وزیراعظم آج کل اپنے آپ کو منوانے کیلیے اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جس طرح ایک کمی اپنے آپ کو چوہدری ثابت کرنے کیلیے کرتا ہے۔ آج تو انہوں نے حد ہی کر دی اور کہا کہ اگر وہ وزیراعظم نہ رہے تو غوث الاعظم کی اولاد تو رہیں گے ہی اور ان کی زیادہ عزت ہو گی۔ یعنی وہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ ان کی عزت نہیں ہے تو پھر بے عزتی والا کام کرنے کا کیا فائدہ۔ یہ وہی بات ہوئی کہ فقیر دن میں کئی دفعہ دھکتکارا جاتا ہے مگر وہ مانگنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یعنی بے عزت رہ کر بھی قوم کا مال کھانا ان کیلیے جائز ہے۔
آج کل کے متولی تو اپنے آباواجداد کے منہ پر کالک ہیں۔ ان کے بزرگوں کی ایک بھی خوبی ان میں نہیں پائی جاتی بلکہ یہ ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے ان کے بزرگوں نے منع فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ ان سے نفرت کرنے لگے ہیں مگر حکومت کے حصار میں رہ کر وہ سمجھتے ہیں کہ عوام انہیں پسند کرتے ہیں۔ جس دن وہ حکومت کے حصار سے باہر آتے ہیں ان کا استقبال ارباب رحیم اور ڈاکٹر شیرافگن جیسا ہوتا ہے۔
غوث الاعظم جب دنیا سے تشریف لے گئے ہوں گے تو ان کے ہاتھ خالی ہوں گے اور ان کو یاد کرنے والے آج تک یاد کر رہے ہیں۔ مگر ان کی آج کی نسل ایسی خرافات میں مگن ہو گئی ہے کہ ان کے جیل جانے یا مرنے پر کسی کو ملال نہیں ہوتا۔ ان لوگوں میں نہ سخاوت کی خصلت ہے اور نہ روحانی عبادت کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگوں کے ورثا کی آج خدا بھی نہیں سنتا۔ یہ لوگ سخاوت کی بجائے اپنے بزرگوں کے نام پر لوگوں سے نذرانوں کی شکل میں بھیک کے کاروبار میں مشغول ہو چکے ہیں۔ ایسا کم ہی ہوا ہوگا کہ ان لوگوں نے اپنے کسی مرید کی مالی مدد کی ہو یا اسے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کیلیے تعاون کیا ہو۔
اب ان کام صرف یہ رہ گیا ہے جو اس فوٹو میں شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے کہ اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں وہ کامیاب ہوں گے۔ دنیا میں اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اور آخرت میں اپنے بزرگوں کی وجہ سے۔
12 users commented in " غوث الاعظم کی اولاد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
کاروبار ہے۔ آبائی اور نسلی۔ ایک بعد دوسری نسل مستفید ہوتی ہے۔ مال ہی مال ۔ فائدہ ہی فائدہ۔ دکھاوا ہی دکھاوا، چڑھاواہ ہی چڑھاوہ۔ اندرون خانہ اسطرح کے مخدومین۔ گدی نشین اور پیران بے عمل ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے خود انکے سلسلوں کے بزرگان نے منع فرمایا۔ ایسے پیر بھی پاکستان میں موجود ہیں جو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے بیرونی دوروں پہ خصوصاََ شرعی ممنوع اعمال سے شغل فرماتے ہیں۔
خدا سب کو ہدایت دے اور ہمیں سچے اور نیک مسلمان بننے کی توفیق و ہمت عطا کرے ۔
ان سید ذادوں نے بنو ہاشم کو اتنا رسو کیا ہے اب مجھ جیسا ہاشمی خود کو سید کہنے سے گریز کرتا ہے۔
قبروں کے یہ مجاور فقیر ہی تو ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ان لوگوں کی وجہ سےلوگوں کااعتقادبزرگوں سےبھی اٹھتاجارہاہےکیونکہ انہوں نےان کےنام کواسطرح استعمال کیاہےکہ الامان۔ اللہ تعالی سےدعاہےکہ ہم کوصحیح طورپرمسلمان بننےکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم امین
والسلام
جاویداقبال
ارے یہ تو اپنا کیون ہے!
آسٹریلیا کا موجودہ وزیر داخلہ اور گزشتہ وزیر اعظم۔
اپنا گریبان دیکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بار بار دیکھ
انہیں جو یہ خوش فہمی ہے کہ سید لگالینے سے سارے گناہ معاف ہیں جتنا چاہے جھوٹ بولو دھوکا دو تکبر کرو سب معاف ہوجائے گا،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ گارنتی اپنی لاڈلی بیٹی اپنے سگے چچا اور سگی پھو پھی کو بھی نہیں دی اور ان سے بھی صاف صاف کہہ دیا کہ دنیا میں تمھارا جو حق ہے مجھ سے لے لو مگر آخرت میں میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکوں گا
وہاں صرف اور صرف تمھارے اعمال ہی کام آئیں گے!
یه اس طرح سے ہے که معاشرے کی رسی میں الجھنیں
سلجائے ناں سلجھیں
قبریں بیچ کر کھانے والے
مزے کی بات یه که پاکستان ميں سید اتنے جاگیردار کیوں هیں ؟
اور یه جاگیر ملی کیسے؟
اور اگر ان کو سید مان هی لیا جائے تو عربی نسل کے هونے کے ناطے ان میں نیلی آنکھوں اور گورے رنگ کے کہاں سے آئے؟؟
سر جی یه لوگ تصدیق شدھ ایلیٹ هیں
ان کی سند پر مہریں لگیں هیں
گوروں کی
چاہے امریکی هو ں که انگریز
جی ہاں
خاور کھوکھر کی اس خوبی کا تو میں بھی معترف ہوں کہ وہ جعلی سیدوں اور منافقوں کے بڑے ایکسپرٹ ہیں!!!!!
😀
السلام علیکم۔
شاید آپ لوگوں میںسے کسی کو اصل اور نقل کی پہچان نہیں۔ شاید کبھی اصل سودہ خریدہ نہیں ہو گا۔ اصل اور نقل کی پہچان تو اُسی کو ہوتی ہے کہ جو اصل مال خریدتا ہو۔ ورنہ باقی سارے تو نقل راڈو کی گھڑی کے لیے راڈو والوں کو ہی گالیاں دیتے ہیں۔ سوچئے گا ضرور۔
دوسری بات یہ کہ ہم لوگ دوسرے کو اپنے سے الگ سمجھتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُخوت کا پیغام دیا۔ پہلی بات تو ہم اپنے آپ کو اُن نقائص سے پاک سمجھتے ہیں۔ دوسری بات کہ ہم کوشش نہیں کرتے۔ کبھی سوچا ہے ہم کیا کرتے ہیں؟ اگر ایک بندہ خراب ہے تو ہم زیادہ صحیح ہو جائیں تاکہ میزان کم از کم برابر تو رہے۔ تنقید کرنی ہے تو ایسے کرو کہ اگلا اُس سے اصلاح پائے نہ کہ ایسے کہ فقط تنقید ہی ہو اور علم و اصلاح سے خالی رہے۔ اپنوں کی اصلاح ہمارا پہلا حق ہے۔
اگر کسی کو سید لکھتے شرم محسوس ہوتی ہے تو کیا وہ سادات سے باہر ہو جاتا ہے یا کسی کو پاکستانی لکھتے شرم محسوس ہوتی ہے تو کیا وہ پاکستانی نہیں رہتا؟ ہم پاکستانی لکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور سید لکھنا چھوڑ دیتے ہیں مگر اصلاح کی طرف کبھی مائل نہیں ہوتے۔ کیوں؟ کیونکہ اصلاح ہو گئی تو تنقید کس پر ہو گی۔
Leave A Reply