باجوڑ ایجینسی میں جو واقع پیش آیا ہے اس پر جب حکمرانوں کے بیانات سنے تو ہمیں سلطان راہی اور مصطفٰے قریشی کی فلموں کا زمانہ یاد آگیا۔ یہ بڑھکوں کا دور مولا جٹ سے شروع ہوا اور سلطان راہی کی موت پر ختم ہوا۔ بڑھکیں اب بھی پنجابی فلموں کا ایک اہم حصہ ہیں مگر ان کا معیار پہلے والا نہیں رہا۔

باجوڑ ایجینسی کے واقع پر سب سے پہلی بڑھک پنجاب کے پتر شیخ رشید کی تھی۔ انہوں نے امریکہ کا نام لیۓ بغیر کہا کہ اگر دوبارہ کسی نے ایسی کاروائی کی تو ہم اس کا منہ توڑ دیں گے۔

 یہ تو شیر کو آنکھیں دکھانے والی بات ہوئی اور یہ جرات ہم کیا اس وقت دنیا میں کسی ملک میں نہیں ہے کہ وہ اتحاديوں کا منہ توڑ سکے۔

صدر مشرف نے کہا کہ ہم اس طرح کی دخل اندازی دوبارہ برداشت نہیں کریں گے۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم اس واقع کی بھر پور مزمت کرتے ہیں اور امریکہ سے معافی کی درخواست کریں گے۔

 اب وزیرِ اعظم امریکہ کے دورے پر ہیں اور ہمیں نہیں یقین کہ وہ صدر بش کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس طرح کی بات کہ سکیں۔

مرزا غالب نے شائد اسی موقع کیلۓ کہا تھا

دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا

نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردہء ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

ہم ان بڑھکوں پر صرف یہی کہیں گے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ

حملہ کرنے والے کہتے ہیں کہ ہماری ایجینسیوں کو اس معاملے کی پیشگی اطلاع تھی اس کا مطلب ہے کہ یہ حملہ ایک مشترکہ مشن کا نتیجہ تھا۔ مگر ہم اس گلوبل کمیونیکیشن کے ہوتے ہوۓ ابھی بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم اب بھی لوگوں کو بے وقف بنا سکتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ابھی مزید چند سالوں کی دیر ہے جب موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی ہر گھر ميں ہوگا اور پھر ہم اس طرح کی بڑھکیں نہیں مارسکیں گے اورنہ ہی  لوگوں کو بے وقوف بناسکیں گے۔ وہ دور طاقتور ملکوں کے پروپیگنڈے کا دور ہوگا اور کوئی بھی چھوٹا ملک اس کی زد سے نہیں بچ سکے گا۔ اسی پروپیگنڈے کے بل بوتے پر سپر پاورز بناں جنگ کۓ ان ملکوں کو فتح کرسکیں گی۔