ن لیگ نے پچھلے ہفتے شوکت خانم ہسپتال کی سالانہ رپورٹ سے ایک گھاٹے میں جانے والی سرمایہ کاری کی مدد سے عمران خان کیخلاف پریس کانفرنس کر ڈالی اور کوشش کی کہ عمران خان کی خبر لی جائے کیونکہ عمران کافی عرصے سے میاں فیملی کی منی لانڈرنگ اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ میاں فیملی نے براہ راست تنقید کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے لیڈران کو یہ ذمہ داری سونپی اور پھر شوکت خانم ہسپتال کو سیاست میں گھسیٹنے کے فائدے اور نقصان کی بحث چل پڑی۔
اب اس بحث کا کسی سیاسی پارٹی کو فائدہ یا نقصان ہو نہ ہو شوکت خانم ہسپتال کو نقصان ہونے کا ضرور خدشہ بڑھ گیا ہے۔
ابھی ہم نے تکرار پروگرام کی ویڈیو دیکھی اس میں ایک صاحب سے اینکر پرسن نے پوچھا کیا عمران خان کو شوکت خانم پسپتال کو اپنی سیاسیت میں استعمال کرنا چاہیے تو ان صاحب نے بہت خوبصورت جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا ہاں عمران خان کو اپنے اس کارنامے کا ذکر کرنے کا ایسے ہی حق حاصل ہے جیسے ن لیگ موٹروے کا ذکر کرتی ہے۔
ہمارے خیال میں تو ن لیگ کے اس الزام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عمران خان نے کوئی کرپشن کی ہے بلکہ عمران خان کے بقول بیرون ملک انویسٹمنٹ کو ہسپتال نے چھپایا نہیں ہے اور نہ ہی اس سرمایہ کاری کا عمران خان کو کوئی فائدہ ہوا ہے۔ سرمایہ کاری نیک نیتی سے کی گئی اور بقول شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ کے وہ اس سرمایہ کاری سے اپنی رقم واپس لینے کا سوچ رہے ہیں۔
لب لباب یہی ہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے زیادہ وقت ان منصوبوں کی تشہیر پر خرچ کرنا چاہیے جو وہ حکمران بن کر ملک کی بہتری کیلیے شروع کریں گے۔ ملک کا مسئلہ یہ نہیں کہ شوکت خانم ہسپتال کیلیے عطیات کی رقم کی سرمایہ کاری نفعے میں جا رہی ہے یا نقصان میں بلکہ ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ اگلی حکومت بنانے والی سیاسی جماعت لوڈشیڈنگ، کرپشن، بلوچستان کی بگڑتی صورتحال، دہشت گردی اور ملکی قرضوں میں اضافے کے مسائل کیسے حل کرے گی؟