کل کا وکلا کا لانگ مارچ پاکستان کی تاریخ میں چند پرامن جلوسوں میں سے ایک تھا جو بغیر کسی ہنگامے، توڑپھوڑ اور قتل و غارت کے اختتام پذیر ہوا۔ ایسے ہوتا کیوں ناں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی سرکاری شخصیت کیخلاف سرکار کی حمایت سے احتجاج کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے جمہوری حکومت اور جنرل مشرف کے مخالفین یک جان دو قالب تھے اور جنرل مشرف کیخلاف وکلا کا لانگ مارچ پوری قوم کا ریفرنڈم تھا۔ اس کے بعد اگر جنرل مشرف اقتدار میں رہے تو وہ جنرل ایوب سے بھی گئے گزرے ہوں گے جس نے عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے استعفٰی دے دیا تھا۔
اس کامیاب لانگ مارچ کے بعد جنرل مشرف اور پیپلزپارٹی پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ جنرل مشرف کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور اگر جان کی امان چاہتے ہیں تو اپنے آقاؤں کے دیس چلے جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی بھی اگر عوام میں اپنی مقبولیت بحال رکھنا چاہتی ہے تو اسے بھی عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جنرل مشرف کے مواخذے کا آغاز کر دینا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہے پیپلزپارٹی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ این آر او یعنی جنرل مشرف کا احسان ہے۔ اس کا بدلہ پیپلزپارٹی جنرل مشرف کو محفوظ راستہ دے کر ادا کرسکتی ہے۔ مگر اب پیپلزپارٹی کے پاس جنرل مشرف کو ہٹانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ دیکھیں پیپلزپارٹی کب ہوش کے ناخن لیتی ہے۔
اس لانگ میں نوازشریف نے شرکت کرکے ایک تو جنرل مشرف سے ذاتی بدلہ لیا ہے اور دوسرے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے ہونا تو وہی ہے جو بیرونی جمہوری طاقتوں کی مرضی ہے یعنی نہ بجٹ اپنی مرضی سے منظور ہو گا، نہ ملک پر بیرونی جمہوری قوتوں کے حملوں کو روکا جاسکے گا اور نہ عوام کی قسمت بدلنے کے فیصلے ہو پائیں گے مگر ایک بات پکی ہے کہ نواز شریف نے عوام کو اپنے حقوق کی پہچان کرادی ہے۔ اس کوشش میں وکلا اور اے پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔ وکلا کی یہ بات حقیقت ہے کہ اگر وکلا ججوں کی بحالی کی تحریک نہ چلاتے تو جنرل مشرف کا جمہورت کی طرف سفر اتنا تیز نہ ہوتا۔
آج کے لانگ مارچ کا کریڈٹ چیف جسٹس چوہدری افتخار کو بھی جاتا ہے جنہوں نے ایک ناں سے پاکستان کا سارا نظام بدل دیا۔ اس ناں کی لاج وکلا نے رکھی اور جنرل مشرف کو وردی اتارنے اور انتخابات میں غیرجانبدار رہنے پر مجبور کردیا۔ آج کا لانگ مارچ جنرل مشرف کو جلد ہی صدارت چھوڑنے پر مجبور کردے گا۔
وکلا نے لانگ مارچ کے بعد دھرنے کا پروگرام کینسل کرکے پیپلزپارٹی کو ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ جنرل مشرف سے ایوان صدارت خالی کراکے ججوں کو بحال کر دے اور اپنی ساکھ بحال کرا لے۔ اگر اس دفعہ بھی پیپلزپارٹی نے مفاہمت دکھائی تو پھر ہو سکتا ہے اگلے انتخابات وقت سے پہلے کرانے پڑ جائیں جن میں پیپلزپارٹی کا سندھ کے علاوہ تمام ملک سے سفایا بھی ہو سکتا ہے۔
حیرانی کی بات ہے اس سارے احتجاج میں ایم کیو ایم بالکل لاتعلق رہی ہے۔ ایم کیو ایم اگر مسلم لیگ کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کیساتھ ملکر یو ٹرن لے سکتی ہے تو پھر ججوں کے معاملے میں یوٹرن کیوں نہیں لے سکتی۔ اگر ایم کیو ایم واقعی موقع پرست ہے تو پھر اسے وکلا تحریک کی حمایت شروع کردینی چاہیے کیونکہ اب جنرل مشرف کے دن گنے جا چکے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ق کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور ایک آمر کی بیجا حمایت سے جو نقصان اس نے اٹھایا ہے اس کے ازالے کیلیے اسے بھی جنرل مشرف کی برترفی اور ججوں کی بحالی کی حمایت کا علان کردینا چاہیے۔
ہم خود اس بات کے حمایتی ہیں کہ پرانے ججوں کو سزا کے طور پر گھر بھیج کر پرانے ججوں کو بحال کردینا چاہیے تاکہ آیندہ بقول پیپلزپارٹی کے کسی جج کو آمر کی حمایت کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے۔
1 user commented in " لانگ مارچ جنرل مشرف کیخلاف ریفرنڈم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآُپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی جنرل مشرف سے ایوان صدارت خالی کراکے ججوں کو بحال کر دےگی؟- جسطرع جنرل مشرف نے اندرونِ خانہ امریکا سے پاکستان کے دام کھرے کیے اسکے بارے کچھ انکشافات تو آپ نے مشرف کی رسوائے زمانہ کتاب ان دی لائن آف فائر میں پڑھ ہی لیے ہوں گے-اب بات یہاں تک آن پہنچی ہے- کہ امریکہ ہماری ا فواج کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا-ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ مملکتِ خداداد کا مطلق العنان صدر جو محض افواجِ پاکستان کے سربراہ کی وردی کی طاقت کے بل بوتے پاکستان اور اہلِ پاکستان کے سینے پہ مونگ دلتا رہا ہے اور وردی اتارنے کے بعد بھی جسکی طاقت کا سرچشمہ افواجِ پاکستان ہی ہے- اس مطلق العنان آمر صدر کو پاکستانی فوج کے شہداء کےلیے دو لفظ کا بیان نصیب نہیں ہوا- مشرف کو تو آج جانا ہے یا کل جانا ہے کہ اسطرع کی آکاش بیلوں کا انجام اسی طرع شرمناک ہوا کرتا ہے -یہ الگ بات ہے کہ انہیں عین انجام تک اس بات کی خبر نہیں ھوا کرتی –
چونکہ مشرف ایک ڈکٹیٹر صدر ہے اور ڈکٹیٹروں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ جمہور اور ملک کے لیے قاتل ثابت ہوتے ہیں مگر پیپلزپارٹی جو جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کے لیے سب سے بڑھ کر قربانیاں دینے کا دعواہ کرتی ہے ۔ اسکی قیادت نے پاکستانی عوام کے جزبات ٹھنڈا کرنے کے لیے اس امریکن حملے کی مذمت کی – پاکستانی میڈیا کو یہ خبر دی کہ انکے وزیرِخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے یوروپ میں نیٹوسیکرٹری جنرل جاپ ڈی ھوپ سے سخت الفاظ میں احتجاج کیا ہے جبکہ امریکہ کے سرکاری ترجمان نے اس حملے کو ان الفاظ میںPentagon spokesman Geoff Morrell told reporters that there was “every indication” it was “a legitimate strike in defense of our forces after they came under attack.”
A U.S. official with knowledge of the incident the airstrike targeted suspected militants who had fled into Pakistan after conducting an ambush on the Afghan side of the border.جائز قرار دیا ہے
امریکہ میں پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ سفیر حسین حقانی کاجواب امریکیوں کے لیے یوں تھا کہ ّپاک افغان سرحد پہ 11 فوجیوں کی شہادت پاکستان اور امریکہ اسٹراءیجک تعلقات پہ اثر انداز نہیں ہوگی ،۔ ساری قوم مشرف سے یہ جاننے کے لیے اتنے سالوں سےپریشان رہی ہے کہ آخرامریکہ کے ساتھ وہ کونسے ّاسٹرائجک تعلقات، ہیں اور مشرف نے انکے بدلے پاکستان اور پاکستان لوگوں کے کتنی قیمت وصول کی ہے؟- جبکہ سفیر موصوف بضد بھی ہیں کہ امریکہ میں بسنے والے پاکستانی بھی یہ تسلیم کریں کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے جبکہ پاکستان میں پیپلز پارٹی پاکستان کے عوام کو اس واقعے پہ امریکہ سے سخت احتجاج اور مذمت کا تاثر دیتی ہے اور پیپلز پارٹی کے پاکستان کے وزیرِ اعظم قومی اسمبلی میں اس حملے کے سرِعام مذمت کرتے ہیں – یہ پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ سفیرِ موصوف کے الفاظ یوں تھے
,The U.S. airstrike which killed 11 Pakistani troops near the Afghan-Pakistan border Tuesday will not interfere with the countries’ strategic partnership,
اس طرع کی دوغلی پالیساں اس سے قبل مشرف اور سابقہ حکومت کا وطیرہ تھیں جیسے ّ سب سے پہلے پاکستان، کا نعرہ تھا- اب فرق صرف یہ پڑا ہے کہ قاف لیگ کی جگہ پیپلزپارٹی نے لے لی ہے- آخر پیپلز پارٹی کی کونسی مجبوری ہے؟ – اگر پیپلز پارٹی چاہتی تو جسطرع پیپلزپارٹی کے پاکستان کے وزیزِاعظم رضا شاہ گیلانی کے وزیراعظم بنتے ہی انکے صرف ایک زبانی حکم سے جج رہا ہو گیے اسی لمحے اسی حکم کے تحت غیر فعال چیف جسٹس چوہدری افتخار اور دیگرقابلِ احترام جج صاحبان بحال کیے جاسکتے تھے اور آمر کچھ بھی نا کر سکتا کہ اس گھڑی زمیں آمر کے پاؤں کے نیچے تھرتھر کانپ رہی تھی مگر یہ پیپلز پارٹی کو منظور نا تھا اور اسکی وجہ وہی معروف ّقومی مفاہمت معائدہ، تھاجسکے تحت سب منظورِ نظر مستفید کیا گیا- جسکے تحت اتنی بے دردی سے ھڑپ کیے گٰیے ملک کے تمام اثاثے معاف ہوگئے- بلکہ متوقع سزائیں بھی معاف ھوگئیں اور یک جنبش قلم قومی منافقت کے تحت ّجسےّقومی مفاہمت ، کا نام دیا گیا سب گنہگار عزت مآب شرفاء قرار دیئے گئے- جبکہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی بھوک سے بلک رہی تھی اور اس قومی مفاہمت کے بارے سو مو ٹو ایکشن سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری لے چکے تھے- تو پھر آپ پیپلز پارٹی سے یہ حسنِ ظن کیوں رکھتے ہیں کہ ُیپپلز باآسانی غیر فعال چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری اور دیگر قابلِ احترام جج صاحبان کو اتنی آسانی سے بحال کر دیں گے؟ – گھوڑا گھاس سے دوستی کر لے تو کھائے کیا؟
خیر اندلیش
جاوید گوندل۔بآرسیلونا، اسپین
Leave A Reply