شادی محبت کی؟

پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ان کی منگنی والدین کی مرضی سے ہوئی دوسرے لفظوں میں ارینجڈ منگنی تھی مگر شادی محبت کی یعنی لو میرج ہوئی۔ اس امتزاج کو انہوں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ مانا کہ کراچی اس وقت ايڈوانس تھا اور لوگ اکثر آزاد خیال تھے مگر اتنےبھی نہیں کہ وہ منگنی کے بعد اپنی لڑکی کو لڑکے کیساتھ ڈسکو جانے کی اجازت دیتے۔

پرویز صاحب سسرال کے گھر پہلی دفعہ جانے کا بھی حال بیان کرتے ہیں۔ حیرانی یہ ہے کہ وہ گورے ذہن کے خیالات ہونے کی وجہ سے ایف سی کالج میں داخلے کی بات تو کرتے ہیں مگر سسرال والوں کے گھر جین یا تھری پیس سوٹ پہن کر نہیں جاتے۔ یہاں پر انہوں نے شلوار قمیض اور اس کے ساتھ پشاوری چپل کا انتخاب کیوں کیا یہ وہی جانتے ہیں۔ شکر ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس وقت پان بھی چبا رہے تھے اور سگریٹ بھی سلگایا ہوا تھا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اس دور میں شلوار قمیض اور پشاوری چپل آرمی آفیسرز کا پسندیدہ لباس ہوتا تھا۔ اگر آفیسر کے ہاتھ میں گولڈ لیف کی ڈبیا ہوتی تھی تو اس کی شان ہی اور ہوتی تھی۔ لوگ یہی بتاتے ہیں کہ اگر آفیسر مزہب سے آزاد ہے تو پھروہ اکثر شراب کباب کی محفلوں میں شرکت کرتا ہے اور جوا بھی کھیلتا ہے تاکہ وہ اپنے ماڈرن ساتھیوں کے سامنے شان سے کہ سکے کہ وہ آزاد خیال ہے۔ یہ عادتیں انہیں کاکول اکیڈمی کی ٹریننگ کے دوران ہی پڑ جاتی ہیں۔

چلیں مان لیا کہ پرویز صاحب متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی والدہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کیلۓ نوکری کرتی تھیں اسی لۓ ہوسکتا ہے ان میں تھری پیس سوٹ خریدنے کی اس وقت استطاعت نہ ہو کیونکہ ابھی وہ بڑے آفیسر نہیں بنے تھے لیکن ساتھ ہی وہ فائیو سٹار ہوٹل میں ڈسکو جانے کا جب ذکر کرتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ ان اخراجات کیلۓ رقم کا بندوبست کیسے کرتے ہوں گے۔

ہمیں یقین ہے کہ پرویز صاحب کے کافی سارے معاصرین جو رشتہ دار اور دوست ہیں وہ زندہ ہوں گے اور ہوسکتا ہے کچھ دنوں میں ان  کے بیانات آنا شروع ہوجائیں جن سے پرویز صاحب کے بیان کردہ واقعات کی تردید یا تصدیق ہوسکے۔ ہم پرویز صاحب کے معاصرین سے پرخلوص التجا کریں گے کہ وہ زبان کھولیں اور کم از کم ان واقعات پر کچھ کہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں لگتا۔ 

پرویز صاحب کی تحریر سے یہی لگتا ہے کہ وہ شروع میں انگریز ٹائپ نہیں تھے بلکہ ان کی عادات تب بدلیں جب وہ سینئر آفیسر بنے اور ان کا ملنا ملانا سرکاری گوروں سے ہوا۔ اب اگر وہ اپنی اس تبدیلی کو چھپانے کیلۓ کچھ باتیں گھڑ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کررہے ہیں کیونکہ اسی طرح وہ روشن خیالوں کو خوش کرسکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہماری موجودہ نسل ان کے بیان کۓ ہوۓ بچپن اور جوانی کے راستوں پر نہ چلے۔ یہ وہی خواب ہے جو فلموں میں دکھایا جاتا ہے اور جس کا حقیقت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔     

 پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ جب بھی وہ کراچی واپس آتے، وہ صہبا سے ملتے، باہر جاتے، فلم دیکھتے اور میڑوپول ہوٹل میں ڈسکو میں جاتے۔ اب یہ سب یہاں بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اسطرح پرویز صاحب اپنے دونوں بچوں اور پوری قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اچھا کیا جو روشن خیالی کے ثبوت اپنے تک ہی محدود رکھے اور اپنی اولاد کو اس میں نہیں گھسیٹا۔ حالانکہ اگر پرویز صاحب چاہتے تو اپنی اولاد کی بھی داستانیں بیان کرکے روشن خیالی کے تصور کو اپنی نسل میں پروان چڑہانے کی بھی بات کرسکتے تھے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کی بیٹی اور بیٹے کی شادی لو میرج نہیں بلکہ ارینجڈ میرج ہی ہوئی ہوگی۔

پرویز صاحب نے ڈسکو کلب جانے کا تو ذکر کیا ہے مگر شکر ہے پینے پلانے کی بات نہیں کی۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں بھٹو کی یہ غلطی ہو۔ ایک بار بھٹو نے عوامی اجتماع میں یہ کہ کر کہ تھوڑی سی پیتا ہوں اپنی جان مصیبت میں ڈال لی تھی اور بعد میں شراب پر پابندی کے باوجود یہ غلطی ان کو لے ڈوبی ۔ پرویز صاحب نے یہی سوچ کر پینے پلانے کی بات نہیں کی ہوگی کیونکہ ایم ایم اے عوام کی کوئی اور خدمت کرے نہ کرے وہ پرویز صاحب کی پینے پلانے کی عادت سے ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ۔ حالانکہ گورا ٹائپ کا آفیسر شراب نہ پۓ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویسے اگر دیکھا جاۓ تو بات بناں کہے کہ دی گئ ہے کیونکہ ظاہر ہے ڈسکو کلبوں میں اگر شراب نہیں پیش کی جاۓ گی تو کیا کوکا کولا پیش ہوگا۔

ہاں ایک بات جو پرویز صاحب کو یہاں بھول گئ وہ یہ ہے کہ جب ان کی پوسٹنگ ڈھاکہ ہوئی تو کیا انہوں نے اپنی پرانی محبوبہ کو وہاں ڈھونڈنے کی کوشش کی؟ اگر نہیں کی تو کیوں؟ قدرت نے انہیں ایک ہونے کا دوبارہ موقع دیا اور انہوں نے وہ بھی کھو دیا۔ یہ ہرجائی پن جو پرویز صاحب کی شخصیت میں نظر آرہا ہے اس نے ملک و قوم کو یہ فائدہ تو بحرحال پہنچایا ہی ہے کہ طالبان سے بیوفائی کرکے وقتی طور پر پاکستان کو ایک بہت بڑے بحران سے بچا لیا مگر افسوس کی یہ بات ہے کہ انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی ایسا پلان بنایا جس سے ہم پر دوبارہ ایسی بیوفائی کا الزام نہ لگ سکے۔ 

پھر صہبا سے ان کی شادی ہوگئ اور بقول ان کے وہ بہت خوبصورت اور قابل بیوی ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ اچھی ماں بھی بنی۔ کہتے ہیں صہبا نے ان کی بہت ساری عادتیں بدل دیں۔ اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب یہاں پر ان عادتوں کا ذکر کرکے اپنی بیوی کی عزت میں تھوڑا اضافہ کردیتے۔ لیکن اگر ان کی موجودہ زندگی کو دیکھیں تو کچھ عادتیں ابھی بھی ایسی ہیں جن کی طرف صہبا پرویز کو دھیان دینا چاہۓ اور ان کو درست کرنا چاہۓ۔ ہوسکتا ہے صہبا صاحبہ کو پہلے ہی ان عادتوں کا علم ہو مگرہم ایک آدھ بات  کا یہاں ذکر کرکے اپنا فرض پورا کردیتے ہیں۔

 پرویز صاحب کا ہرجائی پن ابھی تک ان کیساتھ ہے اسی لۓ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں کچھ یو ٹرن لۓ۔

پرویز صاحب کچھ مجبوریوں کے تحت وعدہ توڑنے کی عادت ميں بھی مبتلا ہیں۔

ہر پاکستانی کی طرح وہ بھی خود غرضی کی عادت کا شکار ہیں اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے اکثر سب سے پہلے “میں” کو اوّلیت دیتے ہیں۔ اس کا انہیں تو فائدہ ہوررہا ہے مگر ملک گھاٹے میں جارہا ہے۔

پرویز صاحب اپنے مزہب اسلام سے بہت چڑ کھاتے اور اسے شدت پسندی کا نام دے کر ساری برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ صہبا صاحب سے گزارش ہے کہ وہ پرویز صاحب کو اسلامی تاریخ پڑھنے کی طرف مائل کریں۔ شائد اسی طرح پرویز صاحب اسلام کی طرف واپسی کا سفر شروع کرسکیں اور اپنے عمل سے ثابت کرسکیں کہ وہ آلِ نبی صلعم سے ہیں۔ 

پرویز صاحب پرانی روائت نبھاتے ہوۓ عوام کو اقتدار سے باہر رکھے ہوۓ ہیں اور ان کے ارد گرد وہی جاگیردار اور وڈیرے اکٹھے ہوۓ ہوۓ ہیں جو پہلے لیڈروں کو ڈبو چکے ہیں۔ کیا صہبا صاحبہ پرویز صاحب کی اس عادت کو بدل کر پاکستان پر احسان کرسکتی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ پرویز صاحب کو مجبور کریں کہ وہ آئیندہ انتخابات ایسے منعقد کرائیں کہ ان میں صرف وہی لوگ اسمبلی میں آ سکیں جو عام شہری ہوں یعنی وکیل، موچی، لوہار، جولاہے، کسان، دوکاندار، سنیارے اور اسی طرح کی دوسری پبلک۔ شائد اسی طرح پرویز صاحب صنعتکاروں، جاگریرداروں، وڈیروں اور سرداروں کے الیکشن میں حصہ لینے اور ان کے اسمبلیوں میں دوبارہ آنے کو روک سکیں۔