نو گیارہ کے بعد امریکہ تو کھل کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے لگا مگر اب جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے دوسرے ملکوں کے سفیر بھی سرعام سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سیاستدان ان ملاقاتوں کو چھپانے کی بجائے میڈیا میں عام کرکے یہ تاثر دینے کی کوشس کررہے ہیں کہ کتنے ملک ان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ اب شاید عوام کی بجائے سیاستدان غیرملکی حمایت پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔ وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ مشکل میں اگر کوئی ان کے کام آیا تو وہ عوام ہی ہوں گے دوسرے ممالک کے سفیر نہیں۔

 اب تک بینظیر، نواز شریف، چوہدری پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت بہت سارے سیاستدانوں کی امریکی اور یورپی سفیروں سے ہونے والی باتوں کو صیغہء راز میں رکھا جارہا ہے۔

 اب تو سعودی عرب بھی ہمارے معاملات میں اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ اس کے سفیر نے معزول چیف جسٹس چوہدری افتخار سے ملاقات کرڈالی جس کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا تھا۔ افواہ یہی گرم ہوئی کہ سعودی عرب نے نواز شریف کی طرح چوہدری افتخار کو بھی ملک بدری کی تجویز پیش کی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔

ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ غیرممالک کیساتھ تعلقات کو شو کرنے کی بجائے عوام کو اپنا ہمنوا بنائیں۔ کیونکہ عوام ہی ان کے مشکل وقت میں کام آئیں گے غیر نہیں۔ بھٹو بھی غیرممالک کیساتھ اچھے تعلقات کا دم بھرتے تھے مگر انہیں چھڑانے کوئی نہیں آیا تھا۔ جب جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو دوسرے ممالک کچھ نہ کرسکے۔ اگر ان لیڈروں کی عوام میں جڑیں مضبوط ہوتیں تو عوام بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی جلاوطنی کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے۔

مگر کیا جائے ہمارے لیڈر عوام کی طاقت کو زیرو سمجھ کر بہت بڑی بھول کررہے ہیں اور اس طرح ملک کی خدمت بھی نہیں کررہے۔ اس وقت تمام سیاستدانوں کی پہلی ذمہ داری تو یہ تھی کہ وہ عوام کی بے حسی اوران میں پھیلی مایوسی کا مداوا کرتے اور انہیں باور کراتے کہ عوام کی طاقت سب کچھ کرسکتی ہے۔ اگر عوام چاہیں تو نیک اور ایماندار حکمران چن سکتے ہیں جو ملک کے حالات ٹھیک کرسکتے ہیں۔ مگر سیاستدانوں کو عومی مایوسی اور بے حسی سے کوئی غرض نہیں، ان کا ٹارگٹ تو کرسی ہے چاہے اس کیلے میر جعفر ہی کیوں نہ بننا پڑے۔