آج سے ملک ميں ایمرجنسی لگانے کی افواہیں گردش کررہی ہیں اور ابھی تک ایوان صدر اس بار ے میں خاموش ہے۔ وفاقی وزراء ایک طرف یہ کہ رہے ہیں کہ ایمرجنسی کے بارے میں بات ہوئی ہے تو دوسری طرف ایمرجنسی کے نفاذ کی تردید کر رہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ ایمرجنسی کے آرڈر پر صدر نے دستخط کردیے ہیں۔ کچھ ذرائع یہ بھی کہ رہے ہیں کہ پیر کے روز قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی جائے گی۔

ایمر جنسی کے سیاسی تین جواز پیش کیے جارہے ہیں۔ ایک سپریم کورٹ کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات، دوسرے نواز شریف اور شہباز شریف کی واپسی کیلیے سپریم کورٹ میں درخواست اورتیسرے  قاضی حسین احمد کی وردی اور صدارت کو علیحدہ کرنے کی سپریم کورٹ میں درخواست۔

 لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے ایمرجنسی لگائی تو اس کی سرکاری وجوہات یہ ہوں گی۔ امریکی صدارتی امیدواروں کی طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کے بیانات، شمالی علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ملک میں قانون کے نفاذ کی بگڑتی ہوئی حالت۔

ہمارے خیال میں ایمرجنسی کے نفاذ کی مندریجہ ذیل حقیقی وجوہات ہیں۔

1۔ مسلم لیگ ق کو آنے والے انتخابات میں شکست کا خوف اور اس طرح ایمرجنسی لگا کر موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال اضافے کی خواہش تاکہ وہ کچھ عرصہ مزید قومی دولت کو لوٹ سکیں

2۔ جنرل مشرف کے دوبارہ  باوردی صدر  بننے پر سپریم کورٹ ميں اس کیخلاف فیصلہ آنے کے خدشات

3. جنرل مشرف کے اقتدار پر چمٹے رہنے کی خواہش اور امریکہ کی جنرل مشرف کو شہ

یعنی ایمرجنسی کے نفاذ کے پیچھے صرف اور صرف خود غرضی کا عنصر ہے ملکی مفاد قطعاً نہیں۔ جنرل مشرف کو اس بات سے غرض نہیں کہ ملک کے حالات بگڑ جائیں گے۔ انہیں اس بات سے غرض ہے کہ وہ امریکی خواہش کے مطابق اقتدار سے چمٹے رہیں چاہے اس کیلیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ ابھی کل کی بات ہے میڈیا جب حکومت کیلیے درد سر بننے لگا تو اس پر پابندیاں لگا کر حکومت نے میڈیا آزاد ہونے کے اپنے سابقہ دعووں کی دھجیاں اڑا دیں۔ اسی طرح اب ایمر جنسی لگا کر جب بنیادی حقوق معطل کردیے جائیں گے تو حکومت کی جمہوریت نوازی کا پول بھی کھل جائے گا۔ حکومت اسی وقت تک میڈیا اور جمہوریت کا کریڈٹ لیتی رہے گی جب تک یہ دونوں اس کیلیے وبال جان نہیں بن جاتے۔ جس دن حکومت کو پتہ چلا کہ میڈیا اور جمہوریت اس کیلیے خطرہ بن چکے ہیں نہ میڈیا آزاد رہے گا اور نہ ملک میں فوجی جمہوریت۔

پاکستان میں اس وقت مفاد پرستوں کا حکومت اور سیاست پر قبضہ ہے۔ ہرطرف نفسا نفسی نظر آرہی ہے اور کوئی بھی قومی جذبے سے سرشار نظر نہیں آتا۔ چودہ اگست سر پر ہے اور حکومت یوم آزادی منانے کی تیاریاں کرنے کی بجائے اپنے فائدے کی باتیں سوچ رہی ہے۔ سیاستدان چاہے وہ حکومتی ہوں یا حزب اختلاف کا ہرکوئی قومی دولت پر نظریں جمائے بیٹھا ہے اور چاہتا ہے اس گنگا میں وہ بھی نہا لے۔

یہ حقیقت ہے کہ جنرل مشرف کا نعم البدل بالکل انہی کی طرح کا ہوگا جو ان کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا کیونکہ جب قوم سو جائے تو پھر اس کے لیڈر من مانیاں ہی کرتے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل تبھی روشن ہوگا جب قوم غفلت کی نیند سے جاگے گی اور اپنے لیے نیک اور صالح حکمران منتخب کرے گی جو ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کر ترجیح دیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ جب تک قوم سوئی ہوئی ہے چاہے ایمرجنسی لگا لو یا مارشل لاء، آپ کو کھلی چھٹی ہے۔ چند دن ہنگامہ آرائی ہوگی پھر خاموشی چھا جائے گی۔