بینظیر نے وطن واپسی پر ایک دفعہ کہا “ٹکٹیٹرشپ سے سب سے بڑا انتقام خود جمہوریت ہے” بینظیر کا یہ قول پیپلزپارٹی ہر جگہ استعمال کرتی رہی ہے اور اسے صدر مشرف سے براہ راست ٹکر لینے سے بچنے کا ایک بہانہ بنا کر پیش کرتی رہی ہے۔ اسی طرح اب زرداری صاحب نے حزب اختلاف کی ہر جماعت سے راہ و رسم بڑھا کر اور صدرمشرف کی ذات سے ٹکر نہ لینے کا فیصلہ کرکے یہ کہنا شروع کردیا ہے “وہ کسی انسان سے بدلہ نہیں لیں گے بلکہ نظام بدلیں گے”

کہنے کو تو یہ بہت اچھی باتیں ہیں مگر نظام بدلنے والوں نے کیا اب اپنے آپ کو بھی بدلنے کا فیصلہ کیا ہے کہ نہیں۔ وہ لوگ جو اب تک لوٹ مار کے مقدمات میں ملوث تھے حکومت دوبارہ ملنے پر کیا اپنے سابقہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنا پسند کریں گے؟ یا پھر وہ اگلے سالوں میں ملک کو مزید لوٹ کر اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں گے۔ اس دفعہ اگر دیکھا جائے تو لوٹ کھسوٹ کرنے والوں نے ملکر یا تو ملک کو سنوارنے کا منصوبہ بنایا ہے یا پھر لوٹنے کا۔ ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حزب اختلاف آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف، اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمان، الطاف حسین سب ایک ہوچکے ہیں۔ کہیں یہ سارا اتفاق اس نیلامی کے کاروبار کی طرح تو نہیں جس میں ایک آدمی سڑک پر چیزیں نیلام کرتا ہے اور اس کے ساتھی تماشیائیوں میں کھڑے ہو اس نیلامی میں حصہ لیتے ہیں تاکہ وہ نیلامی میں حصہ لینے والے سادہ لوح شخص کو ملکر لوٹ سکیں۔

ہمیں امید ہے کہ رحمٰن ملک، موقع پرست حسین حقانی، آصف زرداری اور دوسرے تمام لیڈران جن پر مستقبل میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں وہ بدل چکے ہوں گے اور اگر ابھی تک نہیں بدلے تو خدا کیلے پاکستان کی بقا کی خاطر بدل جائیں۔ اگر انہوں نے پرانے طور طریقے نہ چھوڑے تو پھر ملک غیروں کیلیے میدان جنگ بنا رہے گا، خودکش دھماکے ہوتے رہیں گے، بجلی کی لوڈ شيڈنگ جاری رہے گی اور یہ لوگ اپنے قریبی عزیزوں دوستوں کو اسی طرح نوازتے رہیں گے جس طرح انہوں نے اسمبلی ميں خواتین کی مخصوص نشتوں پر اپنی خواتین کو چن کر اپنے آپ کو نوازا ہے۔

حزب اختلاف کا اس طرح ہوا میں تحلیل ہوجانا بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ جس طرح روس کا ٹکڑے ہونا امریکہ کیلے واحد سپر پاور ہونے کا سبب بنا اور اس تبدیلی نے پاکستان کی طرح چھوٹے چھوٹے ملکوں کو ان کا غلام بنا دیا اسی طرح پاکستان میں حزب اختلاف کی غیرموجودگی کہیں حکمرانوں کو کھلی چھٹی نہ دے دے کہ میدان صاف ہے کوئی پوچھنے والا نہیں جی بھر کر قومی دولت پر ہاتھ صاف کرلو۔ حزب اختلاف کی غیرموجودگی میں قومی دولت کو لٹنے سے اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ہمارے حکمرانوں کا ضمیر ہے۔ اگر ان کا ضمیر زندہ رہا تو صاف میدان ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہوگا اور اگر ضمیر مردہ ہوگیا تو پھریہ میدان لوٹ کھسوٹ کی منڈي میں تبدیل ہوجائے گا۔