معمر قذافی سے ہم پاکستانی تب سے واقف ہیں جب وہ بھٹو کی بلائی اسلامی کانفرنس میں لاہور تشریف لائے اور بھٹو نے ان کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ اسی خوشی میں لاہور کے کرکٹ سٹیڈیم کو ان کے نام سے منصوب کر دیا گیا۔
اس کے بعد معمر قذافی ان لوگوں کی زبانی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہے جو لیبیا میں کام کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ لیبیا میں سخت سیکیورٹی ہے اور کوئی بھی معمر قذافی کے خلاف بولتا ہے وہ غائب کر دیا  جاتا ہے۔ لوگ اتنے خوف زدہ ہیں کہ وہ بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں بات سننے والے خفیہ ایجنسی کا جاسوس نہ ہو۔
پھر امریکہ میں ایک مسافر طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور اس کا الزام لیبیا پر لگا۔ امریکہ نے معمر قذافی کے محلات پر بمباری کی جس میں‌ قذافی کے رشتہ دار بھی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد طیارہ کیس میں مطلوب لیبیا کے شہری امریکہ کے حوالے کیے گئے اور انہیں سزا ہوئی۔
لیبیا پر اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں اور وہ دنیا میں تنہا ہو گیا۔ کافی عرصے بعد اس تنہائی کو دور کرنے کیلیے لیبیا نے طیارے میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو جرمانے کی رقم ادا کر دی اور امریکہ نے اقتصادی پابندیاں نرم کر دیں۔ اب لیبیا میں ترقی کے دروازے کھلے ہیں اورلوگ اس سہولت سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے کئی جاننے والے امریکہ اور کینیڈا سے اپنے ملک لیبیا لوٹ چکے ہیں۔
آج اسی معمر قذافی نے یو این میں‌ تقریر ایسے کی جیسے وہی مرد مجاہد ہیں اور ان کو دکھ ہے کہ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک نے یو این کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ انہوں نے یو این کا ہیڈکوارٹر امریکہ سے کسی اور ملک منتقل کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے سیکیورٹی کونسل کو ٹیررازم کونسل قرار دیا۔ امریکہ کے صدر اوبامہ کو اپنا بیٹااور بھائی قرار دیا۔ اسی طرح یو این کا آئین پھاڑا اور پھر اسے نیچے پھینک دیا۔ یہ ڈرامہ نوے منٹ جاری رہا اور ان کی تقریر کے دوران بہت سارے لوگ سوئے رہے۔ ہو سکتا ہے اس طرح معمر قذافی لیبیا کے سادہ لوح شہریوں کے ہیرو بن گئے ہوں مگر حقیقت میں وہ ڈکٹیٹر ہیں اور کئی دہائیوں سے لیبیا کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ وہ لیبیا کو تو آزادی دے نہیں‌رہے مگر دنیا کی آزادی کی انہیں فکر کھائے جا رہی ہے۔ یہی دوغلہ پن ہمارے آج کے اسلامی حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے اور وہ اپنے معصوم شہریوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے آج صدر زرداری بھی بینظیر کی تصویر سامنے رکھ کر لاحاصل تقریر کریں لیکن اپنے ڈکٹیٹر اختیارات چھوڑنے کی ہمت نہ کر پائیں۔