کرکٹ ٹیم کے نئے کوچ کی تلاش کے متعلق پی سی بی کے ایک ذمہ دار نے کہا ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ ٹيم کا کوچ مقامی ہو مگر انہیں کوئی بھی مقامی امیدوار ایسا نظر نہیں آیا جو کوچ کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

موجودہ حکومت کے آٹھ سالہ دور میں یہ بھرپور کوشش رہی ہے کہ مقامی ٹیلنٹ کو بین الاقوامی ٹيلنٹ کے آگے زیرو ثابت کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل مشرف نے اگر انڈیا کا پاکستان سے موازنہ کیا تو ہمیشہ یہی کہا کہ پاکستان انڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ حکومتی ارکان کا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کا ثبوت ہے کہ نو گیارہ کے بعد میں پاکستان نے جو بھی معاہدے دوسرے ملکوں کیساتھ کیے وہ اپنی ڈیمانڈز کیمطابق نہیں کئے بلکہ دوسرے ملکوں کی شرائط پر بناں چوں چراں کیے۔

ہماری حکومت چونکہ فوجی ہے اور فوجی ڈسپلن اور صفائی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینٹ کے علاقے باقی پاکستان سے زیادہ صاف ستھرے اور ترتیب میں نظر آتے ہیں۔ کینٹ کے علاقے کا نکاسئی آب کا نظام ہو یا گلیوں سڑکوں کا، کینٹ کی سیر کرنے والا دیکھ کر ایک بار ضرور سوچتا ہے کہ فوجی خود تو ڈسپلن اور صفائی رکھتے ہیں لیکن جب حکومت کرتے ہیں توپھر کینٹ کے علاقے پر لاگو ڈسپلن اور صفائی ملک پر کیوں لاگو نہیں کرتے۔ اگر کینٹ کے علاقے کو وہ صاف رکھ سکتے ہیں تو پھر باقی پاکستان کو کیوں نہیں۔ کیا یہ صرف فوج کے مقابلے میں عوام کو احساس کمتری ميں مبتلا رکھنے کے منصوبے کا ایک حصہ ہوتا ہے؟۔

ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے کسی کی صلاحیت پرکھنے کا معیار اس کے پیشے میں مہارت نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنی اچھی انگریزی بولتا ہے۔ ہم بھی تب تک اسی احساس کمتری کا شکار رہے جب تک باہر نکل کر انگریزی بولنے والے معاشرے میں کچہ عرصہ نہیں گزار لیا۔ گوروں میں رہ کر جب دیکھا کہ انگریزی بولنے والے اگر ایک جگہ پر افسر ہیں تو دوسری جگہ پر مزدور بھی ہیں۔ انگریزی بولنے والے کوڑا کرکٹ بھی اٹھا رہے ہیں، باتھ روم بھی صاف کررہے ہیں اور سڑکوں پر تارکول بھی بچھا رہے ہیں۔  ہم نے عام گوروں کو کام کے دوران جب فضول قسم کی غلطیاں کرتے دیکھا تو پتہ چلا کہ انگریزی فر فر بولنا کوئي بڑی خوبی نہیں ہے اور فر فر انگریزی بولنے والا ہی پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔ جب ہم جیسا ایک عام سا آدمی چند دنوں میں ہی یہ بات سمجھ گیا تو پھر ہماری حکومت کے تجربہ کار سیاستدان اور زبردستی کے مسلط کئے گئے عہدیدار اب تک یہ بات کیوں نہیں سمجھ  سکے اور اس احساس کمتری سے کیوں باہر نہیں نکل رہے۔

احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا منصوبہ اس وقت مزید آشکارا ہو گیا جب مقامی ٹیلنٹ کی بجائے ایک آسٹریلوی سابق فاسٹ باؤلر جیف لاسن کو کرکٹ ٹيم کا کوچ چن لیا گیا۔ فوجی حکومت کے دور میں بین الاقوامی کوچ رکھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی گئ کہ مقامی کوچ ایک اچھا منتظم نہیں ہوتا اور وہ کرکٹ ٹیم میں ڈسپلن قائم رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ لیکن دوسری طرف پی سی بی نے کبھی کوشش نہیں کی کہ مقامی ٹیلنٹ کو بین الاقوامی معیار پر لانے کیلیے اس کی مناسب تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ اگر پی سی بی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوتی تو وہ مقامی ٹيلنٹ کو باب وولمر کیساتھ کام کرنے کا موقع دیتی اور آخر میں مقامی اسسٹنٹ کوچ تجربہ حاصل کرکے ایک دن کوچ کی ذمہ داریاں سنمبھال لیتا۔

پچھلے دس سال کے عرصے کو چھوڑ کر ہمیشہ مقامی کوچ نے ہی کرکٹ ٹيم کو کامیابیاں دلائی ہیں۔ اعداد و شمار کا اگر حساب لگایا جائے تو بین الاقوامی کوچ کی کارکردگی مقامی کوچ کے مقابلے میں کوئی خاص اچھی نہیں رہی۔ لیکن اس کے باوجود ہم لوگ احساس کمتری ميں اس قدر مبتلا ہوچکے ہیں کہ پہلے تو صرف امپورٹڈ مال کو اچھا سمجھا کرتے تھے اب امپورٹڈ سروسز کو بھی مقامی سروسز پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ مانا کہ دوسرے ملکوں کی ٹيمیں بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہیں مگر ان کے بھی اعداد و شمار متاثر کن نہیں ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم بھی زمانے کی ہوا کا شکار ہوجائیں۔

اگر یہی چلن رہے تو ایک دن پی سی بی کی اتنظامیہ بھی اپنے آپ کو بین الاقوامی ٹيلنٹ کے مقابلے میں نااہل سمجھنے لگے گی اور وہ وقت دور نہیں جب پی سی بی کا صدر بھی امپورٹڈ ہو گا اور یہ سلسلہ اگر مزید آگے بڑھا تو صدر پاکستان بھی اپنی دوہری شہیریت والی کابینہ کی طرح امپورٹ ہونے لگے گا۔ اسلیے پی سی بی سمیت تمام اتنظامیہ کیلیے یہ لمحہ فکریہ ہے اور انہیں اس احساس کمتری کے تدارک کیلیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کردینی چاہئے۔

امپورٹڈ کوچ سے گلو خلاصی کا حل بہت آسان ہے۔ آپ جتنی تنخواہ جیف لاسن کو چار سال میں دیں گے اسی رقم میں آپ کئی مقامی امیدواروں کو کوچ کی تربیت کیلیے باہر بھیج سکتے ہیں۔

 آپ اسسٹنٹ کوچ اپنا آدمی مقرر کریں اور اسے کہ دیں کے امپورٹڈ کوچ کیساتھ رہ کر وہ تجربہ حاصل کرلے اور ایک خاص عرصے کے بعد اسے ٹیم کا کوچ مقرر کرنے کا وعدہ کرلیں۔

 آپ ملک میں کوچنگ ٹریننگ سنٹر بھی کھول سکتے ہیں جس میں باہر کے تجربہ کار انسٹرکٹرز کو بلا کر پاکستانیوں کی ٹریننگ کرسکتے ہیں۔ اس طرح جو لوگ اس ٹریننگ سنٹر سے فارغ ہوں انہیں آپ علاقائی یا محکموں کی کرکٹ ٹیموں کے کوچ مقرر کردیں اور ایک خاص تجربے کے بعد وہ قومی ٹيم کی کوچنگ کیلیے تیار ہو جائیں گے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر پاکستانی کھلاڑی بین الاقوامی معیار کی کرکٹ کھیل سکتے ہیں تو پھر پاکستانی کرکٹ ٹيم کی کوچنگ کیلیے مناسب پاکستانی کی تلاش میں دشواری پیش کیوں آتی ہے۔ اگر ہم نے آج قومی افتخار کی طرف دھیان نہ دیا اور اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی معیار سے کمتر سمجھتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب کھلاڑی بھی امپورٹ کیے جانے لگیں گے۔ ہمیں احساس کمتری سے باہر نکلنا ہوگا اور صرف یہی ایک طریقہ ہے آج کی گلوبل ورلڈ میں زندہ رہنے کا۔ ۔ اگر ہم اسی طرح احساس کمتری کا شکار رہے تو پھر ایک مشہور قومی نغمے کے عہد کیمطابق جس میں کہا گیا ہے کہ “چھو لیں گے آسماں”  ہم کبھی بھی آسماں کو چھو نہیں سکیں گے۔