جنرل ایوب کیخلاف عوامی تحریک کے ہم گواہ ہیں اور ہمیں یاد ہے جب دوسرے سکولوں سے طلبا ہمارے سکول کے احاطے میں زبردستی گھس آئے اور سکول کی انتظامیہ کو سکول بند کرنا پڑا۔ ہم سب لوگ جلوس کی شکل میں جی ٹی روڈ پر مارچ کرتے اور نعرے لگاتے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اس تحریک میں ایک ہی نعرہ ہر طرف گونج رہا تھا “ایوبا چھاچھی ہائے ہائے”۔

اس کامیاب تحریک کی بدولت جنرل ایوب کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا مگر اپنی بدنیتی یا مجبوری کی بنا پر وہ اقتدار ایک اور شرابی جنرل کے سپرد کرگیا جس نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جنرل یحیٰ کے منعقد کردہ انتخابات میں طالبعلموں نے اسی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس طرح انہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ بچے کھچے پاکستان میں جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اس نے طالبعلموں اور مزدوروں کو بہت سارے حقوق دے دیے۔ بھٹو دور میں سٹوڈنٹ یونین متحرک ہوئیں اور انہوں نے بہت سارے قومی لیڈر پیدا کئے جن کا سیاسی خاندانوں سے تعلق نہیں تھا بلکہ وہ عوامی سطح سے ابھرے۔  مشہور لیڈر جو آج کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ان میں جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، لیاقت بلوچ، شیخ رشید نمایاں ہیں۔

جنرل ضیا کو معلوم تھا کہ بھٹو کی طاقت طالبعلم اور مزدور ہیں، اسلیے اس نے سب سے پہلے طالبعلم تنظیموں پر پابندی لگا دی۔ جنرل ضیا کے دور میں بھی یہ طالبعلم ہی تھے جنہوں نے بھٹو کی نظربندی اور پھر پھانسی پر سب سے زیادہ احتجاج کیا۔ طلبا کے پرتشدد احتجاج کے خوف کی وجہ سے جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی لگانے سے قبل تمام تعلیم ادارے بند کردیے اور ہاسٹل خالی کروالیے۔ ہمیں یاد ہےجب ٹیکسلہ یونیورسٹی کا ہاسٹل خالی کرانے کیلیے پولیس پہنچی تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

مسلم لیگ نون کے قومی رہنما احسن اقبال جو اپنی ماں آپا نثار فاطمہ کی چھتری تلے اسلامی جمیعت طلبا کے پلیٹ فارم سے سیاست میں آئے اسی دور کی پیداوار ہیں۔ ہمیں یاد ہے جب انہیں لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی میں الیکشن لڑنے کیلیے ٹیکسلہ سے لاہور بھجوایا گیاا۔

جنرل ضیا کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف اور بینظیر کی عوامی حکومتوں نے سٹوڈنٹ یونینز مکمل طور پر بحال نہیں کیں۔ دراصل یہ حکومتیں اپنی کارکردگی کی بنا پر رائے عامہ کو کھلی چھٹی دینے کا رسک نہ لے سکیں اور ان کے سر پر بھی ہمیشہ طلبا تنظیموں کے سابقہ کامیاب احتجاج کا خوف سوار رہا۔ اس دور میں صرف جماعت اسلامی کے لیڈر امیر العظیم ابھر کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی بھی طالبعلم لیڈر تھے اور وہیں سے وہ قومی دھارے میں داخل ہوئے۔ دراصل تعلیمی اداروں میں اسلامی جماعت کی طلبا تنظیم جمعیت طلبا ایک منظم طالبعلم جماعت رہی ہے جس کا اب تک توڑ ایم کیو ایم کی متحدہ طلبا کے سوا کوئی بھی نہیں کرسکا۔ چونکہ جماعت اسلامی جنرل ضیا کے دور کے بعد زیادہ تر حزب اختلاف میں رہی ہے اور اس کے زور کو کم کرنے کیلیے حکومتوں نے تعلیمی اداروں کی یونینز پر پابندی لگانے میں ہی اپنی آفیت سمجھی ہے۔ اگر جمعیت طلبا کے مقابلے میں حکومتی طلبا تنظیمیں بھی اسی طرح منظم ہوتیں تو شاید طلبا تنظیوں پر پابندی نہ لگتی۔ موجودہ حکومت کے روشن خیالی کے ایجینڈے کے راستے میں جمیعت طلبا ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسلیے اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ طلبا تنطیموں پر پابندی برقرار رکھے۔

جنرل ضیا نے طالبعلم تنظیموں پر جس پابندی کی بنیاد رکھی وہ آج تک جاری ہے اور حکومتیں جنرل ضیا کی طرح اب تک طلبا کے احتجاج سے خوف زدہ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیا کے بعد ہر حکومت نے طلبا تنظیموں کویہ کہ کر پنپنے نہیں دیا کہ اس طرح تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ حالانکہ بھٹو دور میں طلبا تنظیموں کی موجودگی کے باوجود طلبا نے گریجوایشن کی اور عملی زندگی میں کامیاب رہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے عمل دخل کی وجہ سے طلبا کے تعلیمی ماحول پر اثر انداز ہونے کے جواز نے اب عوامی سیاست میں عام لوگوں کے داخلے کے سامنے بند باندھ رکھا ہے اور عوام کی اکثریت اس طلسمی جواز کی حامی ہے جبکہ ہم نہیں۔

 ہم تو اس حق میں ہیں کہ طلبا کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ وہ قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرسکیں اور ان میں سیاسی شعور اجاگر ہو۔ وہ قومی سطح پر ہونے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکیں اور جس طرح وکلا نے عدالیہ کو آزاد کرانے کی تحریک شروع کی ہے طلبا بھی اسی طرح اپنی قومی آزادی کی خاطر میدان سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔ پچھلے دنوں عوامی لیڈر شیخ رشید نے بھی یہی گلہ کیا تھا کہ سیاست خاص خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور عوامی سطح سے قیادت ابھر کر سامنے نہیں آرہی۔ مگر انہوں نے اس کی وجوہات پر بات نہیں کی کیونکہ اس طرح انہیں طلبا تنظیموں کے حق میں بیان دینا پڑتا جو ان کے فوجی لیڈر کی مرضی کے خلاف ہوتا۔

جس الزام کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے یعنی طلبا تنظیموں کی اجازت سے تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے اس کا توڑ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسکیلیے طلبا تنظیموں کے اصول و ضوابط وضح کیے جاسکتے ہیں مگر طلبا تنظیموں پر پابندی کیلیے یہ کمزور دلیل ہے۔ ہم تو تعلیمی اداروں میں سیاسی جماعتوں کے عمل دخل کے مقابلے میں عوامی لیڈر شپ کی پیداوار کے اس نظام کو اولیت دیں گے اور آنے والی حکومتوں سے مطالبہ کریں گے کہ وہ طلبا تنظیموں کو بحال کرے تاکہ سیاست پر خاص خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہو۔جب طلبا میں سیاسی شعور بیدار ہوگا تو نوجوان نسل میں “سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے کا سب سے زیادہ اثر ہوگا اور جب ملک کی باگ دوڑ نوجوان نسل سنبھالے گی تو ملک سے کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے قارئین کی اکثریت سیاسی جماعتوں کے تعلیمی اداروں میں عمل دخل کی وجہ سے اس حق میں نہیں ہے کہ طلبا تنظیموں کو بحال کیا جائے مگر ان سے گزارش ہے کہ وہ عوامی لیڈرشپ کے اس طریقے کا نعم البدل بھی پیش کریں اور بتائیں کہ ہمیں عوامی لیڈر کس طرح میسر آسکتے ہیں۔