پنجابی کی مثال “دل حرامی تے حیتاں دا ڈھیر” موجودہ حکومت پر سو فصد پوری اترتی ہے۔ پہلے تو انہوں نے الیکشن میں نعرہ لگایا کہ حکومت ملی تو پی سی او زدہ جج بحال کردیں گے۔ جب حکومت ملی تو پھر اعلان مری ہوا اور ججوں کو تیس دن کے اندر بحال کرنے کا آپس میں معاہدہ کیا۔

 اب تیس دن کب سے شروع ہوں گے یہی فیصلہ نہیں ہو پارہا۔ دو دن قبل وزیراطلاعات شیریں رحمان جو وزیرکم اور ماڈل گرل زیادہ بننے کی کوشش کررہی ہیں نے اعلان کیا کہ تیس دن کا کاؤنٹ ڈاؤن تب شروع ہوگا جب صوبوں کی حکومتیں بن جائیں گی۔ اس سے قبل یہ کاؤنٹ ڈاؤن وکلا نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حلف اٹھانے کے دن سے شروع کیا تھا لیکن بعد میں آصف زرداری نے یہ کاؤنٹ ڈاؤن کابینہ کی تشکیل کے بعد شروع کرنے کی بات کر دی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر شیرافگن کی ایک آمر کی غیرقانونی حمایت کی بنا پر چھترول کے بعد آصف زرداری اور ایم کیو ایم نے وکلا کو کوسنا شروع کردیا ہے۔ تاکہ یہ تحریک ٹھنڈی پڑ جائے اور ججوں کا معاملہ پس پردہ چلا جائے۔

کابینہ کی تشکیل کے بعد ججوں کی بحالی کیلیے ایک کمیٹی بنائی گئی جو بدنیتی کی بنا پر کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور اب  بڑی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کرنے کی بحث وزیرقانون فاروق نائیک نے چھیڑ دی ہے۔ اب ہوگا یہ کہ جماعتوں کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کی طرح کے لوگ رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلیے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ختم ہوجائے گا۔ اس طرح یہ شوشہ چھوڑا جائے گا کہ ججوں کی بحالی پر اتحادی جماعتوں میں اختلافات ہیں اور ان کو ختم کرنے کیلیے مزید ایک کمیٹی بنا دی جائے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ منصف عدلیہ کی بحالی کسی بھی حکومتی اتحادی پارٹی کے حق میں نہیں ہے۔ اگر جج بحال ہوگئے تو پھر وہ انہی کی سکروٹنی شروع کردیں گے اور یہی راز حکومت کے غیرملکی مشیروں نے بھی بتایا ہو گا۔ غیرملکی مشیر بھی وہ بناں پاس کے قومی اسمبلی میں گھس جاتے ہیں، روزانہ کسی نہ کسی حکومتی اہلکار سے ملاقات کرکے آرڈر اس طرح جاری کرتے ہیں جیسے وہ واقعی پاکستان کے وائسرائے ہیں۔ یہ مشیر بھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ جج بحال ہوں کیونکہ اس طرح ملکی سیاست کرپشن سے پاک ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے جو غیرملکی آقاؤں کے حق میں نہیں ہیں۔

یہ شروع سے پاکستانی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جو کام ٹالنا ہو اس کی کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ ججوں کی بحالی کیلیے جس دن کمیٹی بنی اسی دن رائے عامہ کو شک ہو گیا تھا کہ جج آسانی سے بحال ہونے والے نہیں ہیں۔

وکلا ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں مگر جس دن سے آصف زرداری نے سپریم کورٹ بار کے صدر چوہدری اعتزاز احسن کی سرزنش کی ہے وہ بھی دھیمے پڑ گئے ہیں۔ اگر جج بحال نہ ہوئے تو ان لوگوں کا بھی امتحان شروع ہوجائے گا جو ججوں کے بحال نہ ہونے پر استعفے دینے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ مگر فکر نہ کریں ہمارے پاس بہانوں کی کمی نہیں ہے وہ بھی کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ کر وزارت سے چمٹے رہیں گے۔

ایک بات طے ہے کہ یہ خدشات عوام کی ٹریننگ ضرور کردیں گے اور وہ اگلے انتخابات میں اسی طرح دوبارہ برج الٹ دیں گے جس طرح انہوں نے اس سال کے انتخابات میں کیا۔