ہماري پچھلي تين چار پوسٹوں ميں ايک ہي بحث چلي ہوئي ہے يعني کراچي کے حالات اور ان کے پيچھے چھپے ہوئے حقائق۔ اس بحث ميں ہم لوگ دوگروپوں ميں تقسيم ہوچکے ہيں۔ ايک پرو ايم کيو ايم اور ايک ايم کيوايم مخالف يا پرو پاکستاني۔ اس کامطلب يہ نہيں کہ خدانخواستہ ايم کيو ايم والے پاکستاني نہيں ہيں۔ ہمارا دوسرے گروپ کو پروپاکستاني کہنے کا صرف يہ مطلب تھا کہ ان کي نيت ميں بھي خلوص ہے اور وہ ايم کيو ايم کي مخالفت بھي اگر کرتے ہيں تو پاکستان کي محبت ميں۔ ہوسکتا ہے ہم اس نقطے کو واضح طور پر بيان نہ کرپائے ہوں اور اميد کرتے ہيں ايم کيو ايم گروپ اس نقطے کو مثبت انداز ميں لے گا۔ ايم کيو ايم والے گروپ کو ايک غلط فہمي يہ ہے کہ وہ مخالف گروپ کے لوگوں کو متعصب اور پنجابي سمجھتے ہيں۔ اگر آپ ايم کيو ايم مخالف گروپ کي تحريريں پڑہيں تو ان ميں کوئي تعصب نظر نہيں آتا۔ ان کا صرف اتنا قصور ہے کہ ان کے خيالات ايم کيو ايم سے نہيں ملتے۔يہ کوئي اتنا بڑا جرم نہيں ہے کہ انہيں پنجاب کے کھاتے ميں ڈال کر ان پر خوب لعن طعن کي جائے۔
اچھے اور سلجھے ہوئے ذہنوں کي يہي عادت ہوتي ہے کہ وہ تحمل اور بردباري سے بات سنتے ہيں اور پھر مدلل جواب ديتے ہيں۔ اس بحث ميں کبھي کبھي مخالف فريق کي باتيں دل دکھانے والي بھي ہوتي ہيں مگر ان باتوں کا جواب بھي اگر حوصلے سے ديا جائے توپھر بحث کے مثبت نتائج نکلتے ہيں۔ اس طرح بحث کرنےوالوں کيساتھ ساتھ پڑھنے والوں کي بھي تربيت ہوتي ہے۔ اگر بحث کرنے والے حوصلہ ہار جائيں تو پھر وہي ہوتا ہے جو چند ماہ قبل شعيب کے “خدا سے ملو” والي پوسٹ کے چھپنے پر بحث کے بعد ہوا تھا۔ اس بحث نے گالي گلوچ کي شکل اختيار کرلي اور اردو سيارہ والوں کو مجبوراً کئي بلاگرز کو بلاک کرنا پڑا۔
آئيں ہم اس واقعے سے سبق سيکھيں اور بحث کو ايک اچھے اور منجھے ہوۓ تجربہ کار انسان کي طرح آگے بڑھائيں۔ اميد ہے تمام شرکا صبر کا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑيں گے اور اس بحث کو اپنے مختصر دلائل کيساتھ اتنا جاندار بنا ديں گے کہ مستقبل کے قاري کو ايم کيو ايم کي تاريخ جاننے ميں مدد ملے گي۔
ہماري پہلي دو چار تحريريں بھي ايم کيو ايم پر تنقيد پر مشتمل تھيں اور يقين مانيں سب سے زيادہ تبصرے انہي تحريروں پر لکھے گئے۔ ان تبصروں سے ہم نے يہي تاثر قائم کيا کہ ہم لوگ مخالفت برائے مخالفت ميں الجھ کر اصل مسئلے کو پس پشت ڈال ديتےہيں۔ اگر ہم مخالفت کرنے والے کي نيت پر شک کرنے لگيں تو اس کا تبصرہ جہالت پر مبني لگنے لگتا ہے۔ ليکن اگر ہم اپنے مخالف کو بھي ايک اچھا اور مخلص انسان مان ليں تو پھر اس کي باتوں سے ہم سيکھتے بھي ہيں اور اس کيساتھ بحث کا لطف بھي اٹھاتے ہيں۔
ايم کيو ايم جس طرح بھي بني اس سے ہٹ کر اگر اس کي پچھلے دس پندرہ سال کي کاکردگي کا جائزہ ليا جاۓ تو يہ جماعت بھي دوسري سياسي جماعتوں کي طرح خود غرضوں کا ايک ٹولہ نظر آتي ہے۔ نواز شريف اور بينظير کے ادوار ميں اسے حکومت ميں شامل ہونے کا موقع ملا مگر اس کي کارکردگي دوسري جماعتوں کي طرح صفر ہي رہي۔ اب ايم کيو ايم سات سال سے فوجي حکومت کو سپورٹ کرنے کيساتھ ساتھ سندھ اور کراچي پر حکومت بھي کررہي ہےمگر کراچي کے حالات جوں کے توں ہيں۔
ہميں ايم کيو ايم کے سربراہ الطاف حسين اور بينظر ،نواز شريف ميں کئ مماثلت نظر آتي ہيں۔ الطاف صاحب بھي بينظير ک طرح خود ساختہ جلاوطني اختيار کئے ہوئے ہيں۔ انہوں نے بھي نواز شريف کي طرح جيل جانے کي بجائے باہر رہنا پسند کيا۔ ايم کيو ايم کے الطاف بھائي اسي طرح ايک فوجي جنرل کے دور ميںليڈر بنے جس طرح بھٹو جنرل ايوب کو ڈيڈی کہ کر سياست ميں آئے اور نواز شريف بھي جنرل ضيا کے زير سايہ سياست ميں چمکے۔ الطاف صاحب بھي ہمارے وزير اعظم اور ان کي کابينہ کے بيشتر ارکان کي طرح دوہري شہريت رکھتے ہيں۔
ايم کيو ايم کے الطاف صاحب کے کئي ايسے منفرد ريکارڈ ہيں جنہيں توڑنا مستقبل ميں شايد ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہوگا۔ الطاف صاحب نے ٹيليفونک خطاب کو رواج ديا۔ الطاف صاحب نے لساني بنيادوں پر ايک تحريک کي بنياد رکھي جس کو بعد ميں نام بدل کر قومي تحريک بنانے کي ناکام کوشش کي گئ۔ الطاف صاحب کي تحريک بيس سال گزرنے کے بعد بھي حيدر آباد اور کراچي سے آگے نہيں بڑھ سکي۔جماعت اسلامي کي طرح ايم کيو ايم ايک منظم جماعت تھي اور اب بھي ہے۔ اس کے ورکر الطاف صاحب پر اسي طرح جان نثار کرنے کو تيار رہتے ہيں جس طرح ايک مسلمان اپنے نبي صلعم کي خاطر ہر وقت جان ہتھيلي پر تيار رکھتا ہے۔ يہي خوبي ايم کيو ايم کو دوسري سياسي جماعتوں کے مقابلے ميں برتري دلاتي ہے اور اسي وجہ سے ايم کيو ايم لمبے عرصے سے کراچي سے قومي اسمبلي کي نشستيں جيتتي آرہي ہے۔ الطاف صاحب ايسے لیڈر ہيں جو پاکستان کي ايک اہم جماعت کے سربراہ ہوتے ہوئے دوسرے ملک کے شہري بنے۔ الطاف حسين صاحب نے اپني تقريرکے انداز کو ذاکرانہ سٹائل ميں بدل کر ايک نئ طرح ڈالي ہے۔ وہ بيان بھي ديں تو لگتا ہے نوحہ پڑھ رہے ہيں۔ ايم کيو ايم کا ايک اور منفرد انداز اس کا ميڈيا کا صحيح استعمال ہے۔ کسي کي اگر برڈ فلو سے مرغي بھي مرجائے تو ايم کيو ايم کے قائد کا بيان آجاتا ہے اور اسے ميڈيا بڑي خبر کے طور پر کوريج ديتا ہے۔
ايم کيو ايم نے آزاد کشمير کے پچھلے انتخابات ميں ايک آدھ سيٹ حکومت کي مدد سے جيت کر کوشش کي کہ وہ ايک قومي جماعت بن سکے مگر اس کي راہ ميں سب سے زيادہ رکاوٹيں اس کي حليف جماعت مسلم ليگ ق کے چوہدريوں نے پيدا کيں۔ اس کے پنجاب ميں قائم کردہ دفاتر کو بزرو طاقت بند کرديا اور اسے اپنے پاؤں جمانے نہيں ديے۔ يہ الطاف صاحب کي بردباري ہے کہ اتني بڑي مخالفت کے باوجود انہوں نے مسلم ليگ ق کي حکومت سے عليحدگي اختيار نہيں کي۔ ہوسکتا ہے جنرل مشرف صاحب کي آشيرباد ہردفعہ الطاف صاحب کو حکومت مخالف کوئي بڑا قدم اٹھانے سے روکتي ہو۔ جنرل صاحب چونکہ خود اردو سپيکنگ ہيں اسليے ہوسکتا ہے ان کي ہمدردياں بھي مسلم ليگ ق کے مقابلے میں ايم کيو ايم کيساتھ زيادہ ہوں۔
ہميں ايم کيو ايم سے يہ اختلاف ہے کہ اس نے بھي ايک فوجي حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے۔ يہ وہ فوجي حکومت ہے جو جعلي جمہوريت کي آڑ ميں ڈنڈے کے زور پر پاکستان پر حکومت کررہي ہے۔ اس فوجي حکومت نے بگٹی کو قتل کرکے، باجوڑ ميں طلبا کر شہيد کرکے، چيف جسٹس کو معطل کرکے ايسے غير جمہوري کام کئے ہيں جن کي مخالفت الطاف حسين نےکي تو ہے مگر حکومت سے علیحدگي اختيار نہيں کي۔ کل کو اگر تاريخ جنرل مشرف کے سياہ دور کے سياہ کارناموں کا ذکر کرے گي تو ايم کيو ايم کو بھي اس کا مجرم قرار دے گي۔
ہم نے اس بحث کو جاندار بنانے کيليے اچھا خاص مواد مہيا کرديا ہے اور اميد يہي ہے کہ يہ بحث مثبت انداز ميں آگے بڑھے گي۔ خدارا ہميں ايم کيو ايم کي مخالفت پر پنجابي کا طعنہ نہ ديجئے گا۔ ہم خدا کو گواہ جان کر کہتے ہيں کہ ہميں پاکستان کا روشن مستبقل عزيز ہے اور يہي ہمارا مشن ہے۔ اس سے قطع نظر کراچي ميں غنڈہ گردي کا اصل ذمہ دار کون ہے آئيں ايم کيو ايم کي سياسي تاريخ کا جائزہ ليں اور يہ ديکھيں کہ ايم کيو ايم جن مقاصد کيلئے بنائي گئ تھي وہ پورے ہوئے کہ نہيں۔
94 users commented in " ايم کيو ايم، اردو سپيکنگ يا مہاجر تحريک "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackراشد صاحب بار بار قسم کھانے کی تو کوئی بات ہی نہ ہوئی تھی صرف ایک بار کی بات تھی البتہ یہ اچھی بات ہے کہ اپ کو اللہ کا اتنا خوف ضرور ہے کہ آپ جھوٹی قسم نہیں کھارہے ہیں،
چلین مان لیا کہ اپ اردو بولنے والے ہیں تو کیا ہوا آپ جیسے قوم فروش بقول اجمل صاحب ہر قوم میں ہوتے ہیں،
آپ فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا نام آتے ہی لوگ ترش کیوں ہو جاتے ہیں؟تو ایم کیو ایم کے نام پر تو صرف پنجاب کے لوگ ہی ترش ہوتے ہیں پنجاب کے نام پر سارے صوبہ ترش کیوں ہوجاتے ہیں زرا اس پر بھی غور کیجیئے گا،
پیپلز پارٹی کے برے کسی عتاب میں مبتلا نہیں ہوئے ہاں ان کے ورکر ضرور کوڑے کھاتے رہے اور اس پارٹی کے بڑوں کو جب بھٹو کی موت سے کوئی فرق نہ پڑا تو ورکر تو پھر کیڑے مکوڑے تھے،
ویسے الزلفقار آپ کہ یاد ہو گی،
سچ پوچھیں تو ہمیں اس مین بھی شک ہے مرتضی کو راستے سے ہٹاکر بے نظیر جیسی بے وقوف خاتون کو سامنے لانااس میں بھی بڑے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں،بقول اجمل صاحب سو کالڈ قومی راز۔۔۔۔۔۔
اسلحہ کس جماعت کے پاس نہیں اور ریلیوں سے کون تنگ نہیں ہوتا؟
راشد وڑائچ صاحب یہ بالکل غیر متعلقہ تبصرہ ہے۔۔ اور یہاں بالکل دوسری بحث چل رہی ہے شاید آپ نے بلاگ پڑھے بغیر ہی تبصرہ پوسٹ کردیا ہے۔
مہر افشاںصاحبہ آپ ذاتیات پر نہ جائیں اور اگر کوئی آپ سے اختلاف کرے تو اسکو جھوٹا یا قوم فروش کہیں یہ مناسب نہیں ۔۔ مجھے دلی دکھ ہوا۔ اور ایم کیوایم کا مسئلہ بھی یہی ہے کے اختلاف برداشت نہیں اور فورا قوم فروش کا خطاب مل گیا۔۔ اور نعمان شاید آپ کو بھی آپ کا جواب مل گیا ہوگا کے ایم کیو ایم میں اختلاف کی کیا قیمت ہوتی ہے یعنی آپ کو قوم فروش کہا جائے۔۔
دوسرا آپ نے پیپلز پارٹی ، بھٹو، ورکر کیڑے مکوڑے کی جو اصطلاح استعمال کی ہے مجھے اندیشہ ہے کے آپ بہت سے تاریخی حقائق کے حوالے سخت مغالطے کا شکار ہیں ۔۔ آپ پیپلز پارٹی کی تاریخ اور میرا پاکستان پر بھٹو کی برسی والی بلاگ ضرور پڑھیں ۔۔ آپ مجھ سے اختلاف ضرور کریں ۔۔ مگر ت نہذیب کے دائرے میں۔۔ یہی اس بلاگ کا مقصد ہے کے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک اختلافی ٹاپک پر گفتگو کریں ۔۔ تاکہ دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کی شکایات بھی سنیں اور ایک دوسرے کا موقف جان سکیں۔۔ اسی سے تبدیلی آتی ہے نہ کے آپ مجھے قوم فروش کہیں صرف اس وجہ سے کے میںایم کیو ایم کے طریقہ کار کا مخالف ہوں اور شخصیت پرستی نہیںکرنا چاہتا؟
اجمل صاحب نے اظہر کی سنائی کہانی سے اپنے مطلب کے ٹکڑے کاٹ کر سنا دیئے،
ان کو افسوس ہوگا کہ ہم اس پر نہ تو ہنس رہے ہیں اور نہ جھٹلا رہے ہیں،
پہلی بات جب کوئی تحریک اس حد تک طاقت پکڑ لے کہ بڑوں کو اپنے سنگھسن ڈولتے محسوس ہوں تو سب سے پہلے اس میں ایسے لوگ داخل کیئے جاتے ہیں جو اس تحریک میں رہ کر اسے نقصان پہنچائیں،
دوسرابات وہ ہے جو نعمان نے کہا کہ کیا لوگ کتوں کی موت مرتے رہتے اپنے دفاع کی تو دین بھی اجازت دیتا ہے،
تیسری بات لاندھی کورنگی ملیر اور ایک آدھ اور علاقہ کے شدت پسندوں کو ملا کر ہی فوج نے حقیقی تشکیل دی تھی ،یہ خیال رہے کہ ان علاقوں کے لوگ ان لوگوں کی ان حرکتوں میں ان کے ساتھ نہیں تھے اس کی گواہی تو اظہر بھی دیتے ہیں
ورنہ اظہر نے جس گلبرگ کی بات کی ہے وہاں تو ایسا کچھ نہ تھا جبکہ یہ عزیز آباد سے زیادہ دور بھی نہیں ہے،
اوراجمل صاحب کی انفارمیشن کا تو یہ حال ہے کہ انہوں نے ضیاء کو بھی اردو بولنے والا بنا دیا تھا حالانکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ اس کا تعلق جالندھر سے تھا،اور اردو بولنے والوں کو وہ سخت ناپسند تھا لوگ تو اسے اللہ معاف کرے کانا اور پتہ نہیں کیا کیا کہا کرتے تھے،
راشد صاحب آج ایم کیو ایم کی ریلی نے آپکو بتا دیا ہوگا کہ اردو بولنے والے کس کے ساتھ ہیں،جبکہ اس میں آدھے لوگ ہی آئے ہوں گے باقی ہمارے جیسے تو گھر میں ہی بیٹھے رہے ہوں گے،
آپ نے تو قسم نہ کھائی لیکن ہم اپنے اللہ کو حاضر ناضر جان کر کہتے ہیں کہ ہم یا ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد ایم کیو ایم کا کارکن نہیں ہے،البتہ ہمارے خاندان کی اکثریت ایم کیو ایم کو ووٹ ضرور دیتی ہے اور ہم تو وہ بھی نہیں کرتے مگر سچ کو سچ کہنا اس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا،
میرے حساب سے ایم کیو ایم کو جامعہ حفصہ کے خلاف ریلی کا کوئی حق نہیںپہنچتا۔ ایم کیو ایم پہلی جماعت ہے جس نے یونٹ کے نام پر متوازی حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنے تئیں ایم کیو ایم کے قانون کے نفاذ کی کوشش کی۔ جامعہ حفصہ کے لوگو ں نے (میں ملاؤں کا قطعا حامی نہینں) اگر یہ کام کیا ہے تو ایم کیو ایم یہ کام برسوں سے کرتی آئی ہے۔۔ آپ کو یونٹ میں بلایا جانا، گھروں پر آنا اور محلوں میں اپنی مرضی کے فیصلے نافذ کروانا یہ کام ایم کیو ایم برسوںسے کر رہی ہے۔۔ ریلی نکالنے سے پہلے انہیں چاہیے تھا کے عوام سے معافی مانگتے کے ہم بھی اسی طرح کی حرکت کرتے رہے ہیں۔
راشد یو آر امپوسیبل:(
آپ کی فضول باتوں سے میں تنگ آچکی ہوں گھہم پھر کر ایک ہی راگ الاپتے رہنا اور حقائق سے آنکھیں بند رکھنا آپ کی فطرت ہے تو آپ اس پر قائم رہیں ،آپ جو لکھتے ہیں وہ آپ کے اپنے زہن کی اختراع ہے، آپ چاہیں تو اپنی اس لغو گوئی پر قائم رہیں مثل مشہور ہے جھوٹے کے آگے سچا روئے،
مہر افشاں صاحبہ جب آپ کسی بحث میں حصہ لیں تو اس بات کا خیال رکھیں کے آپ سے اختلاف کرنے والے بھی آئیں گے۔۔ آپ ابنے موقف پر قائم رہیں اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیں کے کون جھوٹا اور سچا ہے۔۔ تحمل اور دوسرے کی بات برداشت کرنا بھی سیکھیں اور ایم کیو ایم والوں کو بھی سکھائیں۔۔ اور اپنی غلطی کی معافی مانگنا بھی سیکھیں آپ نے دو بار مجھے جھوٹا اور قوم فروش کہا ہے مگر ایک دفعہ بھی ذاتیات پر اترنے کی معذرت آپ نے نہیںکی ؟
افضل صاحب مجھے افسوس ہے کہ کئی دفعہ اس بلاگ پر میں خود بھی ذاتی گفتگو کا مرتکب ہوا ہوں امید ہے آپ اور قارئین نظر انداز کریں گے 🙂
میں مہاجر
میری روح مہاجر
میں مر جاوں تو میری قبر پر لکھ دینا
جیے مہاجر
احقرنے یہ سب نعرے سنتے اور لگاتے ہوے ہوش سنبھالا۔ ڈاکٹر فاروق ستار جب پی آی بی کالونی سے منتخب ہوے توجشن منانے والوں میں ہما رے گھر والے پیش پیش تھے کے آج جیت مظلوموں کی ہوی ہے۔ ‘قاید تحریک‘ کا نام اس تمام دکھ اور غم کا مداوا سمجھا جاتا جو ہمارے آباو اجداد نے ہجرت کے دوران اور اسکے بعد کراچی کی بستیوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے سہے۔ لانڈ ھی داود چورنگی اور فیوچر کالونی میں جہاں ہمارا آدھے سے زیادہ خاندان انڈیا سے آنے کے بعد مقیم ہوا، مستقل طور پر اذیت رسانی اور پریشانیوں کا سامنا رہتا۔ میرے مامووں کو لوگ آتے جاتے “پناہ گزیں کا بچہ“ کے آوازے سہنے پڑتے اور دکانداروں کا ھتک آمیز رویہ ایک عام سی چیز سمجھا جاتا۔ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود نوکریوں کے لیے دھکے اور سماجی مقاطعہ کی سی صورتحال۔ شاید یہی سب دیکھنے کے لیے ہمارے نانا نے کاچی گوڈا حیدرآباد دکن کی کلکٹرشب چھوڑی، گھر بار کو خیر آباد کہا اور اسلامی ریاست کی طرف کوچ کیا۔ خیر انکا اجر انکے رب کے پاس، وہ اس پر اشوب دورکو دیکھنے زیادہ ّعرصے زندہ نہ رے کہ جب اپنوں نے ہی وعدے وفا نہ کیے۔ دادا مرحوم کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی جنھوں نے پربھنی حیدرآباد کی فاریسٹ افسر کی نوکری کو ‘پی ڈبلیو آو‘ کی کلرکی کے لیے خیر اباد کہا۔ دادا کے بھای جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ کو جب تقسیم ھند کے موقع پر برطانیہ میں پاکستان یا انڈیا میں سے واپسی کی ریاست کا اختیار دیا گیا تو انھوں نے بلا جھجک پاکستان کا انتخاب کیا۔ بعد ازاں انہیں کو زولفقار علی بھٹو کی حکومت میں زیل پاک سیمنٹ کئ چیرمین شپ سے ہٹایا گیا اور فیکٹریوں کو قومیانے کے نام پر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے کے انہٰیں جیالوں کے عتاب سے بچنے کے لیے پانچ سال تک گھر والوں کے ساتھ جلاوطنی کاٹنہ پڑی۔ یہ وہ فرد ہے جس نے پاکستان کو زیل پاک، جاویداں سیمنٹ اور دیگر کیی ملز اور انڈسٹریز دیں۔
قصہ مختصر یہ کہ اس چمن کی بنیادوں میں ہمارا ، ہمارے باپ دادا کا اور نسلوں کا خون اور پسینہ شامل ہے، باقی تو محرومیوں اور مظالم کی داستان دراز سنای جاے تو صفحات کے صفحات کالے کیے جاسکتے ہیں لیکن آمدم برسر مطلب۔ پھر یوں کہ 80 کےدرمیانے عشرے میں میں ہمارے ایک بھای (کزن) کو جماعت اسلامی میں جانے کی سوجھی۔ اب کیا تھا، مہاجر قومی مومنٹ کے “بھای لوگوں‘ کو یہ بات زرا برابر نہ بھای اور میرے تایا کے گھر کے دروازے پر میرے کزن کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ پستول دکھانے والوں میں وہی لوگ تھے جن کے ساتھ ہم بچپن سے کھیل کر بڑے ہوے۔ گھر پر دھمکیا ں موصول ہونے لگیں اور آخرکار گھر پر فایرنگ کی گی۔ اس اللہ کے بندے کو چھ ماہ گھر پر سونا نصیب نا ہوا اور مجھے ایسا لگنا شروع ہوا کہ جیسے تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے۔ آختلاف راے کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور مہاجروں کو دیوارسے لگایا جا رہا ہے، اس دفعہ انہیں کے اپنے لوگوں کے ہاتھوں۔ میرے خالہ زاد بھای (پہلے کورنگی میں یونٹ انچارج اور بعد ازاں سیکٹر کمیٹی کے رکن) سے بات کی گی تو انھوں نے اپنے ہاتھ بندھے ہونے کی شکایت کی۔ یہی وہ فرد تھے جو الطاف حسین کو عقیدت کی حد تک چاھتے تھے اور آج انکی تصویر یہاں موجود ہے۔
http://www.mqm.com/missing-persons/missing-persons.htm
انکے بیوی اور بچے آج بھی انکے آنے کی راہ دیکھتے ہیں اور انکی آنکھیں یہ سوال کرتی ہیں کہ ملٹری گورمنٹ میں شامل ہوتے ہوے کیا تحریک کے ناخداوں کو میرے شوہر، میرے والد اور میرے بھای کا خون یا نا آیا؟ اس کی تحقیقات کا مطالبہ سرد سے سرد تر کیوں ہوتا گیا کہ آج اسکی آوار بھی نہیں آتی؟
“ووٹ تو صرف الطاف بھای کا ہے “ کے الفاظ دھراتے ہوے بڑے ہونا والے فرد نے جب لا امتناہی ‘جلا وطنی‘ اور شہیدؤں کے خون سے سرخ لال پاسپورٹ دیکھا تو اسکا دل مزید کرچی کرچی ہوگیا۔ نظریاتی افراد کو تو مہاجر قومی مومنٹ (اب متحدہ) بہت پہلے کھو چکی ہے؛ اس وقت جبکہ سیکٹر کے لڑکوں کے ہاتھ میں بندوقیں تھما دی گیں، جب مہاجروں کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا گیا جو تعلیم کے بجاے نقل اور غنڈہ کردی کے اصولوںسے آراستہ ہے اور جب بابر مارکیٹ “مہاجر خیل“ کے باھر تشدد زدہ لوگوں کی چیخیں اور کراہیں رونگٹے کھڑے کر دیتیں۔ جب انتخابات میں دھاندلی ‘وقت کی ضرورت‘ اور وطیرہ بن جاے اور جب رنگ، نسل اور زبان پھچان سے زیادہ دوسر
بابر مارکیٹ مہاجر خیل آپ کے حقیقی دوستوں کے قبضے میں رہا ہے،جہاں سے ایک ادھ مرے پٹھان کو جو آپ یا آپ کے دوستوں کی گولیوں کا نشانہ بنا تھا میرے بھائی نے اٹھا کر ہاسپٹل پہنچایا اور پولس میں رپورٹ درج کروائی،
اور یہی حال کورنگی اور ملیر کا بھی تھا جہاں کے حقیقی غنڈوں نے پہلے دوسروں کا اور پھر اپنے ہم زبانوں کا خون بہایا،اپنے سیاۃ اعمالوں کی داستان سناتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ تم لوگوں کو تمہاری قوم مسترد کر چکی ہے بیت الحمزہ کی یاد گاروں،
راشد صاحب ریلی میں آنے والے تو اپنی مرضی سے آبھی گئے، اصل میں انہیں آپ سے مشورہ لینا یاد نہیں رہا:)،اور میں ایسے کسی شخص سے معفی مانگنا ضروری نہیں سمجھتی جو خود اپنے لوگوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلا ہو،
محترمہ مہر افشاں
روایتی الزام تراشی نا کریں اور جس طرح راشد صاحب نے کہاا، گفتگو کو تہزیب کے دایرے میں رکھیں اور قاری کو صحیح غلط کا فیصلہ کرنے دیں۔ میرا ایم کیو ایم حقییقی سے نا کبھی کوی تعلق رہا ہے نہ رہ سکتا ہے کیونکہ وہ تو ایک اور ایسا ضمیر فروش ٹولہ تھا جو کہ رینجرز کے ٹرکوں پر ہی لد کر آیا اور انہی کے ہٹانے سے چلا گیا۔ جن کے لوگ گھروں کے دروازے دھڑ دھڑا کر جلسوں کو کامیاب بنا یا کرتے تھے۔
شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے،وہی اپنے جنہوں نے قوم کی ناو کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر لندن یاترا کی۔ اوروہی اپنے جنہوں نے ایک پوری مہاجر نسل کو تباہ کیا اور آج اسٹیبلسمنٹ کی گود میں بیٹھے ہیں۔
قصہ مختصر۔ پچھلی پوسٹ میں بیان کیے گے نا معلوم افراد کی زندگیوں پر سودے بازی کرنے کی کیا قیمت اسٹیبلسمنٹ نے ادا کی تھی، کچھ پتا ہے آپ کو؟
میں نے نہ تو ریلی کی مخالفت کی نہ اس میںجانے والوںکی اور نہ اس کے مقصد کی۔۔ میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ایک ریلی اپنے خلاف بھی نکالیے کے ہم بھی یہی کرتے رہے تھے۔۔ میرے اپنے لوگ اور میرےہم وطن کبھی دہشت گرد نہ تھے ہاں ان میںسے چند لوگ خودساختہ نمائندے نہ صرف دہشت گرد تھے بلکہ اب بھی ہیں اور کراچی میں آج بھی متحدہ اور خوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔۔ اور ابھی برسوں لگیں گے اس خوف کو دور ہونے میں بشرطیکہ متحدہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور تحریک کی اساس کی طرف لوٹ جائے۔۔
قائد تحریک کہا کرتے تھے
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
مگر یہ کبھی نہ بتایا کے “ اپنی مٹی “ لندن میںہے
محترم نعمان صاحب نے فرمايا كہ پہلے تنظيم جوائن كريں پھر بات كريں، تو ميرے محترم بھائي ميں نے A.P.M.S.O اُس وقت جوائن كرئي تھي جب لوگ اس سے اپنے تعلق كو چھپا رہے تھے، ميرے والد بزرگ كميٹي كے ركن اور ميرے بھائي كا بھي ١٩٨٦ سے تنظيم سے تعلق رہا ہے، قطہ نظر اس كے كہ ميرا تعلق كياتھا ہر ميرے گھر والوں كا كيا ہے، اصل مسئلہ يہ ہے كہ ہم نے اپني غلطيوں سے كيا سيكھا، محترمہ افشاں صاحبہ آپ نے كہا كہ آپ كا تعلق نہيں ہے ايم كيو ايم سے ليكن محترمہ ميں نے چيزيں ديكھي ہيں، جب ايك نئے كاركن كي بدماشي پر ذمہ دار كچھ نہ كہے اور آنكھيں بند كر ليں تو پھر اسي طرح گلي گلي بدماشي ہو گي، محترم نعمان صاحب اور قابل احترام افشاں صاحبہ ميري اس بات سے تو آپ بھي متفق ہوں گے كہ جب جب ايم كيوايم عروج پر آئي ہے كراچي ميں ڈاكہ، موبائل فون چھينے كي واردات ميں اضافہ ہوا پے، كچھ واقعات تو ميں خود بھي جانتا ہوں، بہركيف يہاں پر اس ٹاپك پر بحث كرنے كا مقصد كسي كي دل آزاري نہيں ہے ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑ رہا ہے كہ ہم مثبت بحث كے بجائے ايك دوسرے كي كردار كشي كر رہے ہيں
محترم نعمان صاحب اورمحترمہ افشاں صاحبہ جوان خون ہيں اور جذباتي بھي ليكن اجمل صاحب آپ كو تو مدابرانہ سوچ كا ساتھ نہيں چھوڑنا چاہيے تھا ليكن آپ نے جس قسم كي پوسٹ كرئي ہے اُس سے بڑا دكھ ہوا ہے
اب بات كرتے ہيں شہري حكومت كي كاركردگي پر تو محترم راشد كامران صاحب نے بھي اس بات كا اعتراف كرا ہے كہ كام ہو رہاہے اور يہ ميں بھي كہ رہا ہوں كہ ترقياتي كام ہو رہاہے اور جتني تيز رفتاري سے ہو رہا ہے اس كي نظير ملنا مشكل ہے ليكن ان سارے كاموں پر كوئي ايك غلط حركت پردہ ڈال ديتي ہے، ايم كيو ايم كے پاس كراچي كے عوام كا مينڈيٹ ہے ليكن كراچي كے كتنے فيصد لوگ اب دل سے ايم كيو ايم كے ساتھ ہيں معاف كيجے گا اگر آپ كل (١٥ اپريل ) كي ريلي كو لے كر خوش ہو رہے ہيں تو اس ميں پڑھا لكھا طبقہ نہ ہونے كے برابر تھا زيادہ تر گٹكہ پارٹي ہي تھي، اور اس ريلي نہ سڑك پر كيا كيا كيا ہے سب ہي جانتے ہيں ميں نے اسٹڈيم روڈ پر خود اپني آنكھوں سے ديكھا ہے ريلي كو كے ٹريفك بلاك كر كے نعرے بازي كر رہے تھے جب كہ سب جانتے ہيں كہ اس روڈ پر كراچي كے دو بڑے ہسپتال ہيں يہاں پر يہ بات كہنے كا مقصد صرف يہ ہے كہ ايم كيوايم كراچي كي نمائندہ جماعت ہے اس ليے ان كے ذمہ داروں كو ان باتوں كا خيال ركھنا چاہيے بہر كيف اگر كسي كو بھي ميري بات سے كوئي تكليف ہوئي ہے تو معافي كا طلب گار ہوں
ميں نے جو بھي لكھا ہے وہ ميري اپني رائے ہے اور اس سے كسي كا متفق ہونا بھي ضروري نہيں ہے۔
اب تک کی ایم کیو ایم پر کی گئ بحث کا حاصل کچھ اس طرح ھے۔
ایم کیو ایم کو جب بھی موقع ملا اس نے اپنے مخالفین کو مارا پیٹا اور ڈنڈے کے زور پر اپنی جماعت کیلئے ووٹ لئے۔ اسی طرح جب ایم کیو ایم کے مخالفین کو موقع ملا پھر انہوںنے بھی ایم کیو ایم کی نقالی کرتے ھوئے انہیںبھی مارا پیٹا اور یھ سلسلہ اب تک جاری ھے۔
ہم نے زیادہ تر وقت شخصی تنقید اور ایک ہی نقطے کو بار بار دھرا تے پر صرف کیا۔
ایم کیو ایم بہت سے اچھے کام بھی کررہی ہے اور اپنا ایک مشن رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم پر بہت سے الزامات بھی ہیںجن کا جواب اس کے کارکن لفظوں میںتو دے سکتے ہیںمگر عملی طور کب ان کا مداوا کرتی ہے یہ وقت بتائے گا۔
یہ بات طے ہے کہ ایم کیو ایم نے فوجی آمریت کا ساتھ دے کر جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی۔
ایم کیو ایم بھی باقی سیاسی جماعتوںکی طرح انتظامیہ کے ہاتھوں تنگ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی مرضی کے کام کر نہیںپارہی۔
ایم کیو ایم کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش میںپھنےسے ہوئے اپنے بھائیوںکو وطن واپس لانا ہے۔ اس میں ایم کیو ایم اب تک کیوں کامیاب نہیںہوسکی یہ ایک راز ہی رہے گا۔
ایم کیو ایم کے سربراہ کا لندن میں مستقل رہائش اختیار کرنا بھی ایک ایسا الزام ہے جس کا جواب کوئی بھی تسلی بخش نہیںدے سکا۔
آیئے اس بحث کو یہیںپر سمیٹیںاور اب فیصلہ قاری پر چھوڑدیں۔
افضل صاحب بحث سمیٹتے سمیٹتے بھی آپ ڈنڈی مار ہی گئے کہ ایم کیو ایم کو جب بھی موقع ملا اس نے اپنے مخالفین کو مارا پیٹا اور ڈنڈے کے زور پر اپنی جماعت کے لیئے ووٹ لیئے،جو نری الزام تراشی ہے،اور یہ الزام بھی آپ نے پہلے ایم کیو ایم پر تھوپا اور پھر دوسری جماعتوں کو کہا تاکہ دوسروں کو مظلوم ثابت کر کے ایم کیو ایم کو مظلوم ثابت کیا جا سکے حالانکہ ایم کیو ایم ظلم کے جواب میں ہی وجود مین آئی تھی،مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد،
ویسے تو آپ نے ہمارے کسی سوال کو اس قابل نہ سمجھا کہ اس کا جواب دیتے پھر بھی ایک سوال اور کر رہی ہوں، اس دور میں جبکہ ایم کیو ایم اقتدار میں ہے کتنا اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاراوائیاں کر رہی ہے؟
باقی رہا ڈنڈے کے زور پر ووٹ لینے کا سوال تو الیکشن کچھ دور نہیں دیکھے لیتے ہیں، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا،
اس دور میں جبکہ ایم کیو ایم اقتدار میں ہے کتنا اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاراوائیاں کر رہی ہے؟
یہ تو کوی ایم کیو ایم (حقیقی یا اینٹی) کے گھر والوں سے پوچھے جن کی یونٹ آفسوں میں حاضریاں لگیں، معافی نامے لکھے اورآج تک ان کی قسمت میں دربدری ہے یا پھر سنی تحریک کے لوگوں سے جن کا آج کوی پرسان حال نہیں۔ پوری قیادت کو متحدہ کی حکومت کے دوران مار دیا گیا اور آج تک نا کوی قاتل پکڑا گیا نا “تحقیقات“ کا انجام سامنے آیا۔ ہر علاقے میں انکے خلاف انتقامی کاروایاں کی گیں اور سنی تحریک کے افراد کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جس میں انھوں نے متحدہ کو بارہا اس ظلم و استبداد کا ذمہ دار ٹھرایا مگر بصداے صحرا
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
جب گورنر ہاوس کے برطانوٰی وظیفہ خور خود دستانے پہنے بیٹھے ہوں تو پھر کیا کہا جاے۔
جواب ملے گا، کسی کے الزام لگانے سے کیا ہوتا ہے، متحدہ تو بے گناہ ہے۔ یہ بہلاوے کسی اور کو،
ہم نے بھی اس کوے طلب میں، دل نظر کیا جاں واری یے
اب کوی بتلاے کہ اگرمتحدہ ڈنڈے اور بندوق پر بھروسہ نہیں کرتی تو ‘کراچی آپریشن‘ کے تمام اہم کرداروں (پولیس والوں) کے بہیمانہ قتل اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر اسکا کیا موقف ہے؟ ۔ اور اوپر بیان کی گی تنظیموں کی آہ و زاری کو متحدہ کی انتظامیہ کب درخور اعتنا جانے گی؟
برادران و سسٹران
السلا م علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ کی محفل میں پہلی دفعہ شرکت کرنے پر آپ سب کی طرف سے بقلم خود کو خوش آمدید کہنے پر آپ سب کا پیشگی شکریہ !
بہت دنوں سے یہ سائٹ زیر مطالعہ ہے اور میں کافی حبس محسوس کر رہا تھا ۔ اس لئے سوچا کہ ذرا پانی میں اتر کر دیکھا جائے کہ تہہ میں کتنا طوفان ہے۔
ہاں تو جناب ! بات یہ ہے کہ پاکستان میں اردو بولنے والے ہوں یا پنجابی، پشتو بولنے والے ہوں یا بلوچی ، سندھی بولنے والے ہوں یا سرائیکی یہ سب اول تاآخر پاکستانی ہیں اور بھائی ہیں ۔ پاکستانی ہونے کے ناطے بھی اور مسلمان ہونے کے ناطے سے بھی ۔ ہم سب کے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: “ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ ہی ایک دوسرے کو تکلیف دیتا ہے اور نہ ہی گالی دیتا ہے۔“
امید کرتا ہوں کہ برادران و سسٹران سب بشمول بقلم خود ہم اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی ہونے کاثبوت دیں گے ۔ باقی جہاں تک ایک دوسرے کو قائل کرنے کا معاملہ ہے تو ہر ایک کو اپنا اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے مگر معقولیت اور دلیل کے ساتھ !!! کیا خیال ہے آپ سب کا ؟؟؟
برادران و سسٹران ! فی الحال آج کے لئے اتنا ہی ۔ باقی پھر ۔ بشرط زندگی انشا اللہ ! بقلم خود
۔۔۔اور ڈنڈے کے زور پر اپنی جماعت کے لیئے ووٹ لیئے ۔۔۔
یہ تو بہت قابل اعتراض جملہ ہے۔ یعنی ایم کیو ایم کا ووٹ بینک بھی مشکوک ٹہرا؟
کسی صاحب نے لکھا کہ ایم کیو ایم کی ریلی میں صرف گٹکا پارٹی تھی۔ تو کیا گٹکا پارٹی انسان نہیں ہوتی؟ ان کی کوئی رائے یا اس رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟
۔۔۔سنی تحریک کے لوگوں سے جن کا آج کوی پرسان حال نہیں۔ پوری قیادت کو متحدہ کی حکومت کے دوران مار دیا گیا اور آج تک نا کوی قاتل پکڑا گیا نا “تحقیقات“ کا انجام سامنے آیا۔ ہر علاقے میں انکے خلاف انتقامی کاروایاں کی گیں اور سنی تحریک کے افراد کے بیانات ریکارڈ پر ہیں جس میں انھوں نے متحدہ کو بارہا اس ظلم و استبداد کا ذمہ دار ٹھرایا ۔۔۔
کراچی میں سنی تحریک بدستور کام کررہی ہے اور شاید میرے فاضل دوست بھول رہے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے ایک سنی کانفرنس بھی منعقد کی تھی۔ جس کے لئے سیکوریٹی کے انتظامات متحدہ ہی کے صوبائی وزیر داخلہ نے اپنی نگرانی میں کرے تھے۔
۔۔۔اب کوی بتلاے کہ اگرمتحدہ ڈنڈے اور بندوق پر بھروسہ نہیں کرتی تو ‘کراچی آپریشن‘ کے تمام اہم کرداروں (پولیس والوں) کے بہیمانہ قتل اور ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر اسکا کیا موقف ہے؟۔۔۔
کراچی آپریشن کے دوران خدمات انجام دینے والے کئی پولیس اہلکار کراچی میں اب بھی کام کررہے ہیں۔ دیگر ‘ایوارڈ یافتہ‘ پولیس والے پنجاب اور سرحد میں ملک کی خدمت دونوں ہاتھوں سے انجام دے رہے ہیں۔ پولیس والوں کا قتل لیاری گینگ وار کے سلسلے کی کڑی تھی۔ اسے پلیز متحدہ کے کھاتے میں نہ ڈالیں۔ لگتا ہے یا تو آپ لوگ اخبار نہیں پڑھتے یا شاید دس سال پرانے اخبار پڑھتے ہیں۔
۔۔ایم کیو ایم کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش میںپھنےسے ہوئے۔۔۔۔ “اپنے“۔۔۔۔ بھائیوںکو وطن واپس لانا ہے۔ اس میں ایم کیو ایم اب تک کیوں کامیاب نہیںہوسکی یہ ایک راز ہی رہے گا۔۔۔
یہ چیلینج ایم کیو ایم کا ہی ہے؟ کیا باقی ملک کی اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری نہیں؟ کیا وہ صرف ایم کیو ایم کے بھائی ہیں اور باقی پاکستان کے نہیں؟
ویسے اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ ایم کیو ایم ایک دلچسپ جماعت ہے اور لوگ اس کے بارے میں اپنے جی کے پھپھولے پھوڑنے کو بیقرار رہتے ہیں۔
نعمان ویسے تو اور بھی کئ راز ہیں جو راز ہی رہیںگے مثلا عظیم احمد طارق کو کیوں قتل کیا گیا؟ آفتاب شیخ الیکشن کیوں ہارے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔ باقی ملک تو بقول ایم کیو ایم کے انہیں اون ہی نہیں کرتا جبکہ ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کی بنیاد یعنی منشور میں ہی محصورین کی وطن واپسی کا مطالبہ رکھا تھا۔۔ اور ایم کیو ایم کے مسئلے پر لوگ کیوں اتنے حساس ہیں جن میں اردو بولنے والے بھی شامل ہیں تو یہ واقعی ایم کیو ایم کے سوچنے کی بات ہے اگر سب پروپیگنڈا ہے تو پھر اسکا کیا توڑ کیا گیا۔۔ ویسے میں نے الطاف حسین صاحب کی ریلی کی تقریر سنی ۔۔ برا نہ منایے گا سیاسی تقریر سے زیادہ مجھے کوئی مجلس عزا لگ رہی تھی۔۔ تھینکس ٹو یو ٹیوب
ویسے اس مسلے پر بہت بات ہو چکی ، مگر میں نے جیسا پہلے لکھا تھا کہ میں نے جو کچھ بھی لکھا اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر لکھا ، ورنہ مجھے کراچی اور اردو اسپینکنگ سے کچھ عناد نہیں ، ایم کیو ایم کی جو باتیں میرے علم میں تھیں وہ لکھیں ۔ ۔ میں نے اپنے بلاگ پر لکھا ہے کہ اب مزید اس بحث کو طول نہیں دوں گا ، ایم کیو ایم جو بھی ہے بہت جلد سامنے آ جائے گی ۔ ۔ ۔
ویسے ایک راز کی بات بتاؤں ، میرے اجداد کا تعلق بھی دہلی سے تھا ، مگر وہ پاکستان بننے سے پہلے کشمیر اور پھر پنڈی آ کر آباد ہوئے ۔ ۔ میرے والد مرحوم انڈیا جاتے رہے اپنے کچھ رشتے داروں سے ملنے کے لئے ۔ ۔ ۔ اور پھر انکے بعد یہ سللسہ بھی منقطع ہو گیا ہے ۔ ۔ جیسے اجمل انکل نے لکھا ہمیں کبھی کسی نے ہندوستانی نہیں سمجھا نہ کہا ۔ ۔ ۔ ہاں کسی زمانے میں پنڈی میں اردو اسپیکنگ والوں کو “بھیا“ کہا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مگر لوگ اسکا برا نہیں مانتے تھے ۔ ۔ خیر اللہ ہم پر اپنا رحم کرے آمین ۔ ۔ ۔ اور اگر میری کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہوں گا ۔ ۔ ۔
محترمی نعمان
دلایل وبراہین و قاطعین سے بات تو درکنار، آپ تو بنیادی زمینی حقایق کو جھٹلا رہے ہیں۔ محترم آخبارات تو متحدہ کی کارستانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ملاحظہ ہو ہیرالڈ مارچ کا شمارہ۔ سید شعیب حسن کے مضمون Mean Streets سے اقتباس
Over 100 police officers linked to the Karachi operation have been killed in the last six years
The past is not another country. At least not for those who have lived through Karachi in the 1990s and been affected by the bloody legacy of those years. Long after the 1990s police operation against the Muttahida Qaumi Movement (MQM) came to an end, officers who participated in the campaign continue to suffer. Since 2000, as many as 111 police officers linked with the operation have met an untimely end.
ایجنسیوں کا پراپیگنڈا ہے یقینا ۔
بالکل۔
ایک ماڈریٹر یعنی مذاکرہ منظم کرنے والے کی حیثیت سے ہم ایک بار پھر اس بحث کا انجام اسی نوٹ سے کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے حامیوں اور مخالفین نے اپنے اپنے دلائل دیے اور خوب دیے۔ اب فیصلھ قارئین پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس بات پر یقین کرتے ہٰیںاور کس پر نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس بحث کو سب سے زیادہ انجوائے قادیانیوں اور غیر سنیوں نے کیا ہوگا ،
جیسا کہ میں پہلے کسی پوسٹ پر لکھ چکا ہوں کہ ان میں یہ سب سے بڑی خوبی ہے جو ہم سنیوں میں نہیں پائی جاتی کہ وہ جو ہیں وہی رہتے ہیں اور ان میں صوبوں یا قومیت کا کوئی جھگڑانہیں ہے جبکہ ہم عصبیت دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتے،
ایم کیو ایم پر اس بحث کا اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن اتنا ضرور ہوا کہ بہت سے لوگوں کے اپنے اوپر چڑھائے لبادے اتر گئے،جو پاکستانیت کی بات کرتے تھے ان کا بھی ہر جو دین داری کی بات کرتے تھے انکا بھی اور حد تو یہ ہے کے سیکولرا زم کے گیت گانے والے بھی یہ لبادہ اتار پھینکنے پر مجبور ہو گئے،
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی،
عزیزانِ من ، بحث کا مرکزی نقطہ تھا ایم کیو ایم اور اس کی سیاست لیکن یہ بحث مختلف رنگ بدلتی ہوئی باہمی الزام تراشی اور طعنہ زنی کے مقام پر پہنچ گئی۔
شخصیت پرستی، اور ذاتی مفادات کے لئے اپنوں ہی کو روندنا من حیث ا لقوم ہماری فطرت بن چکا ہے۔ ایک شخص یا جما عت پر انگلی اٹھانے سے کیا فائدہ؟ حمامِ سیاست میں سب ننگے ہیں۔ حیرانی تو اس وقت ہوتی ہے جب ہم، کہ جن کو اہلِ قلم ہونے کا گمان ہے، ان مداریوں کی وکالت کرتے ہوئے ان کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ایم کیو ایم نے ضیاء کی گود میں آنکھ کھولی تو ساتھ ہی یہ بھی مت بھولئیے کہ مسلم لیگ اور فوج کا بھی ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا۔ اور اب تو جمہوریت کی چمپیئن پیپلز پارٹی بھی مشرف بہ پرویز ہونے کے لئیے آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ دین اور امہ کی دہائی دینے والے بھی 5 سال سے وزارتوں کے مزے اسی فوج کی چھتر چھایہ میں ہی لوٹ رہے ہیں۔ بس کبھی کبھی ایک آدھ حکومت مخالف بیان داغ کر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ دیتے ہیں۔ کون جانے کہ “خود ساختہ“ شریعت کے نفاذ کا اعلان کرنے والے بھی اندر سے لال بجھکڑ ہی نکلیں اور قوم کو بعد میں پتہ چلے کہ “ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ“۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ سرے محل کی قیمت اگر ڈالروں میں بھی لکھی جائے تو اس کے آگے کم از کم 7 صفر لگتے ہیں۔ اگر سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرستیں محترمہ بھارت کے حوالے نہ کرتی تو ان کی شان میں کون سا فرق آ جاتا۔ پاکستان میں جب بے روزگاری کی وجہ سے عوام خود کشیاں کر رہے تھے تو بابو جی ( نواز شریف ) بھارت میں فیکٹریاں لگانے کے لئیے مرے جا رہے تھے۔ بحریہ کے سابق سربراہ اپنی سبکدوشی کے بعد امریکہ جا بستے ہیں اور جب نیب ان کو بد عنوانی کا مرتکب پاتا ہے تو وہ اپنے اعزازات تک تیا گ دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے آدھے ممبران کے پاس بقول ان کے ذاتی گھر بھی نہیں ہیں۔ ایک مذہبی جماعت کے رہنما سے جیو ٹی وی کا نمائندہ ان کے بازو پر پہنی ہوئی رولیکس گھڑی کی قیمت دریافت کرتا ہے تو وہ حضرت نئی نویلی دلہن کی طرح سے جھینپ جاتے ہیں اور پھر جلد ہی سنبھل کر کہتے ہیں کہ یہ اصلی نہیں ہے جبکہ ٹی وی کا کیمرہ ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کر رہا ہوتا ہے۔
دوستو! کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ جب ہم کو یہ سب کچھ قبول ہے اور ہم برداشت بھی کر رہے ہیں تو پھر اگر الطاف بھائی نے کچھ ہلکے پھلکے حلقے بنا لئیے اور ان کے کارکنان نے کچھ حلق چھید بھی دئیے تو کون سی قیامت آ گئی۔ مقصد تو ایک ہی ہے نا۔ مال پانی اور اپنی ڈیش بنانا۔ صرف طریقہ واردات میں فرق ہے۔
کراچی کا الطاف ہو یا اندرون سندھ کا کوئی شاہ۔ بلوچستان کا کوئی سردار ہو یا سرحد کا خان۔ پنجاب کا کوئی چوہدری ہو یا اسلام آباد کا مولوی،سب میں ایک بات تو مشترک ہے نا کہ عوام کو بہت اچھی طرح سے بے وقوف بناتے ہیں یہ لوگ۔ اگر ہم ان کی خاطر نہیں لڑیں گے تو کیا ان کی اپنی اولاد لڑے گی۔ ارے نہیں بھئی ان کی اولاد تو اسی برطانیہ اور امریکہ میں آباد و خوشحال ہے کہ جس کو گالیاں دے کر یہ اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔
حسنی مبارک کا مصر ہو یا عمر عبدالبشیر کا سوڈان، زین العابدین کا تیونس ہو یا بوتفلیقہ کا الجزائر ، قذافی کا لیبیا ہو یا ادریس کا چاڈ ، مشرق وسطی کی بادشاہتیں ہوں یا خلیج کی امارتیں ، صدام کا عراق ہو یا عبداللہ کا اردن ، بشار الاسد کا شام ہو یا اوبا سانجو کا نائجیریا ، معاویہ طایا کا موریطانیہ ہو یا سائیکارنو کا انڈونیشیا ، مجیب کا بنگلہ دیش ہو یا پیارے قائد کا پاکستان سبھی تو اس منافقت کا شکار ہیں۔ پھر کیا بے نظیر اور کیا الطاف حسین، کیا نواز شریف اور کیا دینی محاذ۔ ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ آخر کو یہ بھی تو اوپر بیان کی گئی امت مسلمہ کا ایک حصہ ہی تو ہیں۔ کوئی ایسا ویسا قحط الرجال ہے! کون سا لیڈر ہے جس کا ضمیر زندہ ہے؟ کون ہے جو مغرب سے ڈکٹیشن نہیں لیتا؟
میں پاکستانی ہوں۔ پاکستان میرا اپنا ہے۔ کراچی ، اسلام آباد ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ سب میرے ہیں۔ مہاجر میرا بھائی ہے۔ سندھی میرا بھائی ہے۔ پنجابی،بلوچ، پختون سب میرے سنگی ہیں۔ الطاف غیر نہیں، بے نظیر بھی دختر پاکستان ہے۔ نواز شریف بھی محب ہے۔ مشرف اور شوکت بھی اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔ اگر یہ سب درست ہے تو آئیے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کیوں نہیں کرتے۔ کون ہے وہ شیطان جو ہمیں بہکاتا ہے؟ زمانہ جاہلیت کے عربوں کی طرح سے ہم میں تعصب کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ ذرا سی بات پر ہم پنجابی کو “دَلا “ اور سندھی کو “ ڈھگا “ ( بیل) کیوں بولتے ہیں؟ ذرا ڈھونڈئیے اس شیطان کو جو ہمارے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔
ساجد میرے بھائی مہر افشاں صاحبہ یا میرا ایک ہی مقصد تھا کہ دشمن ہم پر دانت لگائے بیٹھا ہے اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو غدار وطن اور دہشت گرد کہ کہ کر نفرتوں کی آبیاری کر رہے ہیں ببول بو کر گلاب حاصل نہیں ہوتے،کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے ایم کیو ایم کو فلحال اردو بولنے والوں کی حمایت حاصل ہے اور ہم اسے دہشت گرد کہ کر اردو بولنے والوں کو دہشتگرد کہ رہے ہیں،جبکہ اس کوسپورٹ کونے والوں میں بہت پڑھے لکھے اور دین دار لوگ بھی شامل ہیں،
بطور سیاسی جماعت اگر آپ کو اس سے کوئی اختلاف ہے تو آپ کو اسکا حق ہے مگر اس طرح ایک پروپگینڈہ مہم جاری رکھنا صحیح نہیں ہے،
اب آپ یہی دیکھ لیجیئے کہ اظہر الحق صاحب نے اپنے بلاگ پر ایک واقعہ لکھا جسے وہ آنکھوں دیکھا بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت سے اسکا بچہ چھین کر اسکی ٹانگیں چیر کر جیئے مہاجر کا نعرہ لگایا،سوال یہ ہے کہ وہ اس ظلم کو کہیں دبک کر دیکھتے رہے اور اسے روکنے کی کوئ کوشش نہیں کی اور اس طرح وہ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور اگر وہ ڈر کے مارے سامنے نہیں آئے تو انہوں نے بعد میں اس واقعہ کی پولس میں رپورٹ درج کیوں نہیں کروائی،اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس دور میں جب اخبارات ایم کیو ایم کے خلاف پر کو بھی کوا بنا کر پیش کر رہے تھے انہوں نے اس واقعہ کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟
اظہر صاحب سے میری گزارش ہے کہ اللہ نے انہیں دوبارہ بولنے اور لکھنے کی طاقت اس لیئے عطا فرمائی ہے کہ وہ حق کہیں ورنہ وہ بڑا بے نیاز ہے جو دیتا ہے وہ چھین بھی لیتا ہے،
باقی کم سے کم انہوں نے تو گول مول ہی صحیح ان جرائم کا کچھ اعتراف کیاجو اردو بولنے والوں کے ساتھ ہوئے ورنہ باقی لوگ تو اتنی اخلاقی جراءت بھی پیدہ نہ کرسکے،
یہ بحث تو شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہی ہوتی جارہی ہے اور اس وقت تبصروں کی تعداد سے یہ لگتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر درخواست کریںگے کہ اس بحث کو سمیٹ کر آگے بڑھا جائے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔ پچھلے چند تبصرے اگر ہم پڑہیںتو یہی معلوم ہوگا کہ پرانی باتیںہی بار بار دھرائی جارہی ہیں۔
ہم کئی دفعہ کہ چکے ہیںکہ جو کچھ ایم کیو ایم نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا وہ بھی غلط تھا اور جو بعد میںایم کیو ایم کیساتھ ایجینسیوں نے کیا وہ بھی غلط تھا مگر لگتا ہمارے مہربان اس مذمت سے خوش نہیںہیں۔ ہم پھرر ایک برا یہی دہرائیںگے اب فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا جائے۔
اس بحث کا موضوع تھا کہ ایم کیو ایم کیا اردو سپیکینگ تحریک ھے یا مھاجر تحریک ھے اس پر اتنی لمبی بحث اف۔۔۔۔
میں اس پلیٹ فارم کے زریعے سے ایک چھوٹی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اردو بولنے والے یا اردو سے محبت کرنے والے حضرات صرف کراچی میں ہی نہی بستے ۔ بلکہ پورے پاکستان میں اردو بولنے والوں اور اس سے محبت کرنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بستی ھے اور باقی صوبوں کی نسبت اس بات کا کریڈٹ صرف پنجاب کو ہی ملتا ہے کہ سکول کے ابتدائی دنوں سے ہی صرف اردو زبان میں تعلیم دی جاتی ہے
قیام پاکستان کے وقت اردو بولنے والے لوگ ھجرت کرکے صرف کراچی میں ہی نہی آئے بلکہ پنجاب بلخصوص لاھور میں خاصی تعداد سکونت پزیر ہیں
لاہور یا پنجاب میں تو سب لوگ امن اور محبت سے رہ رہے ہیں جس طرح کا ماحول پنجابی اور مھاجر کا کراچی میں پیدا کر دیا گیا ہے اس کا تو نام و نشان بھی لاھور میں نظر نہیں آتا ( اور اللہ تعالی اس آفت سے بچائے ہی رکھے)
تو آخر کیا وجہ ہے کہ پنجابی مھاجر تعصب جو ہے وہ صرف کراچی میں ہی نظر آتا ہے ( اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یہ ختم ہو جائے)
تو اس کی جو وجہ بظاحر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم ایک عام سیاسی پارٹی ہے جو کہ اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے اپنے ووٹ بینک اور شہرت کے لیے پنجابی مھاجر تعصب کوابھارنا اور ہوا دینا جیسے کام بھی کر سکتی ہے اپنے مفاد کی خاطر مارشل لا یا کسی بھی دوسری حکمراں جماعت کے ساتھ مل سکتی ہے
syda MEHER AFSHAN & NUMAN SB
میرا نام عطا
main nay app sub kay tabsray perhay hain. App sub MQM ki hamaiat main zameen asman kay qlabay milanay pa tulaay hoiay hain. App sub mujoda halat per tabseray ker rahay hain aur MQM ko baqasoor gardan rahay hain.App 1947 say MQM ki takhleeq tak kay aur us kay baad kay hakat ka jaieeza lain haqeeqat wazah ho jaiaay gi.MQM bananay kay baad hi Karachi main Lashoon ka karobar ka agaz howa. Roshinyoon ka sharh tareeqyoon main doba. App MQM kay Karachi aur Hyderabad say baher kay IMAGE ko dakhoo sub isay DeshatGurd party kehtay hain. App Punjabi ko Muttassab kehtay ho. Muhajer to Punjab main bhi bastay hain. Aur Urdu speaker tu Multan main buhat zyada hain unko kisi tassab ka samna nahi un ko kisi MQM ki zarorat nahi. Punjabi tu MQM aur Talban aur Jamia Hifsa aur LAL Masajad sub ko agencies aur Army ka Drama samjhatay hain. Jub zarorat hoiee to Rasi ko hila dya. 12 May fasadat app kay lya misal hain. Alataf Hussain Agencies ka Admy hay jab is ki zarorat na rahay gi murwa day gi. Local Muhajar ya Urdu zaban ka kaoiee chaker nahi yeh sub Jageerdaroon aur agencies ka Hakoomat kernay ka chaker hay. Kahi pa MQM bana di aur Kahi PMLQ aur kahi PPP etc. Lahaza Chharo in logon ki waqalut ko aur Pakistan ki Turqee kay laya Sucho. Is ki sub say bari misal mara apna city Faisalabad hay jisko plane Englishmen nay kya, Abad Local nay kya aur Tarqee Indian Muhajar nay di aur ab sub milker us ko aur tarqee day rahay hain. FSD asay tu 50 years main Pakistan third largest city nahi bana. kyoon keha Punjab main Local Muhajar ya Zuban ka koiee musla nahi pada kya gya.
http://www.jang.com.pk/jang/may2007-daily/17-05-2007/col2.htm
ایم کیو ایم پر کی گئی بحث میں اس کالم کہ شامل کر رہی ہوں تاکہ لوگ تصویر کا ہر رخ دیکھ سکیں اور جو ہر بات کا الزام ایم کیو ایم پر دھر دیتے ہیں وہ حقیقت حال سے واقف ہو سکیں
MHERA AFSHA KHTEN HAIN WO MQM SE TALUQ NAHI RAKTI, LEQEN MANDARJA BALA MAIN LAGTA YE HAY KE WO TU MQM ALTAF KI SECTER INCHARJ HAIN.AUR AIK HI BAAT KE MAIN NA MANO.AND FOR NAZRITI MOHAJIR THAT HE SAYING HAQIQI CAME ON RENJERS SHOULDER AND GONE SAME WAY SO I TELL U MY FRIEND THAY CAME FOR MOHAJIRS AND THAY R STILL HERE FOR MOHAJIR (AFAQ,)AFAQ BHAI SILL IN PERESON,BECOUS HE DON’T WANT DEAL AGAINTS MOHAJIRS.JUST HE CANN’T GO AGAINTS MOHAJIR.HE IS A TRUE MOHAJIR LEADER ALTAF IS SELFISH
اوپر فرزانہ باجی کے بارے میں ایک ساحب نے کچھ لکھا جن کا ریپ کیا گیا تھا مگر موصوف یہ بتانا بھول گئے کہ ریپ ہوا کیوں تھا صرف اسلیے کہ فرزانہ باجی کا بھائی ایم کیو ایم میں تھا ؟
اور محترم فرزانہ باجی ماشااللہ بہت خوش ہین اور اس ملک میں بھی نہیں ہیں وہ امریکہ میں اور کسی اور نے نہیں الطاف حسین نے ان کی شادی امریکہ میں کروائی ہے ایک بہت اچھے خاندان میں
محترم آپ جو بھی ہو یہ یاد رکھنا جب مہاجروں کا قتل عام ہوتا ہے تو یہ نہں پوچھا جاتا کہ تم ایم کیو ایم میں ہو کہ نہئں شائد آپ ایم کیو ایم بننے سے پہلے کے قتل عام بھول گئے ہیں اگر ایسا ہے تو لیاقت آباد کا شہدا اردو قبرستان آج بھی موجود ہے ایک چکر اس کا بھی لگا لیں سب یاد آ جائے گا ۔
ہی بحت بیکار ھے۔ پنجابی رات کو لسی پی کر سویا، صبح اٹھا تو پاکستان بن چکا تھا، یہ لوگ کیا جانے، پاکستان کے لیے قربانی کیا ھے۔۔۔۔۔ اسی لیے تو انھیں کراچی میں۔۔۔۔۔ ڈگا۔۔۔۔۔پینڈو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے آپ۔۔۔۔ سمجھ دار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچستان میں لوگون کہ بس سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھے جاتے یہن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارو اگر پنجابی نکلے۔۔۔۔ تو قتل بھی کیا گیا۔۔۔۔۔۔ کیا وھاں بھی الطاف ھے۔۔۔۔ یہ پنجابی کا جدی پشتی تعصب ھے۔۔۔ کسی پنجابی کے گھر بچہ پیدا ھوتا ھے تو اسے اس میں بھی الطاف یہ مھاجروں کا ھاتھ نطر آتا ھے۔۔۔۔۔
تمام قومیتیں زبانیں اور ثقافتیں رنگ ونسل پاکستان کے گلدستے کے رنگ برنگے پھول ہیں ان سب کو لڑانے کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہی نظر آتا ہے جو لڑانے والے چاہتے ہیں یوں ہمیں لڑواکر صرف پانچ فیصد لوگ پچانوے فیصد لوگوں کو غلام بنادیتے ہیں آج ملک کے حالات پر غور کریں کہ پچانوے فیصد آبادی کے کیا اختیار ہے تیل بجلی گیس کے نرخ جب چاہیں جتنے چاہیں بڑھا دیئے جاتے ہیں کوئی بول نہیں سکتا روپئے کی قدر کم ہوتی جارہی ہے کوئی بول نہیں سکتا رسی کے تنکے جب الگ کردئے جاتے ہیں تو ان میں طاقت نہیں رہتی یہی تنکے اگر دوبارہ اکھٹے کردیے جائیں تو پھر مضبوط رسی بن جاتی ہے تو آئیں ایک رسی کی صورت باہم ایک ہوجائیں اور سب مل کر ان وجوحات کو ختم کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے ہم آپس میں دست و گریباں رہے ہیں غلامی کے دور سے نکلیں اور ایک نئے دور کا آغاز کریں آزادی کا دور مساوی حقوق کادور ترقی کا دور انصاف کا دور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا دور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئیے متحد ہوکر پانچ فیصد آقائوں سے نجات حاصل کریں۔۔۔۔
اسلام علیکم!
آپ سب لوگون کے بلوگز دیکے یہ بلوگ کافی پورانہ ہوگیا ہے مگر جس موزوں پر ہے دل چھ کیچ لیکوں۔۔۔۔۔۔
MQM ak khof ki alamt smji jati ha.mara kud hyderabad sa talq ha.Urdu bolta hon or pakistan sa mohbat krta hon or ni chta ka 16 Dec 1971 dobra ho.hum logon na bi hjrt ki India sa laken MQM ki bnyad hum hyderabad ka logon ka samna pri jb Altf bi apni 50 pr Hyderabad ki galun main gum ta tha .humra mulk ki Problem ya ha ka as mulk main koi KHANDANI background wala banda Goverment main ni aya sub necha sa opr aya aap logon ki madon sa malum hota ha aap logon ki age zyda ha main ak 20 ka lrka hon but mulki halt pr nazr rakhta hon hum logon ki ak dukan ha Secter office ka qareb agar har mahena 1000RS na dan to koi na koi msla Light ka dukan ka tala ka koi na koi musla mara ak Bi han ISI main achi post pr han on ka Pass 1992 main jo kela oration howa tha os ki images han wo kun howa tha on images main zahr hota ha ka kuch larka Indian camps main training lara han wo larka bad main hyderabad main pakra bi gya.khr ab malum ni an ka ab kitna Links han India main hum to wasa bi sector office ka qareb hota han atna to andaza ha ka Altaf bi apna bando ki waja sa Pakistan ni ara on ki Part wala he kuch na krdan.baat choti krta howa khon ga MQM Pakistan pr ak dag ki tra ha jis ko jldi sa jldi dhona chya wrna ya Ink ki tra phala ga. Ab bat a jya Punjab ki dekho je kuch na kuch ha jis ki waja sa Punjab ko bra kha jata ha wrna kisi ko pagl kuta na kata ha jo ya kra.ak dafa main train main safr kra tha ak Khan sab aya or sath set pr bat gya mara samna set pr ak Punjabi bhi bhata howa tha os na nafrat sa (Punjabi main) sala harami humari kundum kha na agya wo os ko Afgani smj ra tha os na bad main apna NIC bi nekala jis main wo Pakistani tha Gundum to wo apna pason ki khata ha
mara atna he Publish howja bhot ha
مجھے نعمان صا حب یہ جواب دینا پسند کرے گے “الظاف “ نے پاکستا ن بنا ایک عظیم غلطی ہے وہ بھی انڈیا میں کیوں کہا ۔۔۔
mai nai samjhta k mqm altaf group ko pakistan say mohabat hai ager mohabat hoti tou wo baher nai rehta afaq bhai nay jailon ki shobatain bardasht ki our pakistan our karkuno ko nai chora ise lya humaray sath hain wo abi taq
یہ تحریر کافی دلچسپ ہے-تحریر کے کامنٹس تو ٹھیک نظر آ رہے ہیں مگر تحریر میرے کمپیوٹر پر واضح نہیں – الفاظ ٹوٹے پھوٹے ہوے ہیں
خیر میری رائے بھی ایم کیو ایم کے بارے میں وہی ہے جو ایک راست گوہ کی ہو سکتی ہے، میں کراچی نہں گیا مگر میرا ایک کولیگ وہاں سے تعلق رکھتا ہے
اس نے یہ تمام باتیں مجھے بتائی ک ایم کیو ایم بھتہ لیتی ہے، لوگو کی بہن بیٹیاں اغوا کروا کے ان سے اپنی مرضی کے کام لیے جاتے ہیں، قتل کروا دیے جاتے ہیں، غرض کہ ہر قسم کیغنڈہ گردی میں ایم کیو ایم ملوث ہے
پھر چیف جسٹس افتخار چودھری کے کراچی جانے پر وہاں جو کچھ ہوا وہ دیکھ کر مجھے ان سب باتوں پر یقین ہو گیا
ایک اور بات یہ ک ایم کیو ایم کے حمایتیوں سے جب بھی ایم کیو ایم کی کرپشن کے متعلق پوچھا جاتا ہے ان کے پاس ایک ہی جواب ہے ک کیا باقی سیاسی جماعتوں کے لوگ فرشتے ہیں ؟
باقی سیاست دان جو مرضی کرتے رہیں، آپ کو تو اپنے کرتوتوں کا جواب دینا چاہنے نا
میرے خیال سے ایم کیو ایم کرپشن اور غنڈہ گردی میں بھی دوسری سب جماعتوں سے بہت آگے ہے
چونکہ یہ پوسٹ ایم کیو ایم کے بارے میں ہے تو انصاف کا تقضہ یہ ہے کہ اس پر انکا موؤقف بھی واضح ہونا چاہیئے تاکہ فیصلہ کرنے والون کو آسانی رہے ،پہلے افضل صاحب نے ان کا ربط لگایا ہوا تھا لیکن اب نہیں ہے اس لیئے ان کی ویب سائٹ کا اڈریس یہ ہے،
http://www.mqm.org
Leave A Reply