منیر احمد طاہر نے غلام فاطمہ شاہ آف ڈیرہ غازی خان کی ایک نظم “میرے عہد کا بچہ” شائع کی ہے۔ ہم نے اس کی پیروڈی “میرے عہد کے حکمراں” کے نام سے کی ہے۔  اس نظم کے آخری مصرعوں میں ہم نے بہت کم کانٹ چھانٹ کی ہے اور ان کا مخاطب بچے کی بجائے حکمران کو بنا دیا ہے۔ پڑھیے اور دیکھیے کہ ہماری کاوش کتنی کامیاب ہوئی۔

میرے عہد کے حکمراں
شاید ۔۔۔ تو ابھی ہے ناداں
مگر ۔۔۔ عوام کے پاس آ تو سہی
تُو انہیں کچھ بتا تو سہی
یہ کیسی تیری حکمرانی ہے؟
کیوں لوگوں کو تجھ سے بدگمانی ہے؟
تجھ پر عوام کی خدمت گراں کیوں ہے؟
غیروں کی چوکھٹ تیرا آستاں کیوں ہے؟
 دینِ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رسولِ خدا کی سُنت میں لپٹا  ۔۔۔
ترے جسم کو پاک کر کے
تیرے سینے کو چاک کرکے
تجھے سکھا دے گا طورِ حکمرانی
تیرے دل میں جگا دے گا حُبِ انسانی
تونے کیوں دین کیا اپنی نظروں سے اوجھل؟
ہے آج بھی اسلام سب مسائل کا حل 
خدا کی رحمت بھی وہی
نبی کی محبت بھی وہی
میرے حکمراں
مستقبل کے پاسباں!
کیا تُو چاہتا ہے ۔۔۔۔؟
اپنے لئے، مرتب کردہ نصابِ حیات
بے شک! تجھے اجازت ہے
مگر ۔۔۔۔ تُو پڑھ!
فقط، دین کا مرتب کیا ہوا وہ سبق
جس میں خدا کے نام کے بعد
اس کے سب احکام کے بعد
صداقت، امانت کے
شجاعت اور خدمت کے
سبق جب ازبر کر لے گا
سب کے دلوں میں تُو گھر کر لے گا
ضمیر فروشوں کے لئے، وطن فروشوں کے لئے
تُو عذاب بن جائے گا
ایک عتاب بن جائے گا
تُو محبتوں کی مالا، تُو عزتوں کا رکھوالا
تُو اقبال کےخواب کی یوں تعبیر بن جائے گا
عزم و عمل کی تصویر بن جائے گا
تُو سیکھ جائے گا طریق سکندری کے
اور ۔۔۔۔ اسرار سارے قلندری کے
پھر۔۔۔۔تُو چھا جائے گا،دشمن کو مٹا پائے گا
ہر غریب ۔۔۔ ہو گا تیرا حبیب
مسکین و ضعیف سارے
ہوں گے قریب تمھارے
تُو یوں ۔۔۔۔ ایک اچھا حکمران بنے گا
ہماری عزتوں کا پاسبان بنے گا
تو ایسا کمال دے گا
دین کا جمال دے گا
تُو ایسی مثال ہو گا
حاکم باکمال ہو گا