جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے شعیب اختر پر اصول و ضوابط کی خلاف ورزی پر پانچ سال کیلیے پابندی لگائی تو ہمیں اپنے دوست جو ٹیکسی ڈرائیور تھا کا سنایا ہوا واقعہ یاد آگیا۔ چند سال قبل شعیب اختر انگلستان کے دورے پر تھا اور ہمارے دوست نے اسے دو لڑکیوں کیساتھ نشے کی حالت میں ڈسکو کلب سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر کہا کہ شعیب تم اپنا کیریئر تباہ کررہے ہو۔ شعیب نے کہا چل جا تو اپنا کام کر۔ دوست نے اسے کہا کہ وہ تو اپنا کام کر ہی رہا ہے مگر تم اپنا کام نہیں کررہے۔ بقول ہمارے دوست کے شعیب اختر نشہ کرتا تھا اور گوریوں کیساتھ آوارہ گردی بھی۔

وہ جوانی کے دن تھے اور شعیب اونچی ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔  لیکن شراب اور کباب جب آدمی کی رگوں میں رچ جائے تو وہ جلدی زوال کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانے میں استاد اپنے پہلوان شاگردوں سے لنگوٹ کی مضبوطی کا وعدہ لیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں بھولو پہلوان کا والد اسے بیوی کیساتھ روزانہ نہیں سونے دیتا تھا اور دونوں کی چارپائیوں کے درمیان چارپائی بچھا کر سوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ بھولو اتنا طاقت ور تھا کہ کبھی کبھی بیوی کو ٹانگ پر بٹھا کر اپنی چارپائی پر کھینچ لاتا تھا۔

شعیب نے اسی طرح اپنا کیریئر تباہ کیا جس طرح باکسنگ کے بادشاہ مائیک ٹائسن نے۔ ایک وقت تھا مائیک ٹائسن اپنے مدمقال کو شروع کے راؤنڈوں میں ناک آؤٹ کردیتا تھا۔ مگر جب وہ آوارہ گردی میں پڑا اور ایک عورت کیساتھ زناہ کے جرم میں جیل چلا گیا تو پھر آئرن مائیک نہ رہا۔ اب اس نے کبوتر پال رکھے ہیں اور شہر کے ایک کونے میں اپنے بچوں کی پرورش کررہا ہے۔

شعیب اگر عقل مند ہوتا توصرف اور صرف اپنے کیریئر پر دھیان دیتا اور جوانی کے جوش کو کرکٹ کیلیے مختص کردیتا۔ کہتےہیں ہر کام اعتدال میں رہ کر کیا جائے تو فائدہ پہنچاتا ہے وگرنہ کسی بھی عمل کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔ شعیب بھی اگر کرکٹ کے علاوہ باقی کاموں کو ثانوی اہمیت دیتا تو آج عمران خان، وسیم اکرم اور وقاریونس سے بھی بڑا ہیرو ہوتا۔

شعیب نےجس طرح اپنا مستقبل تباہ کیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے کھلاڑی جب عام زندگی سے نکل کر اچانک ہیرو بنتے یہں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ دراصل  پی سی بی کو چاہیے کہ نئے کھلاڑیوں کو کرکٹ کیستھ ساتھ کیریئر پلاننگ بھی سکھائے۔ کھلاڑیوں کو ڈسپلن اور بدیشی زبان بھی شروع میں سکھانی شروع کردینی چاہیے اور ان خصوصیات کو کرکٹ کے ہنر کیساتھ ساتھ کنٹریکٹ کا حصہ بنانا چاہیے۔ نئے کرکٹر کھلنڈرے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، پی سی بی کو ان کی رہنمائی اسی طرح کرنی چاہیے جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کی اس کے سیٹ ہونے تک کرتا ہے۔

ہم تجویز کریں گے کہ نئے کھلاڑیوں کو کھیل کیستھ ساتھ پڑھائی بھی کرائی جائے اور کم از کم ہر کھلاڑی یونیورسٹی کی ڈگری ضرور لے۔ اس کے بعد انہیں سٹاف کالج کی طرح کی ورکشاپس میں شامل کیا جائے اور ان کے کیریئر کو اس طرح پالش کیا جائے کہ وہ جہاں بھی جائیں پاکستان کی نیک نامی کا سبب بنیں۔