آجکل عجیب سیاسی کھچڑی پکائی جارہی ہے۔ ایک طرف نوازشریف ججوں کی بحالی اور جنرل مشرف کے مواخذے جیسے بڑے اختلافات بھی آصف زرداری سے رکھتے ہیں اور وفاقی وزارتیں بھی قربان کر چکے ہیں مگر دوسری طرف وہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور قومی اسمبلی میں بھی ان مسائل کو زیربحث نہیں لا رہے۔

زرداری صاحب ججوں کو بحال بھی کرنا چاہتے ہیں مگر بحال بھی نہیں کر رہے۔ وہ جنرل مشرف کو قانونی صدر بھی نہیں مانتے اور انہیں گھر بھی بھیجنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ وکلا کو کامیاب لانگ مارچ پر مبارک باد بھی دیتے ہیں اور ان کے مارچ کو میلہ بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ صوبہ سرحد اور سندھ میں اے این پی اور ایم کیو ایم کیساتھ ملکر حکومت بھی بنائے بیٹھے ہیں مگر صدر کے مواخذے کیلیے ان کی حمایت حاصل کرنے سے معذوری ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ نواز شریف کے اتحادی ہیں مگر ان کے مطالبے پر ججوں کی بحالی پر راضی بھی نہیں ہیں۔ زرداری صاحب نے مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ قرار دیا مگر ابھی تک اس کی باقیات کو حکومتی عہدوں سے ہٹایا نہیں ہے۔ وہ اکثر مفاہمت کو ٹکراؤ پر ترجیح دیتے ہوئے جنرل مشرف کیساتھ ٹکر نہ لینے کی بات کرتے ہیں مگر دوسری طرف نواز شریف کے دور میں اپنے اوپر ہونے والے حملے میں ملوث سیاست دانوں اور سرکاری کارندوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہیں بلکہ فوت ہونے والوں کے وارنٹ بھی جاری کرا دیے ہیں۔

اے این پی نے سابقہ دور میں سرحد کے شمالی علاقوں پر بیرونی جمہوری طاقتوں کے حملوں کی کھل کر مذمت کی اور اب وہ ان حملوں پر خاموش اور لاچار ہیں۔ اے این پی نے جنرل مشرف کے دو نومبر والے اقدامات پر تنقید کی اور اب ججوں کی بحالی پر خاموش ہے۔ اے این پی نے نو مئی کے واقعات کا ایم کیو ایم کو ذمہ دار قرار دیا اور اب پھر سے اس کی دوست بن گئی ہے۔

ایم کیو ایم نے سابقہ دور میں مسلم لیگ ق کی اتحادی رہتے ہوئے پیپلزپارٹی کی خوب خبر لی اور اب وہ مسلم لیگ ق کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی کیساتھ جا ملی ہے۔ مزے والی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ق نے بھی ایم کیو ایم کی اس حرکت کا برا نہیں منایا۔

پیپلزپارٹي کی حکومت ہے مگر وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ڈاکٹر قدیر جمہوری حکومت کی حراست میں ہیں۔ ان کی رہائی کے بارے میں جب سوال ہوتا ہے تو پارٹي لیڈر کہتے ہیں کہ ان سے پوچھو جنہوں نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ اب وہ کون ہیں یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے۔

جیو کے پروگرام میرے مطابق اور کیپیٹل ٹاک پر پابندی لگائی جارہی ہے اور زرداری صاحب کہتے ہیں یہ پابندی کسی اور کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف نے بھی جیو پر پابندی کو زیادتی قرار دیا ہے مگر اس کے ازالے کیلیے کچھ نہیں کیا۔

اس سیاسی کھچڑی کی دیگچی سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ چاول زرداری صاحب کے ہیں، دال نواز شریف کی ہے، چولہے پر جنرل مشرف نے چڑھا رکھی ہے، پھونکنی ایم کیو ایم کے پاس ہے، ایندھن اے این پی فراہم کر رہی ہے مگر اسے پکانے والے نے اپنے چہرے کو چھپا رکھا ہے۔ اس کچھڑی کے اجزا کو معلوم ہے کہ اسے پکانے والا کون ہے مگر ان میں ہمت نہیں ہے کہ وہ اسے بے نقاب کرسکیں۔ کھچڑی پکانے والے کا ارادہ یہی لگتا ہے کہ وہ ہنڈیا کو تب تک پکاتا رہے گا جب تک کھچڑی مکمل طور پر جل کر راکھ نہیں ہو جاتی یا اسے کوئی اور اچک نہیں لیتا۔ تب تک اس کچھڑی کے اجزا ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہیں گے اور عوام اس امید پر زندگی گزار دیں گے کہ بس کھچڑی پکنے ہی والی ہے۔ شاید یہ امیر خسرو کا کلام ہے جو اس صورتحال کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔

کھیر پکائی جتن سے

چرخا دیا جلا

آیا کتا کھا گیا

تو بیٹھی ڈھول بجا