نیوکلیائی دنیا – حصہ دوئم

911 کے بعد ہم پر ہمارے ایٹمی اور میزائل اسلحے کے بارے میں امریکہ کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ آیا۔ امریکیوں کے دو خدشات تھے۔

اول، یہ کہ اس وقت تک وہ میری حکومت کے استحکام کے بارے میں مطمٔن نہیں تھے اور انہیں اس بات کا انتہائی خوف تھا کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار میرے بعد آنے والی کسی انتہاپسند حکومت کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔

دوم، انہیں ہمارے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو دہشت گرد گروہوں سے بچا کر رکھنے کی اہلیت کا مکمل یقین نہیں تھا۔

[یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پرویز صاحب اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایٹمی اساسوں کی دیکہ بھال کیلۓ ان کا اقتدار میں رہنا نہایت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ شاید مر کر ہی اب حکمرانی چھوڑیں گے]۔

میں نے ان کے شبہات کو رفع کرنے کی پوری کوشش کی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ مجھے اور دہشت گردی کے خلاف اتحادیوں میں شامل ہونے کے میرے فیصلے کو، قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مجھے اپنے قائم کردہ نگرانی کے نظام کے موثٔر ہونے پر بھی پورا یقین تھا۔ البتہ یہ خدشہ ضرور تھا کہ ممکن ہے اے کیو مارچ 2000 سے پہلے غلط سرگرمیوں میں مصروف رہے  ہوں، لیکن یہ یقین بھی تھا کہ اب جب کہ سبکدوش ہوگۓ ہیں تو آئندہ ہمارے لۓ مشکلات پیدا نہیں ہوں گی۔ میں غلط ثابت ہوا۔ غالباً انہوں نے اپنی تنظیم کے دبئی میں قائم دفاتر کے ذریعے اور زوروشور سے کام شروع کردیا تھا۔

[خان صاحب پر شک ہونے کے بعد ان کی تبدیلی اور پھر نگرانی کے باوجود وہ حکومت کے  قابو میں نہیں آۓ۔ یہ بات عقل نہیں مانتی]۔

امریکیوں کے خدشات مزید بڑھ گۓ۔ صدر سے لے کر نیچے تک، ہر امریکی جو مجھ سے بات کرتا تھا یا پاکستان کے دورے پر آتا تھا، ہمارے نیوکلیائی ہتھیاروں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتاتھا۔ کولن پاول نے جنہیں میں نہ صرف ایک دوست سمجھتا ہوں بلکہ جو ایک انتہائی قابل، متوازن اور کھلے دماغ کے آدمی ہیں، مجھ سے یقین دہانیاں مانگیں۔ ہر ایک کو میرا جواب یہی تھا کہ مجھے پاکستان کے حالات پر اور اپنے نگرانی کے نظام پر پورا اعتماد ہے۔ اے کیو کی سبکدوشی کے کچھ عرصے کے بعد تک سرکاری سطح کی میٹنگوں میں امریکی، ماضی ميں پاکستان سے شروع ہوۓ ایٹمی پھیلاؤ کے بارے میں سوال اٹھاتے رہے، لیکن ہماری طرح ان کے پاس بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔ ہم ان تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے کیونکہ ہمارے بھی صرف شبہات تھے، کوئی حتمی ثبوت نہیں تھے۔

2002 کے بعد بہت نمایاں اور پریشان کن انکشافات سامنے آۓ اور ان سب کا تعلق اے کیو کی سرگرمیوں سے تھا۔ امریکی تفکرات، شمالی کوریا پر مرکوز تھے۔ ہم نے صاف گوئی سے تمام الزامات سے پھر انکار کیا اور بتایا کہ ہاں، ہم نے شمالی کوریا کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کے ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کیا تھا، لیکن نیوکلیائی ہتھیاروں میں ہرگز نہیں۔ جہاں تک حکومتِ پاکستان کا تعلق تھا، یہ ایک حقیقت تھی۔ 2002 میں امریکہ اور شمالی کوریا کی باضابطہ بات چیت کے دوران کوریائی مندوبین نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس اور بھی زیادہ جدید ٹیکنالوفی موجود ہے [غالباً ایٹمی افزائش کی ٹیکنالوجی]، جس کا امریکہ کو علم نہیں۔ امریکہ نےا سے پاکستان کی برق رفتار مشینوں کی طرف اشارہ سمجھا۔ پاکستان کے خلاف شبہ اتنا زیادہ بڑھا کہ اپنے مروجہ قوانین کے مطابق امریکی حکومت ہمارے خلاف پابندیاں لگانے پر مجبور ہوگئ۔ پابندیاں ہمارے لۓ تباہ کن ثابت ہو سکتی تھیں، لیکن خوش قسمتی سے اس وقت تک میں، صدر بش کے ساتھ باہمی مفادات اور اعتماد پر مبنی اچھے تعلقات استوار کرچکا تھا۔ صدر بش نے صرف اے کیو کے ادارے پر پابندی لگائی۔ اس کے باوجود ہم پر اے کیو کی غیرقانونی نیوکلیائی پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی تحقیقات کرنے کے لۓ دباؤ پڑتا رہا۔ ہم نے خفیہ طریقوں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔

اس کے بعد ایک اور دھماکا خیز انکشاف ہو۔ وسط 2003 میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرتے ہوۓ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو ایرانی کارخانے کے احاطے میں اونچے درجے کی ایٹمی آلودگی کی موجودگی کی وجہ سے نیوکلیائی پھیلاؤ کے آثار کا انکشاف ہوا۔ ہماے دماغ میں فوراً اے کیو کے اس معاملے سے تعلق کا شبہ پیدا ہوا۔ دل ہی دل میں، اے کیو کے بارے میں میرے شبات کو تقویت مل رہی تھی۔ مجھے یقین  ہوگیا تھا کہ ہمیں اس معاملہ کی تہ تک پہنچنا ہے، خواہ اس کے لۓ باقاعدہ تخقیقات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔

اس کے بعد ایک ایسا لمحہ آیا، جس نے مجھے انتہائی شرمندہ کیا۔ ستمبر 2003 ميں اقوامِ متحدہ کی سربراہ کانفرنس کے دوران، جب میں صدر بش سے ملا، تو وہ مجھے ایک طرف لے گۓ اور پوچھا کہ “آیا میں اگلی صبح، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جاج ٹینیٹ کے لۓ کچھ وقت نکال سکتا ہوں، آپ کے لۓ یہ انتہائی اہم اور ضروری ہے۔” انہوں نے کہا، ميں نے ہاں کردی۔

اگلے دن صبح، ٹینیٹ ہوٹل میں میرے کمرے میں آۓ۔ آغاز خوش گپیوں سے ہوا، جس کے بعد انہوں نے کچھ کاغزات نکال کر میرے سامنے رکھ دیۓ۔ میں فوراً پہچان گیا کہ وہ پاکستان کی پی ون مشینوں کے نقشے تھے، اگرچہ اب وہ ہمارے استعمال میں نہیں تھے، لیکن ہمارے پروگرام کے اوائل میں اے کیو کی زیرِ نگرانی بناۓ گۓ تھے۔ یہ کاغزات اور نقشے، پرزوں کے نمبروں اور دستخطوں کے ساتھ مکمل تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ میں کچھھ بول نہ سکوں، لیکن وہ ایسا ہی وقت تھا۔ میری پہلی سوچ اپنے ملک کے لۓ تھی۔ اسے نقصان پہنچنے سے کیسے بچاؤں؟ دوسری سوچ میں اے کیو کے خلاف انتہائی طیش میں تھا۔ “انہوں نے پاکستان کو خطرے ميں ڈال دیا ہے۔” س میں کوئی شبہ نہیںتھا کہ وہ ہماری فنی مہارت کو فروخت کررہے تھے، حالانکہ ٹینیٹ نے ایسا نہیں کہا اور نہ ہی نقشوں پر ان کا نام تھا، مگر ان کی مرضی کی سرگرمیوں کی وجہ سے مجھے اپنے شبے پر کوئی شک نہیں تھا۔ میں نے اپنے حواس بحال کۓ اور ٹینیٹ سے کہا کہ وہ مجھے یہ سب کاغزات دے دیں تاکہ میں تفتیش شروع کروا سکوں۔ انہوں نے دے دیۓ۔ مجھے اعتراف ہے کہ انہوں نے مجھ پر مکمل پقین اور بھروسا دکھایا۔ صدر بش اور ان کی وزارتِ خارجہ کے افران کا، اس وقت تک بنا ہوا مجھ پر اعتما، ہمارے تحفظ کے لۓ انہتاہی مؤثر ظابت ہوا۔

یہ پورا ناگوار اور کریہہ واقعہ فاش ہوگیا اور ہمارے ماتھے پر چیپک گیا۔ بعد میں آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کو ایران کی ایٹمی مشينوں میں تابکاری کے اثرات ملے اور اس بات کا رخ ایرانی حکام نے بڑے آرام سے مشینیں بیچنے والے غیرملکی ذرائع کی طرف موڑ دیا۔ پاکستان تمام ذرائع ابلاغ کی خبروں میں تھا۔ یہی کیا کم تھا کہ 2003 کے آخر میں بی بی سی چائنا نامی جہاز بحیرہِ روم میں پکڑا گیا، جو ملائیشیا سے ایٹمی مشینوں کے اہم پرزے لے کر لیبیا جارہا تھا۔ ملائیشیا کے کارخانے کی کڑیاں بھی اے کیو سے جا ملیں۔ لیبیا نے بھی پاکستان کو اپنی ایٹمی افزائش کی مشینوں اور فنی معلومات کا ذریعہ بتایا۔ ہم تمام دنیا کے سامنے، ایسے ملکوں کو غیرقانونی ایٹمی فنی معلومات فراہم کرنے کا وسیلہ سمجھ لۓ گۓ، جو دنیا کے خطرناک ترین ممالک کہلاۓ جاتے تھے۔ میرے لۓ آئندہ ایسی سرگرمیاں روکنے اور یہ تفتیش کرنے کےلۓ کہ اب تک کیا ہوا تھا، فوری اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ضروری تھے۔

نومببر 2003 میں ہم نے تفتیش شروع کی، انکاشافات ہونے لگے۔ ہماری چھان بین سے معلوم ہوا کہ اے کیو نے ایسی سرگرمیاں بہت پہلے یعنی 1987 میں شروع کی تھیں، خصوصاً ایران کے ساتھ۔ 1994-95 میں اے کیو نے 200 کی تعداد میں پی ون مشینیں بنانے کا آرڈر دیا، جنہیں پاکستان نے اسی کی دہائی میں بنانا بند کردیا تھا۔ انہیں آگے تقسیم کے لۓ دببئ میں قائم دفتر سے، اپنی شخصی زیرِ زمین تنظیم کے ذریعے دنیا بھر میں فنی مہارت فروخت کررہے تھے۔

ان کی تنظیم کی پاکستانی شاخ کے آر ایل میں تھی اور اس میں وہاں کام کرنے والے ہزاروں سائنس دانوں میں سے اس کام کے لۓ ان کے ساتھ صرف چار سے چھھ افراد شامل تھے۔ ان میں سے بھی چند اصل مقصد سے ناواقفیت کی بنا پر اے کیو کے احکامات پر عمل کرتے ہوۓ نادانستہ طور پر اس میں ملوث ہوگۓ۔ تنظیم کی دوسری شاخ دبئ میں تھی اور اس کا کام سامان کی رسد اور ترسیل تھا۔ اس میں کئ مشتبہ اور غیر معتبر افراد اور یورپی کاروباری کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ 2003 اور 2004 میں کی گئ تفتیش اور اس کے بعد جمع کی ہوئی معلومات کی بنیاد پر، جسے ہم نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ آئی اے ای اے اور دوسرے عالمی خفیہ اداروں کو بھی بتایا اور شریک کیا۔ میں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان آرمی اور نہ ہی پاکستان کی سابق حکومتوں میں سے کوئی اے کیو کی ایٹمی پھیلاؤ سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث تھا اور نہ ہی انہیں اس کا علم تھا۔ کلیتاً اور پوری کاروائی اے کیو کی اپنی تھی اور انہوں نے یہ سب دولت کے حصول کے لۓ کیا۔ وہ قومی مفاد، جس کے تحفظ کے لۓانہوں نے اتنا سب کچھ کیا تھا، ان کی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہیں کسی نے بے وقوف بنا کر اپنے مقاصد کۓ لۓ استعمال کیا ہو جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔

[لوگ اس ساری تفصیل کو پڑھنے کے بعد بھی قائل نہیں ہوں گے کہ خان صاحب نے یہ کام تنِ تنہا کیا ہوگا۔ یہ ان کا بڑا پن اور مجبوری تھی کہ انہوں نے سارا گناہ اپنے سرلے لیا]۔

نیوکلیائی پھیلاؤ میں اے کیو کی شراکت، شاید ان انتہائی خطرناک اور افسوسناک ترین بحرانوں میں ایک ہے، جن کا مجھے سامنا کرنا پڑا۔ مغرب عموماً اور امریکہ خصوصاً ان کا سر ایک طشت میں رکھا ہوا چاہتے تھے، لیکن پاکستانی عوام کی نظروں میں وہ ایک ہیرو، جانا پہچانا نام، پاکستان کی قابلِ فخر ملکیت اور ایٹم بم کے خالق تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ماہرِفلزیات تھے اور ان کا تعلق نیوکلیائی ترقیاتی منصوبے کی مختلف کڑیوں میں سے ایک کے ساتھ تھا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو البرٹ آئن سٹائن اور جے رابرٹ آپن بائمر دونوں کے مجموعے کے طر پر پیش کررکھا تھا۔

[پرویز صاحب مانیں یا نہ مانیں خان صاحب نے وہ معرکہ پاکستان کیلۓ سرانجام دیا جس کا البرٹ آئن سٹائن اور دوسرے سائنسدانوں کی ان کے ملک کی خدمات سے کیا جاسکتا ہے۔ خان صاحب کو صرف ماہرِ فلزیات کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ پاکستانی ایٹم بم کے وہ خالق نہیں ہیں ایک بچگانہ سوچ ہے۔ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کے انچارج تھے اور ان کو اس کام کا کریڈٹ اسی طرح دیا جانا چاہۓ جس طرح پرویز صاحب ایک فوجی ہوتے ہوۓ ملک کی معاشی ترقی، حقوقِ نسواں، نیم فوجی جمہوریت کے چیمپین کہلوانا پسند کرتے ہیں]۔

بعض اوقات تصورات، حقیقت سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ مجھے بین الاقوامی تحفظات کو مطمٔن کرنے کے لۓ فوری اقدامات کرنے تھے اور دوسری طرف اپنے ہیرو کی حمایت میں پاکستانی عوام کے جزبات بھی بھڑکنے سے روکنے تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ قوم کے اتنے افسوس ناک اور برے وقت میں، بجاۓ اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے، ہماری حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس سکینڈل پر میرے خلاف باتیں کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔

[صرف حزبِ اختلاف ہی نہیں بلکہ پوری قوم اس اقدام پر خان صاحب کیساتھ تھی اور اب بھی ہے۔ آج اگر آپ پاکستان میں سروے کرائیں تو اکثریت خان صاحب کی حمایت کرے گی]۔

میں نے دنیا کو یقین دلایا کہ نیوکلیائی پھیلاؤ میں صرف ایک شخص ملوث تھا نہ کہ پاکستان آرمی یا حکومتِ پاکستان۔ یہ ایک حقیقت بھی تھی، جسے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا تھا۔ زیادہ دشوار اب مسٔلہ اے کیو پر کھلے عام مقدمہ چلانے سے بچنا تھا۔ یہ بات یقینی تھی کہ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، عوام ان پر مقدمہ چلاۓ جانے کے خلاف احتجاج کریں گے۔ میں ایک ایسے حل کے بارے میں سوچ رہا تھا، جو سب کے لۓ قابلٍ قبول ہوتا۔

میں نے طے کیا کہ اے کیو سے بات چیت کے لۓ میں خود ان سے ملوں۔ جب ہم ملے اور میں نے ان کے سامنے ثبوت رکھے تو وہ جھاگ کی طرح بیٹھھ گۓ اور اقرار کیا کہ وہ اپنے آپ انتہائی قصوروار سمجھتے ہیں اورانہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیں باضابطہ طور پر معاف کردیا جاۓ۔ ميں نے جواب دیا کہ انہیں براہِ راست پاکستان کے عوام سے معزرت کرنی اور معافی مانگنی چاہۓ۔ یہ طے کیا گیا کہ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ وہ ٹیلی ویثن پر پیش ہو کر ملک کو تمام دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے اور صدمہ پہنچانے کی پاداش میں پوری قوم سے معافی مانگیں۔ اس کے بعد میں نے ان کی مقدمہ نہ چلانے کی درخواست قبول کرلی، لیکن ان کے اپنے تحفظ کے لۓ اور آئندہ ہونے والی تفتیش کے مدِنظر انہیں حفاظتی حراست میں لے لیا۔

[خان صاحب کو ٹی وی پر پیش کرکے کیا ثابت کیا گیا؟ کیا اسطرح پرویز صاحب کی روح کو تسکین مل گیا؟ کیا اسطرح خان صاحب کو ذلیل کرکے پاکستان کے اسلامی ایٹم بم سے دنیا کی نظریں ہٹ گئیں؟ خان صاحب کو صرف اسلۓ امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس طرح کئ اور پردے اٹھتے اور کئ اور راز فاش ہوتے]۔

تب سے ہم نے خصوصی تحفظ فراہم کرنے کے لۓ اور تفصیلی تفتیش کے لۓ انہیں ان ہی کے مکان ميں نظر بند کیا ہوا ہے۔ ہمیں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئی ہیں، جو ہم نے پوری دیانتداری کے ساتھ بین الاقوامی خفیہ اداروں اور آئی اے ای اے کو بتائی ہیں۔ یہ معلومات اس تنظیم کو ختم کرنے میں، خصوصاً پاکستان میں، انتہائی کارآمد ثابت ہوئیں۔

اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ ایٹمی پھیلاؤ کی تنظیم میں اے کیو کا کردار مرکزی تھا، لیکن دوسرے ملکوں، خصوصاً یورپ میں دولت کے لالچی بہت سے افراد اس کام میں ان کی مدد کررہے تھے، اور جو ایران اور لیبیا جیسے ملکوں کو ایٹمی مشینوں سے متعلق سازوسامان اور پرزوں کو بنوا کر یا بنا کر ترسیل کیا کرتے تھے۔ اے کیو کے مطابق ان افراد میں سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، برطانیہ اور سری لنکا کے باشندے شامل تھے۔ ان میں سے چند افراد، جو یورپ اور دبئ میں مقیم تھے، ساتھ ہی ساتھ اپنے اپنے کاروباری منصوبوں پر بھی عمل کرتے تھے۔ یہ بھی مضحکہ خیز ہی ہے کہ دبئ میں اس تنظیم کی ایک شاخ میں چند بھارتی بھی کام کررہے تھے، جو تب غائب ہوچکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بھارتی یورینیم کی افزائش کے پروگرام کی جڑیں بھی دبئ کی اس تنظیم میں ہوں اور ان کی ایٹمی مشینیں پاکستان کی مشینوں کی نقل ہوں۔ حال ہی میں نیوکلیائی پھیلاؤ کے ماہر اور ممتاز امریکی مبصر نے اس امکان پر روشنی ڈالی ہے۔

[یہ ایک مضحکہ خیز قیاس ہے کہ انڈیا نے ہماری مشینوں کی نقل کی کیونکہ انڈیا تواس سے تبس سال پہلے ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ دوسرے اس جرم کے باوجود دنیا نے بھارت کی خبر نہیں لی اور بھارت نے اپنے باباۓ ایٹم بم کو صدر بنا کر اس کا احسان چکانے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ہم نے خان صاحب کی تیس سالہ محنت پر پانی پھیر دیا اور انہیں قربانی کا بکرا بنا کر باقی سائنسدانوں کیلۓ نشانِ عبرت بنا دیا]۔

لیبیا کو اے کیو   نے تجویز دی تھی کہ وہ اپنی ایٹمی تنصیبات کو بھیڑوں یا اونٹوں کے رکھنے کی جگہوں کی طرز پر تعمیر کریں۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ “چھپانے کا اس قسم کا عمل” کافی آسان تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اے کیو کو اگرچہ اچھی طرح معلوم تھا کہ لیبیا فنی لحاظ سے بہت کمزور ہے اور یہ کہ مشیوں کے پرزے مختلف ذرائع سے مہیا کۓ جارہے ہیں، لیکن انہوں نے لیبیا سے  مشین کی چرخی ساخت کرنے کےلۓ کہا۔ اگرچہ لیبیا نے بہت سے پرزے خریدے اور تنظیم میں شامل سب افراد نے ماللی فائدے اٹھاۓ، لیلکن وہ مشینوں کو چلا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ خود اور مقامی طور پر چرخی بنا ہی نہیں سکتے تھے۔ لیبیا کے ساتھھ یہ سودا تقریباً 100 ملین ڈالر مالیت کا تھا۔ اے کیو کی لاپرواہی کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ لیبیا میں ایک نیوکلیائی ہتھیار کا نقشہ پکڑا گیا تھا، جسے انہوں نے اسلام آباد کے ایک درزی کے شاپنگ بیگ میں رکھ کر مہیا کیا تھا۔

[جتنی مرضی من گھڑت کہانیاں بیان کريں لوگ خان صاحب کو ایک ذہین اور قابل شخص مانتے تھے اور مانتے ہیں]۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شمالی کوریا کو تقریباً دو درجن پی ون اور پی ٹو مشینیں مہیا کیں۔ انہوں نے شمالی کوریا کو ایک پیمائشی آلہ اور کچھھ خصوصی مشینی تیل بھی مہیا کۓ، مشینوں کے بارے میں تربیت دی اور ایٹمی مشینوں کے خفیہ کارخانوں کے دورے کۓ۔ انہوں نے ایران اور لیبیا کو دبئ کے ذریعے تقریباً 18 ٹن وزن کا سازوسامان مع ایٹمی مشیوں، پرزوں اور نقشوں کی شکل میں مہیا کیا۔

جب نومبر 2003 میں ہم نے اے کیو کی ایٹمی پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی تفتیش شروع کی تو ہمارے خفین اداروں نے، ان کے تحریر کردہ دو خط پکڑے۔ پہلے خط کا پیغام رساں ان کا ایک کاروباری شریک تھا۔ اس خط میں انہوں نے ایران میں اپنے چند دوستوں کو ہدایت کی تھی کہ کسی بھی صورت میں وہ ان کا نام آئی اے ای اے کو ہرگز نہ بتائیں اور یہ بھی کہا کہ وہ تفتیش کے دوران مردہ لوگوں کے نام لیں، جیسے وہ خود پاکستان میں مردوں کے نام لے رہے تھے۔ انہوں نے ایک معصومانہ تجویز یہ بھی دی کہ ایرانی ایٹمی آلودگی کا الزام آئی اے ای اے کے انسپکٹروں پر ڈال دیں “جو اسے چپکے سے پھیلا سکتے تھے۔” انہوں نے ایرانیوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ این پی ٹی سے دستبردار ہوجائیں اور خط کے آخر میں ایران کو اس واقعہ کے ٹھنڈا پڑنے کے بعد مزید امداد کی پیشکش کی۔

[ یہ بات بھی جھوٹ لگتی ہے کہ ایک ذہین آدمی اس طرح کی باتیں کرے۔ یہ ضرور کسی جاہل اور گنوار آدمی کا خط لگتا ہے جسے نیوکلیر ٹیکنالوجی کی اے بی سی بھی نہیں آتی ہوگی]۔

دوسرا خط انہوں نے اپنی بیٹی کے نام لکھا تھا، جو لندن میں رہتی ہیں۔ اس خط میں انہوں نے اس تفتیش کے بارے میں حکومت پر نکتہ چینی کے علاوہ تفصیلی ہدایات دی تھیں کہ وہ چند برطانوی اخبار نویسوں کے ذریعے پاکستان کے نیوکلیائی راز افشا کردیں۔

[یہ بات تو کوئی بھی نہیں مانے گا اور اس بات کی تردید کتاب کے چھپنے کے فوراً بعد خان صاحب کی بیٹي نے کردی ہے]۔

برسوں سے اسلام آباد کے سوشل اور سرکاری حلقوں میں اے کیو کے بے دریغ اخراجات، انکی دولت، جائیدادوں اور بدعنوانیوں کی کہانیاں اور حکومت کے پیسوں پر فیاضی کے چرچے عام تھے، لیکن اس زمانے میں، وہ جس قسم کے اہم اور نازک معاملات میں مصروف عمل تھے، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوۓ، اس وقت کی حکومتوں نے ان چیزوں سے چشم پوشی اختیار کی۔ اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ غفلت غالباً ایک سنگین غلطی تھی۔

[ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی جوانی پاکستان کے نام کردی اور سچی لگن اور دن رات کی کوششوں سے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت دلائی جس کی بنا پر آج ہم بھارت سے محفوظ ہیں۔ چلیں مان لیا کہ خان صاحب نے بہت دولت بنائی اور کرپشن کی۔ پھر بھی جو کچھ انہوں نے پاکستان کو دیا، یہ دولت اور کرپشن کوئی معنے نہیں رکھتی۔ دوسرے پرویز صاحب کی حکومت میں ابھی تک کرپٹ لوگ شامل ہیں اور ان کی حکومت نے اب تک ریکارڈ قرضے معاف کۓ ہیں۔ پرویز صاحب کی اپنی کریڈیبلٹی داؤ پر ہے اور اسی لۓ ان کی باتوں پر یقین کرنے کیلۓ بہت بڑے جگر کی ضرورت ہے]۔