاپلوسی کا ہاتھ ہے ۔ وہ بعض بعضوں کالم نویسوں کی شان میں تعریف و عقیدت کے پل باند ھ باندھ کر اپنے اخبارات کے کالمز میں ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ نئے اور جونئیر کالم نویس اور صحافیوں کو آگے بڑھنے کے لئیے، اپنے لئیے، روزگار جیسے بنیادی مسئلے کو مستقل بنیادوں پہ حل کرنے کے لئیے جغادری اور اپنے آپ کو توپ کہلوانے کالم نویسوں کا قدم قدم پہ سہارا چاھئیے ہوتا ہے ۔ تانکہ وہ کہیں فٹ ہوسکیں ۔ پاکستان کے حالات میں جہاں سب سے زیادہ چلنے والا سکہ خوشامد اور چاپلوسی ہے ۔ وہاں دیانتداری کو کون خوبی سمجھتا ہے۔ اسلئیے عام قاری اس منافقت کو سمجھ نہیں پاتا اور بہت چھوٹے کالم نویسوں کی تعریفوں سے ان بڑے کالم نویسوں سے عقیدت کا رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں عقیدت کا دھواں اسقدر دبیز اور گھنا ہوتا ہے کہ اس کے اُس پار کچھ نظر نہیں آتا ۔
کسی اخبار نویس یا کالم نگار کی دیانٹداری ملاحظہ کرنی ہو تو اسکے گھر کے حجم اور رہن سہن سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ کہ وہ کتنا دیانتدار ہے ۔ یا اسکے پلاٹس اور دیگر حکومتی نوازشوں اور مہربانیوں کو جانچنا چاھئیے کہ وہ ان سے کسقدر استفادہ کر رہا ہے۔ جبکہ یہ پلاٹ ، بیرونی ممالک میں مفت علاج، بیرونی دورے ، وقتا فوقتا نقد گرانٹس، بچوں کے اچھے اسکولز ، کالج میں داخلے وغیرہ جنہیں انعام یا سہولت کہا جاتا ہے ، یہ وہ رشوت ہے جو توپ مار قسم کے کالم نویس لیتے ہیں اور بدلے میں بدی کی مذمت نہ کر کے بد بنتے ہیں ۔
ہندؤستان میں مسلمان حکمرانوں کی مختلف زبانیں رہی ہیں ۔ پاکستان بننے سے پہلے کارسرکار کی زبان فارسی تھی ۔ اور بہت خوب تھی ۔ گو کہ جب انگریزوں نے مسلمانوں سے ھندؤستان چھینا اس وقت ملک کا نظم و نسق، طوائف الملوکی کے ہاتھوں تباہ برباد ہو رہا تھا اور ہر ادارہ فرسودہ ہوچکا تھا ۔مگر ادارے تھے ۔ زراعت اور زمینوں کا حساب کتاب بھی تھا۔ نقشے تھے ۔ وقت کا روازانہ کا حساب رکھا جاتا تھا ۔ مالیہ اور لگان کا حساب کتاب رکھا جاتا تھا ۔ فوج ۔فوجی ادارے اور تربیت گاہیں تھیں جہاں دفاعی امور پڑھائے جاتے تھے ۔ مدرسوں میں تعلیم بھی دی جاتی تھی اور اپنی حد تک اعلٰی تعلیم کا بندوبست بھی تھا ۔ جہاں سے مختلف علوم میں عاقل فاضل فارغ التحصیل ہوتے تھے اور مختلف محکموں میں حکومت کی معاونت کرتے تھے۔ یعنی ھندؤستان کی مسلمان حکومتیں ہر معاملے میں خود کفیل تھیں ۔ اور یہ سب تعلیم اور امور کاروبار ریاست فارسی میں ہوا کرتے تھے ۔ اور صدیوں یوں ہی ہوتا رہا ۔ زبان کبھی بھی مسئلہ نہیں تھی ۔ انگریز ایک دن میں ھندؤستان پہ قابض نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انکی انگریزی کی وجہ سے ھندؤستان انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا اس کے اسباب کچھ اور تھے۔
انگریزوں نے ہندؤستان چونکہ مسلمانوں سے چھینا تھا۔ اور انگریزوں کو خدشہ تھا کہ ہندؤستان کے مسلمان کبھی بھی ان کے لئیے مسئلہ بن سکتے ہیں اسلئیے مختلف بہانوں اور طریقوں سے مسلمانوں ، انکی ثقافت ، اور زبان فارسی کو دقیانوسی زبان قرار دینا لازم ٹہرا۔ اس سے ان کے دو فائدے تھے ایک تو مسلمان بغیر اپنی ثقافت اور زبان کے قومی طور پہ یتیمی کے احساس کمتری کا شکار ہو جائیں گے ۔ دوئم ھندؤستان کے مسلمان ایران میں فارسی زبان میں ہوتی زبان کی ترقی کو کبھی بھی نہ اپنا سکیں۔کبھی بھی انگریزوں کو چیلنج نہ کر سکیں ۔ یوں مسلمان صرف فارسی سے صرف نظر کرنے سے اپنی ہی شاندار تاریخ سے بیگانہ ہوگئے ۔ اور انکی تاریخی جڑیں کاٹ دی گئیں۔ اور وہ فارسی کے ایک آدہ جملہ تک بھی نہ سمجھ پاءیں چہ جائیکہ وہ اپنی تاریخ میں گم فارسی میں لکھے دفتروں کے دفتر کھنگال کر اپنی شاندار تاریخ اور اسمیں کئیے گئے کارناموں کا حوالہ دے سکیں ، تحقیق کر سکیں ۔ بیچ کی کڑیاں گم ہونے کی وجہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو انیس سو سنتالیس سے شروع کرتے ہیں ۔ جبکہ بحثیت ایک قوم ہندوستان میں ہماری صدیوں حکومت رہی ۔ عالم یہ ہے کہ کلام اقبال کو تو ایرانی جھوم جھوم کر پڑتے ہیں اور اس سے نصحیت پاتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی نوے فیصد سے زائد پاکستانی اپنے قومی شاعر رحمۃ اللہ علیہ کی فارسی شاعری سے بیگانہ ہے اور انکی فارسی شاعری پاکستانی شہریوں کے لئیے اجنبی ٹہرا دی گئی۔ اگر تب ھندؤستان کی زبان عربی ہوتی یا کوئی اور زبان تو اسکا حشربھی وہی کیا جاتا ۔ جو فارسی کا کیا گیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ صدیوں سے ھندؤستان کی حکمرانی کرنے والی قوم کو سب سے الگ تھلگ کر دیا جائے ۔
زبان خواہ انگریزی ہو یا عربی یہ سیکھنا اتنا مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ ہمارے کرتا دھرتاؤں کی بدنیتی ہے کہ وہ آج تک کسی ایک زبان کی ترویج و ترقی کا کام نہیں کر سکے اور اسے مکمل طور پہ رائج نہیں کر سکے ۔ آپکی اس تحریر کے جواب میں بہت سے فاضل تبصرہ نگار اردو زبان کا دفاع کرتے تو نظر آئے ہیں مگر کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں ۔ کہ پاکستان میں کہاں کہاں اور کب اردو کو رائج کیا گیا ہے ۔
پاکستان کا موجودہ لسانی نظام انتہائی ناکام اور فرسودہ ہے۔ اردو کبھی بھی پاکستان کے کے کسی بھی حصے کی زبان نہیں رہی ۔ شاید بہت کم لوگوں نے اس بات پہ غور کیا ہو کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں علحٰیدگی کی تحریک کا نقظہ آغاز بھی بنگلہ بھاشا کی جگہ اردو زبان کو رائج کرنا تھا ۔ جسے بنگالی نوجوانوں نے اپنی حق تلفی اور ناانصافی سمجھا اور یہ اختلاف قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی سامنے آچکا تھا ۔ جس نے آگے چل کر وہ شدت اختیار کی کہ ملک کا ایک بازو ہی ہم سے جدا ہو گیا۔ اب جب کہ مغربی پاکستان میں اردو کو اس لئیے برداشت کر لیا گیا کہ یہ صوبوں کی باہمی رابطے کی زبان قرار دی گئی ۔ جب کہ تعلیم دینے کے لئیے مادری زبان کا نسخہ تجویز کیا جانا تھا۔ مگر کچھ لوگوں کی بدنیتی سے عملا اردو کو پاکستان کی پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم دینے والے اداروں میں اردو کو میڈم زبان قرار دیا گیا ۔ جس پہ سندھ ہمیشہ چیں بی چیں رہا ۔ غالبا زوالفقار علی بھٹو کے دور میں صوبہ سندھ میں بنیادی تعلیم کا میڈیم سندھی زبان کو بنایا گیا ۔
اس سے نہائت مضحکہ خیز صورتحال بنتی ہے۔ پنجابی ، پشتو، سندھی ، بلوچی، مکرانی، سرائیکی وغیرہ ماحول میں پیدا ہونے والا بچہ اپنی مادری زبان سمجھ بھی نہیں پاتا کہ اس پہ اسکول میں اردو کی کتابیں لاد دی جاتی ہیں ۔ وہ بڑی مشکل سے اردو سے دل لگا پاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کی قومی اور سرکاری زبان مختلف ہیں ۔اگر قومی زبان اردو ہے تو سرکاری زبان انگریزی ہے ۔ سرکار دربار میں گھسنے کے لئیے انگریزی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ جسطرح پاکستان کے ہر شہر تحصل میں افسر کلب واقع ہیں جسمیں علاقے کا اے سی ، ڈی سی ، ہیلتھ افیسر ، ایس پی پولیس وغیرہ کےافسران ہی ممبر بن سکتے ہیں اور انھیں ہی ایسے کلبز میں جانے ، بیٹھنے اور موج میلہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح کارسرکار میں اثر ورسوخ رکھنے کے لئیے ۔ ملک کی ایلٹ کلاس میں پاؤں رکھنے کے لئیے ، انگریزی کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ ویسے بھی اس بچے کو بی ایس سی کے امتحانات میں پرچہ انگریزی میں ہونے کی وجہ سے یہ عقدہ کھل ہی چکا ہوتا ہے کہ سرکاری زبان تو انگریزی ہے اور اس نے پہلی جماعت سے آج تک اردو سمجھنے کے لئیے ناحق اتنی محنت کی ۔ زبان کے بارے میں بھی ہر وہ منافقت استعمال کی گئی ہے جو ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے۔ نتیجا اپنی مادری زبان بولنے والا بچہ اسکول میں کسی حد تک زبان کا مسلئہ حل کر ہی پاتا ہے تو اسے انگریزی کا بگل بجا دیا جاتا ہے۔
زبان کسی بھی قوم کی ھئیت ترکیبی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہے ۔ذرا تصور کریں عربوں سے عربی زبان جدا کر دی جائے تو باقی وہ کیا رہ جاتے ہیں۔؟ اسلئیے اب جبکہ پچھلی ساٹھ سالہ مسلط مشق سے پاکستانی قوم جب اردو سمجھنا شروع ہوئی ہے تو اسے ہی ترقی دی جائے اور اردو کی ترویج کا کام کیا جائے۔ کمپیوٹر کی تعلیم میں بھی اردو کو عام کیا جائے ۔ حکومت پاکستان کے لئیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
البتہ عربی زبان کو دوسری زبانوں پہ فوقیت دی جانی چاھئیے کہ ہم پہلے مسلمان ہیں اور پھر پاکستانی ہیں اور روز قیامت ہم سے ہماری مسلمانی کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ نہ کہ پاکستانی ہونے کے بارے میں سوال و جواب ہونگے۔ اسلئیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ عربی کو اردو کی طرح اپنایا جائے تاکہ ہمیں دین کی بھی سمجھ آسکے اور ہم مسلمانوں کی کی کسی بڑی کرنٹ کا حصہ بن سکیں ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ عربی بولنے سے ہم عربی نہیں کہلوائے جائیں گے۔ ان سے گزارش ہے کہ طلوع اسلام سے قبل شمالی افریقہ کے عربی ممالک اور اسلامی اور آج کے عرب خطے کے بعض دوسروے علاقوں کی زبان بھی تب عربی نہیں تھی۔ عربی سیکھنے کے بارے عرض ہے ہم دنیا میں اتنی بڑی تعداد کے عرب ممالک جو ہمارے خطہ میں واقع ہیں۔ ان کی اتنی بڑی آبادی کو اپنا مافی الضمیر تو ان کی زبان میں سمجھا سکیں گے اور ان کی علمی تحقیقی اور تروئین و ترقی سے استفادہ تو کر سکیں گے ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اردو کے لئیے نیشنل لینگوئج اتھارٹی گورنمٹ آف پاکستان میں کیبنٹ ڈویژن کی سطح پہ قائم یہ ادارہ جو اردو میں اپنے آپ کو ۔۔مقتدرہ قومی زبان ۔۔۔ کہلواتا ہے اربوں روپے کی فنڈ بغیر ڈکار لئیے ہضم کر گیا ۔ مگر اردو کے لئیے اسکی کوششیں آپ اسکی سائٹ سے ہی بخوبی پتہ چلاسکتے ہیں۔ یا اسکی کوششیں آپ کو پاکستان کی عملی زندگی میں کہیں نظر آئیں تو حیرت ہوگی۔ اس ادارے کا رابطہ میں آخر میں دے دونگا ۔ تاکہ سب کو علم رہے۔
عنیقہ بی بی! سے گزارش ہے کہ زبانیں کبھی بھی اور کئی ایک سیکھی جاسکتیں ہیں اور ان اہل زبان کی طرح عبور بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ خود مجھے کئی ایک زبانوں سے نا صرف شناسائی ہے بلکہ میں اہل زبان کی طرح اور کچھ ایک زبانیں عام اہل زبان کی نسبت اچھی بول لکھ پڑھ سکتا ہوں ۔ اور ایک ہی وقت میں دو یا تین مختلف افراد سے انھی کی تین مختلف زبانوں میں بھی تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق ہواہے۔ ضروری ہوجائے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں فی البدیہہ ترجمہ بھی نہایت آسانی اور روانی سے کرسکتا ہوں ۔ یہ اتنا مسئلہ نہیں ۔ یہ خیال بھی درست نہیں کہ بچپن کے بعد زبان سیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ تصور بھی غلط ہے کہ بہت سی زبانیں سیکھنے سے کسی ایک زبان میں اپنا مافی الضمیر فی البدیہہ کہنے میں الجھن ہوتی ہے۔ یہ بھی درست نہیں کہ کئی ایک زبان بولتے یا لکھتے ہوئے دوسری زبان کے الفاظ ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کو مطلوبہ اور مذکورہ زبان پہ مکمل عبور حاصل ہو۔
(نوٹ یہ تبصرہ میں نے محترم ابو شامل صاحب کے بلاگ کے لئیے لکھا تھا چونکہ آپ کا موضوع بھی زبان ہے۔ اور میری رائے میں اسے یہاں چھاپ دنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئیے)
http://www.nla.gov.pk/beta/achievements/
مندرجہ بالا رابطہ اردو کی ترقی کے لئیے قائم اداراے ۔۔ مقتدرہ قومی زبان۔۔ نامی کا ہے ۔ دیکھ لیں انہوں نے اپنی ساءت پہ کسقدر افسانوی کارنامے سجا رکھے ہیں ۔ جن سے غالبا آپ نے بہت سے کارہائے نمایاں پہلی بار دیکھے ہونگے یہ نہ کھلتے ہیں اور نہ ہی کہیں اپنا وجود بتاتے ہیں ۔ مگر ہیں ضرور۔ آپ کو سمجھ آئے تو مجھے بھی بتائیے گا۔
Leave A Reply