ایک عرصے کے بعد کل رات ہم نے بینظیر صاحبہ کا ڈاکٹر شاہد کیساتھ انٹرویو جیو ٹي وی پر دیکھا اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بینظیر صاحبہ کی شخصیت نے ہم پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں جب تک آپ چپ رہتے ہیں آپ کا بھرم قائم رہتا ہے اور جب آپ بول پڑتے ہیں تو آپ اپنی قیمت خود بتا دیتے ہیں۔ یہی کچھ بینظیر صاحبہ کا انٹرویو سن کر ہم نے بھی بینظیر صاحبہ کے بارے میں محسوس کیا۔
بھٹو کی تصویر کو اسطرح سجا کر کہ وہ انٹرویو کے دوران نظر آتی رہے بینظیر صاحبہ نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں بھٹو کے مرنے کے اٹھائیس سال بعد بھی ان کی ضرورت ہے اور وہ بھٹو کے بغیر اب بھی کچھ نہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے گدی نشین اپنے بزرگوں کی زندگی کے کارناموں کو بعد میں کیش کراتے ہیں اور ان کی قبر سے اپنی روزی کا حاصل کرتے ہیں مگر اس طرح ان کی اپنی شخصیت اپنے بزرگوں کی بھاری بھرکم شخصیت کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ یہی حال بینظیر صاحبہ کا ہے کہ وہ اپنے باپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لگیں اور یہ کمزوری ایک اچھے لیڈر میں نہیں ہونی چاہیے۔
اس انٹرویو میں بینظیر صاحبہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ اس دفعہ بینظیر صاحبہ کے ہاتھ میں تسبیح نہیں تھی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ دوپٹہ ابھی تک سر پر موجود ہے جو بار بار سر سے سرک کر کہ رہا تھا کہ اسے بھی اب سر پررکھنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہمارے آقا اب روشن خیال اور اعتدال پسند حکمران چاہتے ہیں۔
اگر آپ پورے انٹرویو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پچھلےسات سال میں بینظیر صاحبہ اپنی قومی زبان اردو تک پر عبور حاصل نہیں کرسکیں۔ ان کے مقابلے میں بھارتی کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی جو اٹالین ہیں کا ہندی زبان پر عبور قابل رشک ہے۔ اچھا ہوتا اگر بینظیر صاحبہ اس جلاوطنی کے دوران کوئی اردو کا ٹیوٹر رکھ لیتیں اور ان فرصت کے دنوں میں کم از کم اردو ہی پوری طرح سیکھ لیتیں۔ اردو کو شاید بینظیر صاحبہ نے شاید اسلیے اہمیت نہ دی ہو کہ وہ عوام پر اپنے آقاؤں کو ترجیح دیتی ہوں گی جن کی زبان انہیں فر فر آتی ہے اور وہ اب اپنے باپ کے خیالات کے الٹ سمجھنے لگی ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ ان کے آقا ہیں۔
بینظیر صاحبہ اس انٹرویو ميں ایک بھولی بھالی اور سیدھی سادھی خاتون نظر آرہی تھیں۔ بھولی اسلیے کہ انہیں بات گول کرنے کا فن بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے سوالات کے جوابات روانی سے نہیں دے رہیں تھیں اور کبھی کبھی تو ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں مگر کسی وجہ سے نہیں کہ پارہیں۔ ایک دفعہ تو سادگی میں انہوں نے وہی سوال ڈاکٹر صاحب پر داغ دیا اور ڈاکٹر صاحب کو مجبوراً کہنا پڑا کہ وہ انٹرویو لے رہے ہیں دے نہیں رہے۔
بینظیر صاحبہ نے وردی اور جنرل صدر مشرف کےساتھ رابطوں کے بارے میں سوالات کے جوابات بھی ٹھیک طرح سے نہ دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ سیدھی سادھی خاتون ہیں جنہوں نے سیاست کے فریب ابھی تک نہیں سیکھے۔ وہ نہ تو جنرل صدر مشرف صاحب کی حمایت میں بول سکیں اور نہ ہی کھل کر ان کی مخالفت کرسکیں۔ بقول بینظیر صاحبہ کے پی پی پی نے کبھی بھی ڈکٹیٹروں کی حمایت نہیں کی مگر اس دفعہ لگتا ہے کہ بینظیر صاحبہ اقتدار کے لالچ میں پی پی پی کی اس وراثت کو بھی تباہ کردیں گی۔
جسطرح ایم کیو ایم کے الطاف حسین انٹرویو دیتے ہوئے بھی لگتا ہے مجمعے کے سامنے تقریر کررہے ہیں اس طرح بینظیر صاحبہ بھی انٹرویو دیتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک سیاسی پلیٹ فارم پر سیاست کی نہیں بلکہ گھرمیں بیٹھ کر اپنے گھریلو مسائل پر گفتگو کررہی ہیں۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کوئی ایسا تاثر نہیں چھوڑا کہ جس سے پتہ چلے کہ وہ ملک کیلیے کچھ کرگزرنے کیلیے بیتاب بیٹھی ہیں۔ پچھلے سات سال کی سیاسی سست روی نے بینظیر پر بھی اثر چھوڑا ہے اور وہ بھی جوش اور ولولے سے عاری نظر آئیں۔ ان کی گفتگو سے یہی لگ رہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات سنگین ہیں مگر اتنے نہیں کہ ان کیلیے وہ میدان میں اتریں۔ وہ بھی اب دوسرے لیڈروں کی طرح عوام کے زور پر نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے زور پر حکومت حاصل کرنے کی خواہشمند نظر آئیں۔ یہی سیاستدانوں کی خرابی جنرل صدر مشرف کے آرام سے حکومت کرنے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔
بینظیر صاحبہ کو ہم یہی صائب مشورہ دیں گے کہ اگر انہوں نے ملک کی خدمت کرنی ہے تو پھر اس کیلیے پہلے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اپنے عوام کی زبان پر عبور حاصل کریں۔ ماضی کی باتوں کو نہ بھولیں، اپنے گھریلو حالات کو ٹھیک رکھیں، زرداری صاحب کو منظر سے ہٹانے کی بجائے اپنے ساتھ ملائیں تاکہ وہ ان کا سہارا بن سکیں، آمریت کے بارے میں دو ٹوک رائے رکھیں بلکہ کبھی آمریت کیساتھ گٹھ جوڑ کے بارے میں سوچیں ہی نہیں، عوام سے رابطہ بڑھائیں، عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلیے میدان میں آئیں اور اپنے باپ بھٹو کی طرح عوام کیلیے ایسا پروگرام بنائیں ،چاہے وہ صرف نعروں کی حد تک ہی ہو،جس کی وجہ سے عوام پھر سے پی پی پی کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھنے لگیں۔
ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ بینظیر صاحبہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح گھر بیٹھی تب تک آرام کرتی رہیں گی جب تک انہیں کہیں سے گرین سگنل نہیں مل جاتا یا پھر عوام مجبور ہوکر خود بخود سڑکوں پر نہیں نکل آتے۔ تب بینظیر اس عوامی غضب کا فائدہ اٹھا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا لیں گی۔ لیکن بینظیر صاحبہ کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اب عوام بدل چکے ہیں اور یہ وہ عوام نہیں رہے جو بھٹو کی ایک کال پر لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل آتے تھے اب انہیں سڑکوں پر لانے کیلیے خود عملی طور پر کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ جب تک بینظیر صاحبہ خود عملی طور پر عوام کی قیادت نہیں کریں گی عوام بھی بنی اسرائیل کی طرح باہر بیٹھے یہی آس لگائے رکھیں گے کہ خدا خود ہی ان کے ملکی حالات کو ٹھیک کردے گا۔ سیاستدانوں اور عوام نے اگر اپنی سست روش نہ بدلی توبھول جائیں کہ وہ فوجی ڈکٹیٹرشپ سے کبھی جان چھڑا پائیں گے۔
31 users commented in " بینظیر – ایک اناڑی اور سست لیڈر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ تو خیر ماننا پڑے گا کے ابھی تک پیپلز پارٹی بشمول اسکے قائدین صرف بھٹو کے نام کی سیاست کر رہے ہیں اور بھٹو کے کارناموں کے علاوہ ایسا کچھ پوری پارٹی نے نہیں کیا ہے جسکو دکھا کر وہ عوام سے کسی بھی قسم کی کوئی اپیل بھی کرسکیں۔ جہاں تک بینظیر کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے آپ خود سوچیں دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر کوئی کیسے دو ٹوک بات کرسکتا ہے۔۔ ایک طرف بی بی حکومت سے ڈیل بنا رہی ہیں اور دوسری طرف نواز شریف کو آسرا دے رکھا ہے۔۔ ویسے بھی جب پاکیستان کی سیاست میں کسی چیز کی زوروشور سے نفی کی جانے لگے تو دراصل وہی اصل سچائی ہوتی ہے۔۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے محترمہ ہی کیا سیاستدانوں کی اکثریت نا اردو طریقے سے بول اور سمجھ سکتی ہے نہ انگریزی ورنہ ہمیں “بگ آرم“ جیسی چیزوں کی شرمندگی سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔
السلام علیکم،
جناب آپ کی پوسٹ سے تو یوں لگ رہا ہے جیسے آپ کو بے نظیر کی شخصیت کا نیا نیا ہی پتا چلا ہو۔ ان کی اردو پچھلے سات سال نہیں پچھلے تیس سال سے ایسی ہی ہے۔ ایک مرتبہ جلسے میں تقریر کے دوران اذان کی اواز آئی تو کہنے لگیں کہ خاموش ہو جاؤ، اذان بج رہا ہے۔ یہ بھی شاید آپ کو معلوم ہو کہ محترمہ قران کی کوئی آیت پڑھنے پر قادر نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار پر قبضے کا واحد مقصد بے نظیر اور زرداری کی لوٹ کھسوٹ ہے۔ اب اس کا کیا کریں کہ عوام کا حافظہ ہی کمزور ہوتا ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں کہ کن لوگوں نے قوم کے خزانوں سے سوئس اکاؤنٹ بھرے، کن لوگوں نے سرے محل خریدے اور وہاں آرائش کے لیے گندھارا تہذیب کے نوادرات سمگل کروائے۔ اگر یہی کچھ پاکستان کی سیاست کا مستقبل بھی ہے تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔
والسلام
نبیل آپ کے تبصرے سے تقریبا متفق ہوں لیکن عوام پر الزام ڈالنا درست نہیں۔ کیا یہ ہم سب نہیں جانتے کے پاکستان میں منصفانہ الیکشن نہیں ہوتے۔۔ میری بات کا یقین کریں عوام کا الیکشن میں کردار انتہائی محدود ہے اور کسی صورت حکومت کی تشکیل میں عوام کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتایہ سب پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے کہ کس کو اقتدار دینا ہے۔۔ چناچہ یہ کہنا کے عوام کا حافظہ کمزور ہے یہ درست نہیں عوام کو جب بھی موقع ملا وہ اپنی یاداشت اور حافظہ کا ایسا مظاہرہ کریں گے کے تاریخ کا ایک انوکھا واقع ہوگا۔۔
بے نظیر شائد ملکی سیاستدانوں میںسب سے زیادہ مفاد پرست ہیں۔ انکو لمبے عرصے کے لئے اقتدار مل جائے تو مشرف سے کئی گنا زیادہ مہلک ثابت ھونگی۔ اتنی لوٹ مار کے باوجود پھر سے تازہ دم ہیں پتہ نہیں کتنی نسلوں کے لئے خزانہ جمع کرنا چاہتیں ہیں۔ کاش اپنے دور میں صرف لاڑکانہ کو ہی بنا دیتیں۔ کم از کم نواز شریف نے پنجاب میں تو بہت ترقیاتی کام کروائے
یار دیکھیں آپ “پنکی“ کو ایسے مت کہیں ، وہ آکس فو راڈ کی تلیم یافتہ ہیں ۔ ۔ ۔ انکے پیچھے ایک زمانہ ہے ۔ ۔ ۔ بڑے بڑے لوگ ان سے “فیض“ پا چکے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پنکی تو بہت اچھی ہے ۔ ۔ آپ کو انٹرویو میں پتہ نہیں کیوں اچھی نہیں لگی ، کبھی ادھر دبئی کا چکر لگے تو انہیں چند اچھی جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے، ابھی آپ نے بختاور باجی اور بلاول بھیا کو نہیں دیکھا ، اور نہ ہی سنا ہے ، ورنہ آپ اردو تو کیا سندھی بھی بھول جاتے ۔ ۔ ۔ اور اگر آپ اتفاقاً کبھی پنکی کو ادھر دبئی میں دیکھ لیں تو آپ کبھی بھی پہچان نہیں پائیں گے کہ یہ “محترمہ“ ہیں ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ سج دھج صرف از صرف ۔ ۔ “میم صاب“ میں ملتی ہیں جو وہ یہاں قائم رکھے ہیں ۔ ۔ ۔
نبیل کا کہنا درست ہے کہ عوام کا بھی دوش ہے جو ایسے لوگوں کو رہنما مانتے ہیں ، میرے بھائی آپ کبھی کسی “جیالے“ سے بات تو کریں لگ پتہ جائے گا ۔ ۔ ۔
رہی بات بھٹو کی تو وہ بے چارہ مرنے کے بعد وراثت کی طرح تقسیم ہو گیا ہے ، کچھ غنویٰ کا ہے ، کچھ بلاول کا ، کچھ پنکی کا ، اور کچھ جیالوں کا اور بچا کچھا ۔ ۔ ۔ قوالوں کا ۔ ۔ ۔
ایک بات بتائیں آپ لوگ اس طرح کے بخیئے نواز شریف اور دوسرے پنجابی سیاست دانوں کے کیوں نہیں ادھیڑتے؟
عبداللہ جی ، اسی چیز کو تعصب کہتے ہیں ، سندھی ، پنجابی بلوچی و پٹھان سب سے ملکر بنتا ہے پاکستان ، نواز شریف پر بھی بہت کچھ کہا گیا ہے ، غلام مصطفٰی کھر سے لیکر سرحدی گاندھی اور جی ایم سید سے لیکر نواب بگٹی تک سب پاکستان کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ بس ہم نے اپنے آپکو بڑا پاکستانی ظاہر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مگر بات کرتے ہیں تو پھر سندھی ، پنجابی کی ؟؟ کیوں ؟؟ بےشک ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا ۔ ۔ ۔
میں نے خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام ایسے ہی لوگوں کو لاتے ہیں جو لوٹ کھسوٹ کے ماہر ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔چاہے وہ کسی بھی صوبے سے ہوں !!! کیا بے نظیر نے پنجاب سے زیادہ ووٹ نہیں لئے ؟ کیا سندھ میں پنجابیوں کو ووٹ نہیں ملے ؟ ۔ ۔۔ تو پھر ایسی بات کرنے کا مطلب ؟؟؟
عبداللھ صاحب
پہلے تو اس شک کو دور کیجئے کھ ہم لوگ تعصب سے پاک ہیں۔ ہمارے لئے جو بہی پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے چاہے وہ پنجابی ہو یا کوئی اور وہ برا ہی ہے۔ ہم نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ نواز شریف حکومت کی حکومت پر بھی تنقید کی ہے، وصی ظفر پر ایک تحریر ہے اور شیخ رشید صاھب پر بھی لکھا ہے۔
آپ ہم پر اعتماد کریں اور آئیں ملکر پاکستان کی خدمت کریں۔ جو برا ہے اسے برا کہیں اور جو اچھا ہے اسے اچھا۔
آپ کی مہربانی ہوگی جو آپ اپنے دوستوں سے کراچی کے بارے میں سنی ہوئی باتیں ہمارے ساتھ شیئر کریں گے۔ اس طرح ہم بھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھ لیں گے۔
افضل صاحب پہلی بات تو یہ کہ مجھے آپ کی تحریر پر کوئی اعتراض نہ تھا،کیونکہ اس میں تعصب کی جھلک نہ تھی،مجھے ان تبصروں پر اعتراض تھا جن میں مجھے تعصب محسوس ہوا،خاص کر اظہر صاحب جو مجھ پر تعصب کا الزام لگا رہے ہیں انہوں نے کس گھٹیا انداز سے تبصرہ کیا ہے،کیا انہوں نے کبھی نواز شریف اور اس کی فیملی کو بھی اسی انداز میں ڈسکس کیا ہے،
پھر منیر احمد صاحب کی پوسٹ پر نعمان کے ایک جملے پر وہ کراچی یونیورسٹی اور اس میں پڑھنے والوں کی تزلیل پر اتر آئے،
خراب انداز گفتگو انسان کی اپنی شخصیت کا پتہ دیتا ہے،
میں بے نظیر کی سیاست کے انداز کو پسند نہیں کرتامگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کو انسان بھی نہ سمجھا جائے،
کراچی کے حوالے سے جو مینے دیکھا اور سنا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ کراچی میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں ایک اردو سپیکنگ اور دوسرے وہ جنکی مادری زبان اردو نہیں اور وہ دوسرے صوبوں سے آکر کراچی میں بس گئے ہیں یعنی صرف کراچی والے،یہ لوگ ہر مشکل کا زمہ دار ایم کیو ایم کو سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں وہی دکھائی دیتا ہے جو ایجنسیاں انہیں دکھاتی ہیں،
دوسری طرف اردو بولنے والے بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک وہ ہیں جو دل و جان سے ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو اتنی شدت سے ایم کیو ایم کے عشق میں مبتلا نہیں ہیں اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتے ہیں میرے دوستوں کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے،
ان کا کہنا ہے کہ جب ایم کیو ایم کے عروج کا دور تھا اور اس نے اپنی تنظیم سے کرپٹ عناصر کو نکالا تو ایجنسیوں نے انہیں فورن گود لےلیا، میں آفاق احمد اور گروپ کی بات کر رہا ہوں،یوں مہاجروں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی،اور انہیں چند علاقوں میں باقائدہ فوج کی سربراہی میں لا کر بٹایا گیا،اور اس کے گواہ ان علاقوں کے رہنے والے ہیں،
آفاق احمد کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے جس لڑکی سے شادی کی اس کا رشتہ اس کے ماں باپ نے کہیں اور طے کیا ہوا تھا جب آفاق احمد نے اپنا رشتہ دیا تو لڑکی کے ماں باپ نے خاموشی سے اس کی شادی کردی آفاق احمد نے اس کے شوہر کو مروادیا اور زبردستی اس لڑکی سے شادی کرلی،جب آفاق احمد اپنی بیوی کے ساتھ ٹہلنے نکلتا تھا تو اتنی گلیاں خالی کروا لی جاتی تھیں،اس کے علاوہ عزیز آباد کے گیٹ تو حکومت کو نظر آتے تھے مگر لانڈھی کا بیت الحمزہ جو ان کی دہشت گردیوں کا گڑھ تھا کسی کو نظر نہیں آتا تھا جہاں دن رات کلاشنکوف لے کر لوگ پہرہ دیتے تھے،
یہ لوگ دن دھاڑے اپنی مخالفت کرنے والوں کو اٹھا لیتے تھے اور جان سے مار دیتے تھے اور کسی حکومتی ایجینسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی تھی،صرف اس لیئے کہ وہ انہی کے پالے ہوئے تھے،
سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ ایجینسیوں کو ایم کیو ایم سے کیا دشمنی تھی تو صرف ایک کہ وہ عوام کی حکومت کی بات کرتی تھی اور جاگیر داروں اور وڈیروں کے خلاف تھی،
یہ لوگ آج جو کراچی کے حالات خراب ہیں اس کے لیئے پولس اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے جرائم پیشہ افراد کو اس کا زمہ دار ٹہراتے ہیں ،اب سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم تو حکومت کا حصہ ہے پھر اس کے خلاف ایجنسیوں کا کام کرناکیا مطلب رکھتا ہے،
کراچی کے اردو بولنے والوں کا 90 فیصد چاہے وہ ایم کیو ایم کے عاشق زار ہوں یا اعتدال پسند لوگ حکومت کے مقبلے میں ایم کیوایم کا فیور کرتے ہیں اس لیئے کہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے انکے حقوق کے لیئے کچھ نہیں کیا،بلکہ جب موقع ملا کرش کرنے کی کوشش کی، اس لیئے ایجنسیاں کھل کر ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں کرتیں مگر اندر خانے اپنا پروپگیںڈہ چاہے وہ جناح پور کا شوشہ ہو یا اسٹریٹ جرائم کو ہوا دے کراس کی مقبولیت کاگراف نیچے کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں،ایم کیو ایم کو حکومت تو دی گئی ہے مگر ہاتھ باندھ کر اور اگر وہ زرا چوں چرا کریں تو آفاق احمد کو اسی لیئے تو زندہ رکھا گیا ہے،
ایک کتاب ہے ، پارلیمنٹ سے بازار حُسن تک ، اسے پڑھ لیں کچھ شاید سمجھ آئے ، باقی رہی پنکی کی بات ، تو بھائی میرے میں نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ میں کیسے کہ دوں غلط ہے ؟
اور ہاں میری زندگی کراچی میں گذری ہے ، اور ایم کیو ایم کے بارے میں میں بھی بہت کچھ جانتا ہوں ، قائد کا جو غدار ہے موت کا حقدار ہے یہ نعرے اور اس پر عمل میں نے بھی دیکھا ہے ۔ ۔ ۔
میرا ایک کالج فیلو تھا ، جو بعد میں “ندیم کمانڈو“ کے نام سے مشہور ہوا ، اسے پتہ ہے غداری کی سزا ایسی ملی کہ اسکی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی اور اسکی ماں نے اسکے ہاتھ کی ایک انگوٹھی سے اسے پہچانا ۔ ۔ اور پھر گولی مار کا علاقہ کیا تھا ، کمپری ہنسیو سکول ۔ ۔ عزیز آباد میں بھی جو کچھ دیکھا ہے وہ اب کیا بیان کروں ۔ ۔ ۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں ، کچھ جگ بیتی اور کچھ آپ بیتی ہیں ۔ ۔ ۔
اور عبداللہ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی میرے بارے میں کیا امیج بناتا ہے ، میرا سچ کہنا بڑا مشکل ہے ۔ ۔ ۔ اور مشکل سے ہضم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ جب آپ کی کنپٹی پر ٹی ٹی ہو اور آپ سے کہا جائے کہ جئے الطاف حسین کہو اور آپ اپنی جان پر کھیل کر انکار کر دو ۔ ۔ ۔ تو یہ ہمت کسی کسی میں ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر شاید آپ لوگ یہ باتیں نہ سمجھ سکیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ تعصب کی پٹی شاید بہت ہی زیادہ موٹی ہے ۔ ۔ ۔ میں نے دس سال کراچی میں پڑھایا ہے ۔ ۔ اور میرے اسٹوڈنٹ میں ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ تھے ۔ ۔ ۔ اور میں نے بہت کچھ دیکھا بھی ہے ۔ ۔ ۔ مگر شاید یہ کہانیاں بیان کروں تو ایک کتاب بن جائے ۔ ۔ ۔ اور ویسے بھی “مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر“
اور ہاں ، پنجاب کو برا کہنے سے پاکستان کا بھلا نہیں ہو گا ، کہ صرف پنجاب ہی ایک ایسا صوبہ رہ گیا ہے جہاں سے سوائے سرائیکی تحریک کے علاوہ پاکستان سے علاحدگی کی کبھی سوچ نہیں ابھری ۔ ۔ ۔
پہلی بات تو یہ کہ کراچی کسی کا آبائی شہر نہیں ہے۔۔ کراچی مختلف قومیتوں کا ایک بہت بڑا گلد ستہ ہے اور یہی اس کو دنیا کے بڑے شہروں میں شامل کرتی ہے۔۔
ایم کیو ایم کی سیاست سے لوگ کیوں خائف ہیں اسکی وجہ انکی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی پالیسیاں ہیں ۔۔ پہلے انہوں مہاجر کا شوشہ چھوڑا پھر تقریبا ہر قومیت کے ساتھ انکے باقاعدہ فسادات ہوئے۔۔ پھر انہوں نے مہاجر قومیت سے دست برداری اختیار کی۔۔ رہنما لندن فرار ہوگئے اور باقاعدہ برطانوی شہریت اختیار کر لی۔۔ جس آرمی اور انتظامیہ کو سخت سست کہتے تھے آج اسی کے ساتھ بیٹھے ہیں اور اسی کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔۔
آفاق نے گلیاں خالی کرانے کا طریقہ کہیں باہر سے نہیں سیکھا کہ تربیت ہی اسطرح دی گئی تھی۔۔ چندے بھتے کوئی افسانوی قصے نہیں جا کر کراچی کے کاروباری طبقے سے پوچھیے کے کس اذیت میں مبتلا رہے ہیں۔۔
اظہر صاحب کی بات نعروں کی حد تک تو درست ہوسکتی ہے تو نعرے تو نواز شریف نے بھی بہت لگائے تھے،لیکن کیا ان کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے کہ ندیم کمانڈو یا اس جیسے دوسروں کو ایجنسیوں نے نہیں ماراتھا،انٹرنیشنل میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ کس طرح اردو بولنے والوں کی نواز شریف اور بے نظیر اور ایوب خان کے دور میں نسل کشی کی گئی،
اظہر صاحب جھوٹ اتنا بولیئے جتنا ہضم ہو سکے میں خو د عزیز آباد میں 5 سال رہی ہوں 83 سے 88 تک الطاف حسین کے بعد والی گلی میں ہمارا گھر تھا اور اس کے بعد بھی میرے دو تین قریبی رشتہ دار ایک عرصہ دراز تک وہاں رہتے رہے ہیں اور ان کے بچے بھی وہاں پڑھتے رہے ہیں،
رہی بات پنجاب کی تو آخر ہر صوبہ پنجاب سے ہی متنفر کیوں ہے کبھی اس پر بھی غور کیجیئے گا آپ لوگوں کے سپریریٹی کامپلیکس نے ہمیشہ دوسروں کو آپ سے متنفر کیا ہے کیا بنگالی کیا سندھی کیا بلوچی کیا پٹھاں سب پنجاب سے نفرت کرتے ہیں توآخر کیوں،
آپ لوگوں کی اسی میں نہ مانوں نے یہ نوبت دکھائی ہے،
لیاقت علی خان کو مروانے کے بعد ایوب خان صرف اس لیئے دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد اٹھا لے گیا کہ کہیں کراچی کے اردو بولنے والے پنجابیوں پر سبقت نہ لے جائیں،اور اردو بولنے والوں کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کے جرم میں ہزارہ سے غنڈے بلواکر مروایا گیا، پھر بھٹو صاحب نے اردو بولنے والوں کی تامام انڈسٹریاں اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے قومیا لیئے تاکہ انہیں آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے،اور اسی پر بس نہ کیاکوٹہ سسٹم نافز کیا گیا اور وہ بھی صرف سندھ میں،یحی خان نے جب ون یونٹ توڑا تھا تو اس نے اردو بولنے والوں کو بھی صوبہ دینے کی بات کی تھی اور اس وقت کے اردو بولنے والوں کے رہنماؤں نے جزبہ حب الوطنی اور اسلامی بھائ چارے کے جوش میں الگ صوبہ لینے سے انکار کردیا تھااور یہ کہا تھا کہ ہم اپنے سندھی بھائیوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں،اور اسکا انہیں یہ صلہ دیا گیا صنعتیں قومیا کر اور کوٹہ سسٹم نافز کرکے،
اردو بولنے والوں نے پھر بھی صبر کیا پھر ضیاءالحق آئے اور انہوں نے کوٹہ سستم مزید 10 سال کے لیئے بڑھا دیا اور اس پر دستخط جماعت اسلامی نے کیئے جسے سب سے زیادہ کراچی میں سپورٹ حاصل تھی،یعنی اپنے ہی ووٹرز کی پیٹھ میں خنجر گھونپا،ابھی اردو بولنے والے ایک سکتے کی ہی کیفیت میں تھے کہ ایجینسیوں نے پاجابی اور پٹھان غنڈہ عناصر کے زریعے علیگڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں اردو بولنے والوں کا قتل عام کروایاپوری رات شیطان ان بستیوں میں ناچتا رہا اور کسی کی جان مال اور عزت اور آبرو اس رات محفوظ نہیں تھی،اور اس واقعے نے اردو بولنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے انہیں ایک پلیٹ فرم پر اکھٹا ہونا ہوگا اور یہ پلیٹ فارم انہیں ایم کیو ایم نے مہیا کردیا،
اور اس کے بعد کراچی کے لوگوں نے اپنے گھروں کو محفوظ رکھنے کے لیئے اپنے خرچ پر گلیوں میں گیٹ لگوائے،
ایجینسیاں وڈیرے اور جاگیر دار اردو بولنے والوں کے سیاسی شعور سے ہمیشہ خوفزدہ رہے ہیں کیوں نہیں ایم کیو ایم کو ہر صوبہ میں کھل کر اپنی سیاسی مہم چلانے دی جاتی،کے کہیں میڈل کلاس باشعور طبقہ ایک نہ ہو جائے اور ان کے ایوانوں میں زلزلہ نہ آجائے،جماعت اسلامی کیوں ایم کیو ایم کی کسی مفاہمت کی کوشش کا مثبت جواب نہیں دیتی کیوںکہ وہ ایجینسیوں کے پے رول پر ہے اور ان کا مفاد اسی میں ہے کہ لوگ تقسیم رہیں،
اب آفاق احمد اور اس کے حواریوں کی بات کرتے ہیں اتفاق دیکھیئے کے میری سسرال الطاف حسین کی ایک گلی بعد تھی تو میکہ بیت الحمزہ کے بلکل سامنے سڑک کے دوسری طرف والی گلی میں تھا،عبداللہ نے جو کچھ لکا اس میں کچھ جھوٹ نہیں البتہ میں اس میں اپنے زاتی تجربہ کا اضافہ ضرور کرنا چاہوں گی،یہ واقہ میں اپنے اللہ کو حاضر اور ناضر جان کر سچ سچ بیان کر رہی ہوں، میرے چھوٹے بھائی کا دوست جسکا تعلق ایک انتہائی شریف اور پڑھی لکھی فیملی سے تھااور وہ ایم کیو ایم الطاف کا کارکن بھی تھا،یہاں ایک بات اور واضح کرنا چاہوں گی کہ ایجینسیاں اور ان کے پروردہ لوگ اس بات کا ڈھنڈھورا بھی بہت زور اور شور سے پیٹتے ہیں کہ ایمکیو ایم غنڈہ صفت عناصر سے بھری ہوئی ہے اور اس میں کوئی پڑھا لکھا شریف آدمی نہیں ہے اس وقت انہیں اس میں شامل پڑھے لکھے افراد نظر نہین آتے ہیں،
بہر حال میرا چھوٹا بھائی جس کا ایم کیو ایم سی کوئی تعلق نہیں تھا اس کے ساتھ بائیک پر آرہا تھا کہ حقیقی کے غنڈوں نے دونوں کو اغوا کرلیا،اور تقریبن ایک ہفتہ اپنی قید میں رکھا،وہ تو کچھ اللہ کا کرم تھا اور سب کی دعائیں اور کچھ ہمارے رشتہ داروں کا فوج میں ہونا کام آیا کہ ان بچاں کی جان بچ گئی لیکن انہوں نے اس بری طرح مارا پیٹا تھا کہ آج بھی اس کی ہڈیاں سردیوں میں تکلیف دیتی ہیں اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار رہتا ہے،اس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے اغوا کے دو دن بعد ایک رات انہیں باہر نکالا اور لائن سے بٹھا دیا اور گولی مارنے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کے ایک آدمی نے آکر میرے بھائی کا نام لے کر کہا کہ تم میں سے کون ہے بھائ نے کہا میں ہوں تو کہنے لگے تم اس لڑکے کے ساتھ کیوں تھے اس نے بتایا کہ یہ میرا دوست ہے اس نے پوچھا تمھارا ایم کیو ایم الطاف سے کیا تعلق ہے اس نے جواب دیا میرا کوئی تعلق نہیں ہے،اس کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو دوبارہ کمرے میں بند کردیا اور چند دن بعد آکر کہا کہ تمھاری وجہ سے تمھارے دوست کی جان بھی بچ رہی ہے کیونکہ بات بہت اپر پہنچ گئی ہے لیکن اگر تم لوگوں نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو جان سے مارے جاؤ گے،
اور پھر بھی ان بد بختوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی کیوںکہ ان کی پشت پر پنجاب کی ایجینسیاں تھیں،
اور کل ہی اخبار میں خبر چھپی ہے کہ ایک پولس افسر اور اس کا بیٹا اسٹریٹ کرائم میں پکڑے گئے ہیں،
میں اب بھی یہ نہیں کہوں گی کہ ایم کیو ایم میں سب دودھ کے دھلے ہیں مگر جتنا ایسے عناصر کا ریشو کسی اور سیاسی جماعت میں ہے اتنا ہو سکتا ہے،پنجاب کے ایک نواز شریف کی پارٹی کے رکن غلام حیدر وائن کا قتل شائد آپ لوگوں کو یاد ہو انکا جرم یہی تھا کہ وہ ایم کیو ایم کی حمایت میں کراچی میں جاری آپریشن کلین اپ کے خلاف تھے،
اب بات کرتے ہیں حب الوطنی کی جس ملک کی جڑیں ہی تعصب پر ہیں وہاں حب ال وطنی کیسے پنپ سکتی ہے،دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کے صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں،اور پھر ان پر پنجاب کی اجارہ داری ہے،اگر ملک میں مزید صوبہ بنانے کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ تکلیف پنجاب کے لوگوں کو ہوتی ہے آخر کیوں،
صوبے بننے سے ملک ٹوٹے گا نہیں مزید مظبوط ہوگا اسٹیبلشمنٹ البتہ کمزور پڑ جائے گی اور یہی منظور نہیں،
دوسروں کو متعصب کہنے والے اپنی آنکھوں پر بندھی تعصب کی پٹی کھولیں تو کچھ دکھائی دے اور سمجھ بھی آئے،
کراچی برا ہے اس کے لوگ برے ہیں پھر بھی لوگ بھاگ بھاگ کر کراچی آتے ہیں یہاں غنڈہ گردی عام ہے لیکن لوگ پھر بھی زندہ بچ کر چلے جاتے ہیں دوسروں کو جھوٹ سچ بتانے کے لیئے،
اور حیرت ہے کہ یہ سچ صرف پنجاب کے لوگوں کو نظر آتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آتا،
مہر صاحبہ آپ نے وہ تمام باتیں تو بتا دیں جو بھائی اپنی تقریر اور انٹریو (جس میں فرق کرنا بڑا مشکل ہے) میں ہمیشہ ہی بتاتے ہیں مگر ان لڑکوں کے قصے بھی تو بتائیں جو برطانوی شہری کے اشارے کے اشارے پر مارےگئے ہیں؟ یونٹ کے نام پر متوازی حکومت بنانے والی سب سےپہلی جماعت یہی تھی آج جب ملا نے یہ کام کیا تو احتجاج اور ٹیلیفونک خطاب۔۔ جتنی منظم اور بدترین غنڈہ گردی اس جماعت نے کراچی میں کری ہے پاکستان کی پوری تاریخ میں شاید ہی کسی جماعت نے کری ہو۔۔
چلو ہم تو جذباتی باتیں کرتے ہیں۔۔ کچھ یہ بھی چیک کریں
1۔ یواین ریفیوجی ایجنسی پر یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ایم کیو ایم کے بارے میں رائے
http://www.unhcr.org/cgi-bin/texis/vtx/home/opendoc.htm?tbl=RSDCOI&page=research&id=414fe5aa4
2۔ یوایس ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ
http://www.state.gov/g/drl/rls/hrrpt/2004/41743.htm
3۔ ایم کیو ایم (ایچ) کے بارے میں
http://www.tkb.org/Group.jsp?groupID=4507
4۔ وکی پیڈیا
http://en.wikipedia.org/wiki/Altaf_Hussain
واضحرہے کے تمام لوگ حقیقی کو انکا ملیٹنٹ ونگ ہی مانتے رہے ہیں۔
آپ کی لاعلمی کا اندازا اس بات سے ہی ہوتا ہے کہ آپ حقیقی کو انکا ملیٹینٹ ونگ مانتے ہیں جبکہ ہم کراچی والے انکے تصادموں کے گواہ ہیں آپ کو بہت تکلیف ہو رہی ہے یہ تسلیم کرنے میں کے حقیقی والوں کو آپ کے پنجاب کی ایجینسیاں پال رہی تھیں تو میں اس کے لیئے کچھ نہیں کر سکتی آپ بے شک شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں،آپ جیسے چند لوگوں کے جھٹلانے سے حقیقت بدل تو نہیں جائے گی جیسے امریکا کے یہ کہنے سے کے وہ عراقی عوام کہ نجات دلانے آیا تھاحقیقت چھپ نہیں رہی ہم آپ لوگوں کیطرح ڈیوئیڈڈ لوگ نہیں ہیں اور یوں بھی ہمارے پاس تو آپکے جنرل ایوب کے بقول کراچی کے بعد سمندر ہے اس لیئے ہم کو تو یہیں رہنا ہے اور ایجینسیاں چاہے یورپ کی ہوں یا پاکستانی کتنا سچ بولتی ہیں کہنے کی ضرورت نہیں،اور جو حقائق مینے لکھے ہیں اگر آپ جھٹلا سکتے ہیں تو جھٹلا دیں،ویکی پیڈیا کوئی حدیث قرآن تو نہیں ہے اسے بھی آپ جیسے انسان ہی لکھتے ہیں،
جو کراچی کے اردو بولنے والون کی اکچریت کہتی ہے وہی سچ ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے،
آپ کی لاعلمی کا اندازا اس بات سے ہی ہوتا ہے کہ آپ حقیقی کو انکا ملیٹینٹ ونگ مانتے ہیں جبکہ ہم کراچی والے انکے تصادموں کے گواہ ہیں آپ کو بہت تکلیف ہو رہی ہے یہ تسلیم کرنے میں کے حقیقی والوں کو آپ کے پنجاب کی ایجینسیاں پال رہی تھیں تو میں اس کے لیئے کچھ نہیں کر سکتی آپ بے شک شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں،آپ جیسے چند لوگوں کے جھٹلانے سے حقیقت بدل تو نہیں جائے گی جیسے امریکا کے یہ کہنے سے کے وہ عراقی عوام کہ نجات دلانے آیا تھاحقیقت چھپ نہیں رہی ہم آپ لوگوں کیطرح ڈیوئیڈڈ لوگ نہیں ہیں اور یوں بھی ہمارے پاس تو آپکے جنرل ایوب کے بقول کراچی کے بعد سمندر ہے اس لیئے ہم کو تو یہیں رہنا ہے اور ایجینسیاں چاہے یورپ کی ہوں یا پاکستانی کتنا سچ بولتی ہیں کہنے کی ضرورت نہیں،اور جو حقائق مینے لکھے ہیں اگر آپ جھٹلا سکتے ہیں تو جھٹلا دیں،ویکی پیڈیا کوئی حدیث قرآن تو نہیں ہے اسے بھی آپ جیسے انسان ہی لکھتے ہیں،
جو کراچی کے اردو بولنے والون کی اکثریت کہتی ہے وہی سچ ہے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے،
ایک بات اور جو مینے لکھا وہ آپکے بھائی کی تقاریر نہیں ہیں بلکے یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم نے نسل در نسل فیس کیا ہے، اللہ آپکو عقل سلیم عطافرمائے تاکہ آپ جیسے لوگ تعصب کے اندھیرے سے باہر نکل کر کچھ دیکھ اور سمجھ سکیں،
اس کے علاوہ 11 اپریل کا جنگ اٹھا کر دیکھیئے کہ کراچی میں مجرم کہاں کہاں سے آرہے ہیں،یہ تو صرف چند ہیں جو غلطی سے پکڑ میں آگئے ہیں ایسے ہزاروں لاکھوں اس شہر میں ہماری زندگیاں اجیرن کیئے ہوئے ہیں،
میرا تو خیال ہے عامر اور آفاق دونوں ہی متحدہ کے ٹرینڈ لوگ ہیں۔۔ جب قابو سے باہر ہوگئے تو پارٹی سے نکال دیا۔۔ لیکن تدبیریں تو وہی ہیں ؟ اس میں ایسی کوئی حقائق سے مبرا باتیں تو نہیں ؟
خوب آپ فرماتے ہیں کہ متحدہ نے آفاق اور عامر کو نکال دیا اور بدتمیز کہتے ہیں کہ متحدہ سے باہر نکلنے والا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اب کس کی مانیں اور کس کی نہیں؟
ہم نے کب انکار کیا کہ انہین ان کی حرکتوں کی وجہ سے پارٹی سے نکالا گیا ہمیں تو اعتراض اس بات پر ہے کہ اردو بولنے والوں کو توڑ نے کے لیئے ایجینسیوں نے انہین گود لے لیا اور ہم لوگوں کا جینا حرام کروائے رکھا،
ارے مہر افشاں صاحبہ نے تو بڑی باتیں بتائی ہیں اس میں سے کچھ تو میرے علم میں بھی نہ تھیں،
بہرحال میں ان کی اس بات کی تو تائید کروں گا کہ پاکستان میں مزید صوبہ بننے چاہیئے اور پنجاب کے بھی 3 یا 5 صوبہ بنیں تاکہ سرائیکیوں اور دیگر لوگوں کو پنجاب کے چوہدریوں سے نجات ملے،
اظہر صاحب نے مرد ناداں غالباً اپنے آپ کو کہا ہے:)
عبداللہ نے کہا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں ، عزیز آباد میں لوہے کے بڑے بڑے گیٹ نہیں تھے کیا ؟ ، کیا نائن زیرو تک پہنچنے کے لئے آپکو کیا حلف لینا ہوتا تھا ، خیر یہ تو ماضی تھا ۔ ۔ ۔
ابھی اس وقت جا کر آپ ذرا بھی الطاف سے اختلاف کریں پھر اپنا حشر دیکھیں ۔ ۔ ۔
اور ہاں جی ہاں میں نے خود کو ہی مردِ ناداں کہا تھا ، کیونکہ کلام پھول کی پتیوں سے آپ ہی ہیروں کے جگر کاٹ رہے ہیں ؛)
اور مہر افشاں ، اب کیا کہوں ۔۔ ۔ آپکے ہی کسی دل جلے نے یہ کہا تھا
قوم پڑی ہے مشکل میں اور مشکل کشا لندن میں ۔ ۔ ۔
اور رہی بات ایجنسیوں کی ۔ ۔ ۔ تو کراچی میں کیا سارے ایجنسیوں والے غیر مہاجر ہیں ۔ ۔ ۔ ؟؟
پی پی آئی کیوں بنی تھی کچھ یاد تو ہو گا نا؟
میں نے شاہ فیصل کالونی کے چوک پر ، اسی الطاف حسین کی تصویر کو لوگوں کو چومتے دیکھا ہے ، اور پھر اسی چوک پر اسے جوتیوں کا ہار پہناتے ہوئے بھی ، اور اس پر پان کی پیک تھوکتے بھی ۔ ۔ ۔ کیا وہ سب ایم کیو ایم کے لوگ نہیں تھے ۔ ۔ ۔
اور ہاں ۔ ۔ ۔ پریشر گروپ ایسے ہی بنتے ہیں ، اور اگر ہماری عوام ذرا بھی عقل رکھتی ہوتی تو ۔ ۔ کبھی بھی بے نظیر ، نواز شریف اور الطاف کو حکومت میں نہ آنے دیتی ۔ ۔ ۔
باقی رہے نام اللہ کا
مہرافشاں اپنے کئی ایسی باتیں بھی کہہ ڈالیں جو میں شاید یہ سوچ کر کبھی نہ لکھتا کہ اس سے میرے لہجے میں پنجابیوں کے خلاف عناد کی بو نہ در آئے۔ دراصل لوگوں کے دل میں یہ خواہش نہیں کہ وہ حقیقت کو جانیں، اور اگر کوئی حقیقت کو جاننا ہی نہ چاہے اور خیالی قلعوں میں جینا چاہے تو آپ کیا کرسکتے ہیں؟ سوائے اس کے کہ انتظار کریں اسوقت کا کہ جب یہ قلعے گرجائیں گے۔
صرف ایک بات کی تصیح کر دوں میں عامر اور آفاق کا کسی صورت بھی حمایتی نہیں مگر بدتمیز اگر یہ کہتے ہیں کے متحدہ چھوڑنے والا جان سے جاتا ہے تو شاید درست ہی کہتے ہوں کیونکہ عامر اور آفاق کی پوری سیاست کا محور ہی اپنی جان کا دفاع ہے 🙂
اظہر صاحب آپ اسی منافقت کا شکار ہیں جو آپ کے ہم علاقہ لوگوں نے یہاں برقرار رکھی ہوئی ہے،
ایک طرف تو آپ فرماتے ہین کہ کوئی الطاف کے خلاف آج بھی کچھ بول نہیں سکتاورنہ اس کا حشر خراب ہو جائے اور دوسری طرف آپ ان لوگوں کا زکر بھی کر رہے ہیں جو الطاف کی تصویر کو جوتیوں کے ہار پہنا رہے تھے اور اس پر پیک تھوک رہے تھے،
بھائی صاحب مانا کہ اپ کنفیوز رہتے ہیں مگر اتنا کنفیوژن بھی صحت کے لیئے اچھا نہیں ہوتا:)
باقی آپکی معروضات کا جواب میں دوسری پوسٹ پر دے چکی ہوں آپ کو زحمت نہ ہو تو وہاں پڑھ لیں،
نعمان میں حقائق کو بیان کرنے میں کوئی باک نہیں رکھتی اور اگر ایم کیو ایم کے خلاف بھی کوئی مستند بات میرے علم میں آئ تو اس کے خلاف بولنے میں بھی مجھے کوئی ڈر خوف نہیں ہوگا،اور ایسا ہوا بھی ہے،
ابھی 5 سال پہلے کی بات ہے جب ہم نے اپنے بیٹے کے لیئے عزیزآباد کا وہی گھر دوبارہ کرائے پر لیایہ گھر جناح گراؤنڈ کے بلکل سامنے ایک گھر بعد ہے اور وہ گھر میری سگی خالہ زاد بہن کا ہے،اتفاق سے ایم کیو ایم کا کوئی جلسہ تھااور اس سے چند دن پہلے حقیقی والوں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو مارا بھی تھا اور یہ افواہ تھی کہ شائد وہ اس جلسے کو خراب کرنے کی کوشش بھی کریں تو ان لوگوں نے اپنے حفاظتی انتظامات بہت سخت کیئے ہوئے تھے خالہ زاد بہن کا گھر دو منزلہ اور گراؤنڈ کے بلکل سامنے تھا ،جلسہ والے دن اسے کسی کام سے جانا پڑا تو وہ اپنے 9 سال کے بیٹے کو ہمارے سپرد کر گئی ہم اپنی بیٹی کو جو اس کے بیٹے کی ہم عمر ہی ہے وہاں چھوڑ کر اپنے گھر کسی کام سے آئے تھوڑی دیر میں ہماری بیٹی نے آکر بتایا کہ امی خالہ کے گھر دو لوگ آئے تھے اور ان کے بیٹے نے انہیں چھت پر چڑھادیا ہے،میں انتہائی خوفزدہ ہوئی کہ نہ جانے کون ہیں فورن وہاں پہنچ کر پوچھا تو کہنے لگے ہم ایم کیو ایم کے کارکن ہیں اور ہماری یہاں ڈیوٹی لگائی گئی ہے مجھے شدید غصہ آیا اور مینے ان سے کہا کہ اپ کی ڈیوٹی کی ایسی کم تیسی ایک منٹ میں یہاں سے چلتے پھرتے نظر آئیں آپ کو کس نے حق دیا ہے کسی کے گھر میں اس طرح گھسنے کا وہ اپنی صفائیاں پیش کرنے لگے کہ ہمیں تو فلاں صاحب یہاں چھوڑ گئے ہین آپ ان سے بات کریں بہن کا لڑکا بھی کہنے لگا کہ ان انکل کو(جو ان لڑکون کو وہاں چھوڑ گئے تھے) مین جانتا ہوں وہ پاپا کے دوست ہیں لیکن مینے ان کی ایک نہ سنی اور اسی وقت انہیں گھر سے بھگا دیاحالانکہ دل مین یہ خوف بھی تھا کہ یہ دو مرد اور میں اکیلی عورت دو بچوں کے ساتھ،
تھوڑی دیر میں وہ ان صاحب کو لے کر دوبارہ آگئے وہ اسی محلے کے رہائشی تھے ہم انہیں جانتے تھے انہوں نے کہا کہ بہن مینے آپکے بہنوئی سے بات کر لی تھی،لیکن ہم نے انہیں بھی خوب لتاڑا کہ اول تو مجھے اس کا علم نہیں کہ اپنے ان سے بات کی ہے یا نہیں دوسرے گھر میں صرف دو بچے ہین اور آپ نے انجان لوگون کو چھت پر چڑھادیا وہ بولے یہ بھروسہ مند ادمی ہیں،لیکن ہم نے ان سے صاف صاف کہدیا کہ بھروسہ مند ہون گے تو آپکے لیئے آپ تشریف لے جائیں اور جب ان کے اماں ابا آئیں تو ان سے بات کیجیئے گا،وہ شرمندہ ہو کر وہاں سے چپ چاپ چلے گئے اور اس کے بعد ایک سال ہمارا بیٹا وہاں رہا اور اسے کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہ ہوا،
بلکہ زکریا اب تو ایشین کی اصطلاح عمومی طور پر استعمال ہی چینی جاپانی اور ان سے ملتی جلتی دوسری قومیتوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔۔ اور صاحب بلاگ آپ خاطر جمع رکھیے پاکستانی کا ذکر میں اب امریکن میڈیا کوئی سسپنس نہیں رکھتا۔
اس واقع پر لازمی سی بات ہے کہ دکھ تو ہر انسان کو ہوتا ہی ہے مگر مجھے افسوس اس بات کا ہوا کے اگر یہی جنونی قاتل کوئی عرب، کوئی پاکستانی ہوتا تو پھر میڈیا اکیلے آدمی کا ٹرائل نہیں کرتا بلکہ اسکی پوری قوم، پورے مذہب کا ٹرائل ہوتا اور امریکی فوجوں کو ایک اور حملے کے لیے تیار رہنے کا حکم مل جاتا۔۔ بہرحال قاتل صاحب کے لکھے ہوئے دو ڈرامے میں نے بھی پڑھے ۔۔ سجمھ نہیں آئے شروع کہاں سے ہوئے اور ختم کہاں پر۔۔ لیکن ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کے انکے ڈرامے پڑھ کر لگا کے یہ اسکول شوٹر بنے گا۔۔
بھائی مسئلہ یہ ہے کہ صرف آپ کے بلاگ پر ہی اردو ٹائپ ہو پاتی ہے۔۔ اب کبھی کبھی انسان جذبات میں پوسٹ بھی کر ڈالتا ہے جبکہ اسکا اصل مقام کہیں اور ہوتا ہے۔۔ امید ہے انسانی غلطی کا پاس کرتے ہوئے فوری طور پر یہ پوسٹ یہاں سے غائب کردیں گے۔۔ شکریہ
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور پھر آئی کہاں؟ وہی لسانی اور علاقائی تقسیم۔۔۔ ہم لوگ جو ایک رائے قائم کرلیتے ہیں تو اسی کو حتمی سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب اسی سے متفق ہوں۔ میں کراچی میں رہتا ہوں، مہاجر، پنجابی، سندھی۔۔۔۔ یہ اختلافات نہیں مانتا۔ اردو بولنے والا ہوں۔ آپ لوگ چاہیں تو مہاجر کہہ لیں۔ ایم۔کیو۔ایم کا دل و جان سے مخالف ہوں، کبھی سندھی یا پنجابی کہہ کر کسی کی مخالفت نہیں کرتا۔ غلطیاں تو ہر طرف سے ہوتی ہیں۔ اب آپ کسی کی غلطیوں کو نام دیدیں کہ اس نے پنجابی ہونے کی وجہ سے کی ہے تو غلط ہے۔۔۔ یہ تعصب ہمیں لے ڈوبا ہے۔ خدارا! اس سے پرہیز کریں۔
Leave A Reply