بھٹو دور سے پہلے پرائمري سکول سرکاري ہوا کرتے تھے اور ہائي سکول پرائيويٹ۔ ہم جب ہائي سکول ميں داخل ہوۓ تو اس کي خوبصورتي ديکھ ديکھ کر کافي دن مسرور رہے۔ اس سکول کے گيٹ کے ايک طرف بينڈ روم ہوتا تھا جہاں صبح صبح لڑکے بنيڈ کي پريکٹس کررہے ہوتے تھے۔ دوسري طرف ٹيوب ويل چل رہا ہوتا تھا جس کے پاني سے سارے سکول کے پودے سيراب ہوتے تھے اور يہي ٹيوب ويل وضو کيلۓ پاني ٹينکي ميں ذخيرہ کرتا تھا۔ سکول ميں کوئي بيس کمرے تھے اور ہر کمرے کے سامنے پھولوں کا ايک باغيچہ ہوتا تھا اور ايک پاني کي ٹوٹي پياس بجھانے کيلۓ نصب ہوتي تھي۔ سکول کا ايک بہت بڑا ہال تھا جو تقريبات کيلۓ مقرر تھا اور جس ميں سکول کے سارے يعني ايک ہزار طالبعلم سما جاتے تھے۔ يہي ہال بارش کے دنوں ميں صبح کي اسمبلي کيلۓ استعمال ہوتا تھا۔ اس سکول ميں ايک تھيٹر نما ليباريٹري تھي جس ميں ہائي سکول کے طالبعلم کيمسٹري کے پريکٹيکل کيا کرتے تھے۔ سکول کا گراؤنڈ بہت بڑا تھا جہاں اسمبلي، پي ٹي شو، ہاکي، کبڈي اور سالانہ جلسے ہوا کرتے تھے۔
سکول کے اندر ايک کونے ميں ايک کلينک بھي تھا جہاں ايک ہوميوپيتھک ڈاکٹر بيٹھا کرتا تھا اور ہم لوگ جب ہوم ورک کر کے نہيں آيا کرتے تھے تو اس پيريڈ ميں بيماري کا بہانہ کرکے کلينک چلے جايا کرتے تھے۔ ڈاکٹر جس کا نام ذرغام تھا ہم سب کو بناں بيماري کي تميز کۓ ايک ہي طرح کي ميٹھي گولياں دے ديا کرتا تھا جو ہم ايک ہي ہلے ميں چبا جايا کرتے تھے۔ کبھي کبھي جب پي ٹي ماسٹر کا ادھر سے گزر ہوتا اور بيماروں کا رش ديکھتا تو اپنے ڈنڈے سے سب کا علاج شروع کرديتا۔ اس طرح دو منٹ ميں کلينک خالي ہو جاتا۔
اس سکول کا ہيڈ ماسٹر ايک نواب خاندان کا چشم وچراغ تھا اور اس کي نفاست سارے شہر ميں مشہور تھي۔ وہ لڑکوں کو سزا بھي اس انداز ميں ديتا تھا کہ مار کھاتے ہوۓ بھي ہنسي نکل جايا کرتي تھي۔
پھر بھٹو دور آيا اور اس نے اپني طرف سے غريبوں کا بھلا کرتے ہوۓ سارے سکول قوميا لۓ۔ دسويں تک تعليم تو مفت ہوگئ مگر ساتھ ہي ماسٹروں کي نوکري بھي پکي ہوگئ۔ جب ماسٹروں نے ديکھا کہ اب ان کو ان کي کارکردگي کي بنياد پر کوئي نہ نکال سکے گا تو سکول کا تعليمي معيار گرنے لگا۔ پھر سرکاري کرپشن ميں ہيڈ ماسٹر بھي شامل ہوگۓ اور انہوں نے سکول کے فنڈ سکول پر لگانے کي بجاۓ اپني جيبوں ميں ڈالنا شروع کرديۓ۔ ديکھتے ہي ديکھتے چھ سات سال بعد وہي سکول جو کبھي ہرے بھرے اور سجے سجاۓ ہوتے تھے کھنڈرروں ميں تبديل ہونے لگے۔
اب کبھي اس طرف سے گزر ہوتا ہے تو وہي سکول بھوت بنگلے کا نمونہ پيش کرہا ہوتا ہے۔ نہ ادھر اب ٹيوب ويل ہے، نہ ٹوٹياں، نہ بينڈ اور نہ کھيلوں کا سامان۔
پھر جب ضيا نے پرائيويٹ سکولوں کي دوبارہ اجازت دي تو اس طرح کے سکول دوبارہ بننے لگے مگر ان کي فيسيں اتني زيادہ ہيں کہ عام آدمي اپنے بچے ان سکولوں ميں بھيجنے سے قاصر ہے۔ گورنمنٹ سکولوں کي حالت ويسے کي ويسي ہے اور ان ميں بہتري ہوتي ہوئي نظر نہيں آتي کيونکہ ہم اب بھي کرپشن ميں دنيا کے ١٥٩ملکوں ميں سے ١٤٤نمبر پر ہيں۔
2 users commented in " کل اور آج "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکیا یاد کرا دیا آپ نے ۔ وہ سکول اب کہاں ۔ صبح صبح بینڈ کے ساتھ پی ٹی کرنا ۔ پھر اسمبلی میں دعا کے بعد ضروری ہدایات ۔ اب تو کوٹھیوں میں سکول ہیں ۔ فیس تین ہزار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ اور بچے میٹرک تک پہچتے پہنچتے فیڈرل سیکریٹری کی طرح ہو چاتے ہیں جو ٹیڑا منہ کر کے بات کرتے ہیں ۔
It can happen!
Its not impossible!
But we need the spirit!
but our souls and spirits have lost somewhere in the rush of materialistic desires…
P.S.
thanx for the appreciation of my Blog
Leave A Reply