ابھی تک پاکستانی تاریخ میں اگر کسی نے اپنا وعدہ ایفا کیا ہے تو وہ قائد اعظم تھے جنہوں نے پاکستان بنانے کا وعدہ کیا اور پھر پاکستان بنا کے دکھایا۔ اس کے بعد جتنے بھی ہمارے حکمران آئے انہوں نے اپنے بہت سارے وعدے توڑے اور اپنے اقوال کا پاس نہیں کیا۔ ہمیں ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے کے حکمرانوں کی وعدہ خلافیوں کا علم نہیں ہے مگر بھٹو دور سے ہم جانتے ہیں کہ کن کن حکمرانوں نے اپنے اقوال کا پاس نہ رکھا اور پنجابی زبان میں “نغلے” کہلوائے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑے اور مکان کا وعدہ کیا جو نہ وہ پورا کرسکے اور نہ ان کی بیٹی بینظیر۔ اسی طرح انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا جو بعد میں وڈیروں، جاگیرداروں اور مذہبی لیڈروں کے خوف کی وجہ سے دھرے کا دھرا رہ گیا۔ بھٹو نے خواندگی بڑھانے کا بھی وعدہ کیا جو بیرونی جمہوری طاقتوں کے دباؤ کا شکار ہو گیا۔
جنرل ضیاع نے پہلے الیکشن نوے دن میں کرانے کا وعدہ کیا جو وہ پورا نہ کرسکے۔ پھر انہوں نے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ کیا جو ایفا نہ ہو سکا۔ کہتے ہیں جنرل ضیاع کا اسلام صرف اور صرف بیرونی جمہوری طاقتوں کو روس کیخلاف مجاہدین کی کھیپ مہیا کرنے کی حد تک تھا۔
نواز شریف نے اپنے ایک دور میں قرض مکاؤ کا نعرہ لگایا جو فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کرنے پر ٹھکانے لگا اور پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھا ہی کم نہ ہوا۔ نواز شریف نے بھی اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کی جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ اسلام کا نفاذ پتہ نہیں کیوں حکمران اتنا گھمبیر سمجھتے ہیں جو جنرل ضیاع اپنے گیارہ سالہ دور میں بھی نافذ نہ کرسکے اور نواز شریف اپنے دونوں ادوار میں۔
بینظیر نے بھی خواندگی بڑھانے، روٹی کپڑے اور مکان دلوانے اور عوامی حکومت کی بات کی مگر کسی ایک کو بھی عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ ان کا عوامی حکومت کا نعرہ تو ہمیشہ کھوکھلا ہی رہا۔
جنرل مشرف نے تو وعدہ خلافیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ پہلے انہوں نے ٹی وی پرعوام کے سامنے وردی اتارنے کا وعدہ کیا جو وہ ایفا نہ کرسکے۔ بعد میں وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہ وعدہ زبانی کیا تھا کوئی دستخط نہیں کیے تھے۔
اس کے بعد انہوں نے ہر گاؤں میں بجلی اور صاف پانی پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس کے برعکس اب یہ حال ہے کہ پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور گندے پانی کی وجہ سے لوگ ہیپاٹاتٹس کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔
پھر انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کو ماننے کا وعدہ کیا جو انہوں نے عدلیہ کو گھر بھیج کر توڑ دیا۔
جس طرح جنرل ضیاع نے اسلامی نظام نافذ کرتے کرتے گیارہ سال حکومت کی اسی طرح جنرل مشرف نے دہشت گردی ختم کرتے کرتے آٹھ سال گزار دیے اور ان سے دہشت گردی ختم نہ ہوئی۔
جنرل مشرف نے مظفرآباد اور شمالی علاقوں کے زلزلے میں تباہ ہونے والوں کی بحالی کا بھی وعدہ کیا جو دو سال گزرنے کے باوجود بھی پورا نہیں ہوسکا۔ لوگوں کو مکانات بنا کر دینے کی بات بہت دور کی ہے وہ تو سکول اور ہسپتال تک دوبارہ تعمیر نہیں کراسکے۔
موجودہ حکومت کے بادشاہ گر یعنی آصف زرداری نے ججوں کو تیس دن میں بحال کرنے کا وعدہ کیا جو وہ پورا نہ کرسکے۔ ابھی تو یہ ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے کتنے وعدے ٹوٹتے ہیں۔ شاید اسی بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے کہ
وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے
وعدہ نبھانے والے کو امین اور صادق کہا جاتا ہے اور وعدہ توڑے والے کو وعدہ خلاف، جھوٹا اور بے ایمان کہا جاتا ہے۔ ایک بار جو اپنی زبان کا اعتبار کھو بیٹھے وہ دنیا کے کسی بھی کاروبار میں اپنے قدم نہیں جما سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی وعدہ خلافیاں ان کی تباہی کا باعث بنیں۔ ان کے کرداروں کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں نے وعدوں کا پاس کیا وہ تاریخ میں امر ہوگئے اور دنیا اب بھی انہیں اپنا رہمنا اور لیڈر سمجھتی ہے۔
3 users commented in " وعدے جو ایفا نہ ہو سکے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنا جانے کس نے ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں کو یہ بتایا ہے کے اسلام نافذ کیا جاتا ہے ۔۔ اسلام کی دعوت دی جاتی ہے اور یہی رسول اللہ ساری زندگی کرتے رہے ۔۔ نفاذ تو مملکت کے قوانین کا کیا جاتا ہے مذہب اور دین کا نہیں۔
لفظ ”نغلے“ نھیں بلکہ ”نگلے“ ہے – ”نگلے“ یعنی جن کی کوئی ”گل“ نا ہو – مقصد جو خود ہی اپنی بات کا لحاظ اور پاس نا رکھتے ہوں ۔پنجابی زبان میں بات سے پھرجانے والے کو بھی ”نگلا“ کہا جاتا ہے-
جسطرع دھوکہ دینے والا کاروباری جلد ناکام ہوجاتا ہے بعین ”نگلا“ سیاستدان گمنامی کے اندھیروں کی غذا بن جاتاہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں مجرم گردانا جاتا ہے –
جاوید صاحب لفظ کی درستگی کا شکریہ۔ لیکن جہاںتک ہمیںمعلوم ہے کچھ علاقوں میںلفظ “نغلا“ ہی بولا جاتا ہے اور اس کا مطلب وہی ہے جو آپ نے لکھا ہے۔
Leave A Reply