آصف زرداری کو اپنی بیگم بینظیر بھٹو کے ادوار میں مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب ملا۔ اس وقت جب وہ ماحولیات کے محکمے کے انچارج تھے سنا ہے کسی بھی فیکٹری کو بند کر دیتے تھے اور وہ فیکٹری پھر مک مکا کے بعد ہی کھلا کرتی تھی۔ نواز شریف نے اپنے دور میں بینظیر کا ناطقہ بند کرنے کیلیے ان کے شوہر کیخلاف جو ریفرینس دائر کیے ان کو بنیاد بنا کر جنرل مشرف نے زرداری کو سات سال تک جیل میں قید رکھا۔ ان کی رہائی کس معاہدے کے تحت ہوئی یہ دونوں ہستیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ جنرل مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور میں صرف ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ وہ بینظیر، زرداری اور نواز شریف شہاز شریف سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے۔ وہ ان لوگوں کو ملک کو دوبارہ لوٹنے کیلیے واپس نہیں آنے دیں گے اور انہیں انتخابات بھی نہیں لڑنے دیں گے۔ لیکن اس دوران نہ جنرل مشرف اور نہ ہی نیب آصف زرداری کیخلاف کرپشن کا کوئی کیس ثابت کرسکی اور نہ ہی ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے سکی۔

پھر نومارچ آیا اور حالات نے پلٹا کھایا۔ زرداری حادثاتی طور پر پاکستانی سیاست میں دوبارہ وارد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاست پر چھا گئے۔ جنرل مشرف نے نہ صرف انہیں قبول کر لیا بلکہ ان کیخلاف کرپشن کی دھائی دینا بھی ترک کردیا۔ یہاں تک کہ ان کی کرپشن کو قانونی قرار دینے کیلیے مصالحتی آرڈیننس بھی جاری کردیا۔  پھر کیا تھا وہی نیب جس نے آصف زرداری کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا مصالحتی آرڈیننس کی آڑ میں ان کیخلاف سارے کیس خارج کرنے لگی۔ نیب نے آج آصف زرداری کیخلاف ساتواں ریفرنس خارج کرکے انہیں مسٹرکلین بنا دیا ہے۔ اب آصف زرداری ایک ایسے فرد ہیں جن کیخلاف کوئی بھی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ وہ پھر سے حکومت کرنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں اور جنرل مشرف کا منہ چڑا رہے ہیں۔ 

اب نہ آصف زرداری صاحب ان جھوٹے ریفرنس درج کرانے والوں کیخلاف کوئ قانونی چارہ جوئی کریں گے اور نہ ہی حکومتی ادارے حکومت کا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع  کرانے والوں کی پوچھ گچھ کریں گے۔ آصف زرداری صاحب کیخلاف ریفرنس درج کرانے والے اب ان کے حلیف بن چکے ہیں اور ان کو کرپٹ کہنے والے ان کیساتھ کام کرنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں۔

 اسے کہتے ہیں پاکستانی سیاست۔ آدمی اپنے مفاد کی خاطر دشمن کی بڑی سے بڑی زیادتی بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اسے انتہائی گھٹیا کہنے والے کیساتھ کام کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔

کرپشن کے الزامات لگانا اور نیب کا استعمال شاید کبھی ختم نہ ہو۔ اب موجودہ حکومت پتہ نہیں کس کس کو اپنے عتاب کا نشانہ بنائے گی اور کس کس کو کرپشن کے الزام میں اندر کرے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔