اگر کوئی غریب جرم کرے تو اس کو جلد سزا دلوانے کیلیے حکومت اس کا کیس دہشت گردی کی عدالت میں لے جاتی ہے چاہے اس کے جرم کا تعلق دہشت گردی سے ہو یا نہ ہو۔ مگر امیر کے جرم پر پولیس بھی ایکشن نہیں لیتی اور سپریم کوٹ کو سوموٹو ایکشن لینا پڑتا ہے وہ وبھی میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد۔
ضمنی انتخابات میں پی پی پی کی امیدوار وحید شاہ نے انتخابی عملے کی ایک خاتون پر تشدد کیا اور سارا منظر ویڈیو کیمرے پر ریکارڈ ہو گیا۔ اس ظلم کا نہ پولیس نے نوٹس لیا اور نہ ہی عوام میں سے کوئی بولا کیونکہ وحیدہ شاہ موجودہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ وہی عوام ہے جو چور کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر وہیں سزا دے دیتی ہے مگر امیر کے آگے بھیگی بلی بن جاتی ہے اور اپنے لوگوں پر ظلم ہوتا بے بسی سے دیکھتی رہتی ہے۔
قانون کے مطابق سرکاری عملے کے کام میں رکاوٹ پر کم از کم ایک سال کی سزا ہوتی ہے۔ امید ہے کسی کو تھپڑ مارنے پر بھی قانون میں ضرور سزا ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ ہنگامی بنیادوں پر اس مقدمے پر ویسے ہی ایکشن لے گی جس طرح اس نے سیالکوٹ میں عوام کے ہاتھوں دو لڑکوں کے مارے جانے کا ایکشن لیا تھا اور دہشت گردی کی عدالت نے مجرموں کو ایک سال کے اندر سزا دے دی تھی۔
یہ مقدمہ سیدھا سادہ ہے اور ویڈیو کی موجودگی میں عدالت کو فیصلہ کرنے میں ایک دن سے زیادہ نہیں لگانا چاہیے۔ مگر ایسا ہو گا نہیں کیونکہ ہمارا قانون اس مقدمے کو لٹکانے میں ایسی مدد کرے گا کہ چند دن بعد لوگ اس حادثے کو بھول جائیں گے اور پولیس دونوں فریقین میں صلح کرا کے مقدمہ خارج کر دے گی۔
2 users commented in " وحیدہ شاہ کا انتخابی عملے پر تشدد اور ہمارا انتظامی اور عدالتی نظام "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہاں ہر حلقے میں کسی نہ کسی پارٹی کی لاٹھی ہوتی ہے اسی کی بھینس بھی ہوتی ہے۔ اور یہ معاملہ سب جماعتوں کے ساتھ ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کے عملے کو احترام اور تحفظ مل گیا تو اگلے الیکشن میں وہ اپنی بھینس کو مرضی سے کیسے ہانک سکیں گے۔
اصل معاملہ الیکشن کمیشن کا ہے جس کی افسر پر دوران ڈیوٹی تشدد کیا گیا ۔ یہ پِٹنے والی ضاتون کا ذاتی معاملہ نہیں کہ وہ معاف کر دے اور چھُٹی ۔ سزا لازم ہے اور سزا دینا الیکشن کا کام ہے
Leave A Reply