چھ ستمبر کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی قبروں پر آج بھی پھول چڑھائے جا رہے ہیں اور فاتح خوانی کی جا رہی ہے مگر ان جوانوں کی شہادت کو کسی نے یاد نہیں کیا جو پچھلے بارہ سال سے دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے۔ نہ کسی کو نشان حیدر ملا اور نہ ہی کسی کو ستائش کا سرٹیفکیٹ۔ کیوں، اسلیے کہ وہ اپنوں کیخلاف ہی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
پچھلے اڑتالیس سالوں میں فوج بہت بدل چکی ہے۔ شراب تو پہلے بھی فوجی آفیسروں میں عام تھی مگر اب تو کچی شراب ہر جگہ پی جانے لگی ہے۔ فی زمانہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی فوج اسلامی فوج ہے ہی نہیں۔ جس کے آفیسر شرابی ہوں اور عام فوجی نمازی ہو، جس کا بجٹ زیربحث نہ لایا جا سکے، جس نے ملکی قیادت پر کئی بار شب خون مارا ہو، جس نے پاکستان دو لخت کیا ہو اسے یوم دفاع منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
وہ فوج جس کام کام سرحدوں کی حفاظت ہے اس نے ملک میں بڑے بڑے کاروبار شروع کر رکھے ہیں۔ فوج جائیداد کے کاروبار میں بے تحاشہ منافع کما رہی ہے۔ تعلیم پر قبضہ کرتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی سربراہ جنرل کیانی نے بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے بلوچستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساتھ یہ جھوٹ بھی بولا ہے کہ فوج کا ایک بھی سپاہی بلوچستان میں نہیں لڑ رہا بلکہ فوجی بیرکوں میں بیٹھے ہیں۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بلوچستان پچھلے کئی سالوں سے جنگ کی حالت میں ہے اور سینکڑوں لوگ اب تک مارے اور غائب کئے جا چکے ہیں۔
ہمارے خیال میں فوج میں بہت بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس کا ٹریننگ کا پرانا طریقہ بدلنا پڑے گا۔ اسے دنیاوی کاروبار سے علیحدہ کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وقت پڑنے پر فوج پاکستانیوں کو 1971 کی جنگ سے بھی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی ہے۔