بحیثیت قوم ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنی بات پر اس طرح اڑتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ہمیں ٹس سے مس نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو غلطی کا اقرار بہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیتا ہے، ٹوٹے ہوئے دلوں کو ملا دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر اس غلطی کے اقرار کے بعد انسان مزید غلطیوں سے بچ جاتا ہے۔ غلطی کا اقرار ایک ایسا ہتھیار ہے جو پتھر دل کو بھی موم کردیتا ہے۔یہ ہتھیار تمام بڑے عاملوں کے جادو ٹونوں سے بڑھ کر ہے۔  آپ اس ہتھیار کو آزما کر دیکھیں،  آپ کی گھریلو زندگی واپس اپنی ڈگر پر آجائے گی، آپ کا باس خوش ہوجائے گا، آپ کا دوست پھر سے آپ پر اعتماد کرنے لگے گا، آپ کے گاہک واپس آپ کی طرف لوٹ آئیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ غلطی آپ کی آخری غلطی ہونی چاہیے اور اس کے بعد آپ ایسی غلطی دوبارہ نہ کریں۔

انہی غلطیوں کا اعتراف نہ کرنے کی وجہ سے ہم خوار ہورہے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات درانی صاحب کو وزیر غلط بیانی کہا جارہا ہے، ہماری حکومت پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔

آپ کراچی کے موجودہ فسادات کے بعد ٹی وی کے مباحثوں پر غور کریں تو آپ کو ایک بھی سیاستدان نہیں ملے گا جس نے اقرار کیا ہو کہ ان سارے فسادات میں اس کی غلطی کا بھی عمل دخل تھا۔ یعنی اگر ایم کیو ایم اسی دن ریلی کا اعلان نہ کرتی تو فسادات نہ ہوتے، حکومت اگر چیف جسٹس کو باقی شہروں کی طرح کراچی میں بھی ہائی کورٹ بار سے خطاب کی جازت دے دیتی اور ایر پورٹ کے روٹ کو سیل نہ کرتی تو فسادات نہ ہوتے، پولیس اور رینجرز بر وقت سڑکوں پر گشت کرنا شروع کردیتی اور شہر کا کنٹرول سنبھال لیتی تو کراچی بارہ مئی کے فسادات سے بچ جاتا۔ چیف جسٹس صاحب اس روز اپنی آمد موخر کردیتے اور حزب مخالف اس روز چیف جسٹس کے استقبال کی تیاریاں ترک کردیتی تو کراچی خون میں نہ رنگا جاتا۔ ان ساری غلطیوں کا آپ اگر ان لوگوں سے اعتراف کرانے کی کوشش کریں گے تو وہ غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنے مخالفین کو ذمہ دار ٹھرائیں گے۔ یہی کچھ ٹی وی مباحثوں اور چوکوں میں لوگوں کے اجتماعات میں ہورہا ہے۔  دوسری طرف دیکھئے غلطی کے اعتراف نہ کرنے کی وجہ سے کراچی اب بھی خوف کےسائے تلے دبا ہوا ہے۔

جب ہم غلطی کا اعتراف ہی نہیں کریں گے تو پھر اپنے آپ کا سدھارنے میں ناکام ہوجائیں گے۔ یہی ہمارا المیہ ہے اور یہی ہماری ناکامی کی سب سے بڑي وجہ ہے۔ موجووہ کرائسسز کی ابتدا بھی غلطی کے نہ ماننے سے ہوئی ہے۔ پاکستانی عوام اور دانشوروں نے حکومت کو سو بار یہ مشورہ دیا کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف بھیجے جانے والے ریفرنس کو اپنی غلطی سمجھ کر واپس لے لے مگر حکومت نے نہ صرف کسی کی بات نہیں مانی بلکہ سنا ہے مزید ریفرنس دائر کرنے کی تیاریاں کررہی ہے یعنی غلطی پر غلطی کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔

گلوکار ابرارالحق کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے جو ہمارے مزاج کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ابرارالحق کی تازہ البم میں ایک گانا پروین کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔ اس گانے کی ریلیز کے بعد ہی اخباروں میں خبریں چھپنا شروع ہوگئی تھیں کہ پروین نام کی لڑکیوں کی زندگی اس گانے اجیرن کردی ہے مگر ابرار الحق جیسا پڑھا لکھا اور درد دل رکھنے والا آدمی ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں ایک پروین نامی لڑکی کا خط شائع کیا اور ابرارالحق سے درخواست کی کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور آئندہ ایسی غلطی کو نہ دہرائیں۔ ابرارالحق سپریم کورٹ کے از خود ایکشن لینے کے بعد اپنے بیان میں اس غلطی سے صاف مکر گئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے اپنے گانے میں لفظ پروین نہیں بلکہ پرمیم استعمال کیا ہے۔ اب کوئی عقل کا اندھا بھی ان کا گانا سن کر ان کی اس دلیل کو نہیں مانے گا۔ کیونکہ پروین کا لفظ ہی نمیکن اور مسکین کے لفظوں کے ساتھ فٹ ہوتا ہے پرمیم نہیں۔ بلکہ پرمیم لفظ تو اردو کی ڈکشنری میں ہی نہیں ۔ ابرارالحق اس سے پہلے بھی یہی غلطی اپنے ایک گانے میں پنجابن کے الفاظ استعمال کرکے کرچکے ہیں جس کو بعد میں انہوں نے مجاجن سے بدل دیا۔

اس دفعہ دیکھيں سپریم کورٹ ابرارالحق کی ہٹ دھرمی پر کیا ایکشن لیتی ہے۔ ہماری نظر میں سپریم کورٹ کو ابرارالحق کو مجرم قرار دینے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہئے۔ ہم تجویز کریں گے کہ سزا کے طور پر ابرارالحق کو یہ کہا جائے کہ وہ اپنی البم کی کمائی کی ساری رقم ان پروینوں کو دے دے جن کو اس گانے کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔

ترقی یافتہ قوموں اور پاکستانیوں میں یہی سب سے بڑا فرق ہے۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہیں اور اگر غلطی کرنے والے سزا دینے کیساتھ ساتھ اپنے سسٹم کو اس طرح درست کرتی ہیں کہ دوبارہ اس طرح کی غلطی نہ ہونے پائے۔ مگر ہم پاکستانی جب اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کریں گے تو پھر اپنے آپ کو غلطیوں سے بچائیں گے کیسے۔