یونیورسٹی کے دور میں ٹی سی کرنے کو بہت برا سمجھا جاتا تھا اور اسے طعنے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ جب کوئی طالبعلم کسی استاد کیساتھ گپ شپ لگاتا ہوا پکڑا جاتا تو اسے ٹی سی باز کہا جاتا تھا۔

ٹی سی اسی طرح دو گندے الفاظ کا مخفف ہے جس طرح انگریزی میں این ورڈ نیگرو کیلے اور بی ایس بل شٹ کیلیے استعمال ہوتا ہے۔ لوگ ایف ورڈ بھی ایک گندی گالی کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کے مخفف وہ سلجھے ہوئے لوگ استعمال کرتے ہیں جو گندے الفاظ سے اپنی زبان پلید نہیں کرنا چاہتے یا پھر بچے اپنے والدین کے سامنے استعمال کرکے دوسروں کی شکایت لگاتے ہیں کہ اس نے یہ لفظ کہا ہے۔

آجکل سیاست میں بھی ٹی سی عام ہوچکی ہے۔ یہ بیماری چھوٹے سیاستدانوں سے لیکر بڑے سیاستدانوں تک پھیل چکی ہے۔ صدر مشرف کے عروج میں ان کے ٹی سی باز ہر تصویر میں ان کے پیچھے نظر آنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اب ہمارے چوٹي کے لیڈر یعنی جماعتوں کے سربراہ بھی بیرونی جمہوری قوتوں کی ٹي سی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو بیرونی جمہوری قوتوں کی ٹي سی کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے اسی لیے اس ٹی سی کی فوٹو اخبارات کے پہلے صفحے پر چھپوائی جاتی  ہے۔ ایسی تصاویر ان دنوں اخبارات میں تواتر سے چھپ رہی ہیں۔ اس ٹی سی بازی کی دوڑ میں کوئی بھی پیچھے نہیں رہا حتیٰ کہ سرخے اور مولوی بھی یہ کام انجام دے چکے ہیں۔ ہمیں اسفندیارولی خان، الطاف حسین اور مولانافضل الرحمان کی ٹي سی کرتے ہوئے تصاویر نہیں مل سکیں لیکن ان دو لیڈروں کی فوٹو تازہ ہونے کی وجہ سے بہ آسانی مل گئی ہیں۔