اے پی سی کے اختتامیہ اعلامیے میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب اعلامیے کے دوران مختلف پارٹیوں نے اپنے جزوی اعتراضات کرنے شروع کردیے اور نواز شریف کو اعلامیہ پڑھتے ہوئے ٹوکنا شروع کردیا۔ اس کامطلب ہے کہ اعلامیہ بند کمرے میں تمام جماعتوں کے اجلاس میں مشترکہ طور پر تیار نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کی منظوری لی گئ تھی۔ اے پی سی کے منتظمین نے کانفرنس کا انتظام بہت اچھے طریقے سے کیا مگر اختتامی اعلامیے میں جو صورتحال براہ راست ٹی وی پر دکھائی گئی اس نے لوگوں کو مایوس کیا۔ جونہی اعلامیہ پڑھنے کو دوران کوئی پارٹي اعتراض کرتی اور اس پر اتحاد نہ ہوپاتا تب پیچھے سے آواز آتی “اگے چلو، میاں صاحب اگے چلو” اور اس طرح اس “اگے چلو” نے جو بدمذگی پیدا کی اس نے اے پی سی کے مقصد کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اتنی زیادہ پارٹیوں کو ایک ایجنڈے پر متفق کرنے کیلیے دو دن کا عرصہ بہت کم تھا۔ یہ کانفرنس کم از کم ایک ہفتہ جاری رہنی چاہیے تھی تاکہ اعلامیے میں صرف مطالبات پیش نہ کیے جاتے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کا بھی پلان تیار کیا جاتا۔

“اگے چلو’ اگے چلو” کی تکرار نے میاں نواز شریف کی انتظامی صلاحیتوں میں جھول کر واضح کردیا۔ بہتر ہوتا اگر میاں صاحب اختتامی اعلامیے میں صرف انہی نقاط کا اعلان کرتے جن پر تمام پارٹیاں متفق تھیں اور اختلافی نقاط کو مستقبل کیلیے رکھ چھوڑتے۔

عمران خان کا رویہ اس کانفرنس میں کافی جارحانہ رہا اور وہ بھی صرف زبانی کلامی اعلانات پر خوش نظر نہیں آئے۔ تجزیہ نگار جو مبصر کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شریک تھے نے بھی لمبے چوڑے بیانات کی بجائے عملی سیاسی اقدامات پر زور دیا۔

اس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش بھی کی مگر انہیں کوئی خاص پزیرائی نہیں ہوئی۔ ایک جب مولانا نے ہوا کے رخ کی پرواہ کئے بغیر چیف جسٹس پر تنقید شروع کردی اور کانفرنس میں موجود تمام شرکا کو حیران کردیا۔ آجر میں مولانا نے چیف جسٹس کی مکمل حمایت کی بجائے جزوی حمایت پر زور دیا۔ دوسرے مولانا نے لال مسجد والوں کے ذکر پر نواز شریف کو بھی معاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا “ہم نے لال مسجد والوں کو سمجھایا اور انہیں نواز شریف صاحب کے باہر جانے کی بھی مثال دی”۔ یہ نواز شریف صاحب کی مجبوری یا بڑا پن تھا انہوں نے مولانا کی اس بات کو انا کا مسئلہ نہ بنایا۔ پتہ نہیں مولانا صاحب اس طرح کی اختلافی باتوں سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

جن نکات پر اتفاق رائے پایا گیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔  یہ الگ بات ہےکہ یہ نکات ایک خیالی پلاؤ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں کیونکہ کسی بھی پارٹی کا ان نکات پر تحریک چلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

1۔ جی ایچ کیو کی اسلام آباد ميں تعمیر بند کی جائے [فوج کے اسقدر پاکستان کی سیاست میں ملوث ہونے کے بعد اس تعمیر کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا]

2. پیمرا آرڈینیس کی ترمیم کو مسترد کردیا گیا [یاد رہے حکومت نے اس ترمیم کو واپس لینے کے اعلان کے باوجود واپس نہیں لیا اور میڈیا بھی اسے من وعن قبول کرچکا ہے] 

3. قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا [پاکستانی فوج اور امریکہ کے مشترکہ دہشت گردی کے منصوبے کو فی الحال ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے]

4. سیاست میں فوج کی مداخلت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام سویلین اداروں سے فوج کو فوری طور پر واپس بلایا جائے اور خفیہ ایجنسوں کے ’پولیٹکل سیل‘ ختم کیئے جائیں۔ [یہ ناممکن ہے]

5. محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی واپسی میں کسی قسم کی رکاوٹ  یا انہیں گرفتار کرنے کی مزاحمت کی جائے گی [ یہ بھی ناممکن ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس نقطے کو عملی جامہ پہنا سکیں ]

6۔ اغوا شدہ لوگوں اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے [کوئی پارٹی اس نقطے پر بھی تحریک چلانے کے موڈ میں نہ پہلے تھی اور نہ آئندہ ہو گی]

7. جنرل مشرف کو دوبارہ انہی اسمبلیوں سے منتخب ہونے کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔

8.  ایم کیو ایم کیساتھ کوئی بھی پارٹی اتحاد نہیں کرے گی۔

9۔ جنرل مشرف حکومت سے الگ ہوجائیں اور نگران حکومت کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں۔

10. اگلے انتخابات سے قبل بلدیاتی ادارے توڑ دیے جائیں

11. بارہ مئی کے واقعات کی ذمہ دار ایم کیو ایم اور حکومت ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حیسن کیخلاف برطانوی حکومت کو مشترکہ شکایت ارسال کی جائے۔

12۔ اگر انتخابات میں دھاندلی کی گئ جیسا کہ امکان ہے تو اس کیخلاف مشترکہ تحریک چلائی جائے گی۔

جن نقاط پر اے پی سی کی پارٹیاں متفق نہ ہوسکیں وہ تھے چیف جسٹس کی بحالی [مولانا فضل الرحمان کی جزوی حمایت}، سترہویں ترمیم کی مکمل منسوخی [پی پی پی کی مخالفت] اور جنرل مشرف کے انہی اسمبلیوں سے دوبارہ انتخاب پر اسمبلیوں سے مشترکہ استعفے [ فضل الرحمان اور پی پی پی کی مخالفت] اور انہی نقاط پر “اگے چلو، اگے چلو” کا تکرار زیادہ سننے کو ملا۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی انارکی میں یہ کانفرنس ایک امید کی کرن ثابت ہوئی۔ کم از کم تمام سیاسی پارٹیاں ملکر تو بیٹھیں اور انہوں نے پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات پر اپنے اپنے خیالات سے ایک دوسرے کو آگاہ تو کیا۔ ایک لمبے عرصے کے بعد بہت بڑی تعداد میں سیاسی جماعتیں ایک جگہ اکٹھی ہوئیں۔  حکومتی ذرائع نے حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کے اجلاس کو سنڈے بازار سے تشبیہ دی اور اسے کروڑوں روپے کا ضیاع قرار دیا۔ حکومت مانے یا نہ مانے اے پی سی نے اس کو ایک انجانے خوف میں ضرور مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ حالات میں جنرل مشرف کو انہی اسمبلیوں سے دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔

اے پی سی سے کو دیئے گئے مشوروں پر مشتمل ہماری تحریر آل پارٹیزکانفرنس [اے پی سی] پڑھنے کیلیے اس لنک پر جائیے۔