یہ بات امریکہ کو بھی معلوم ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمان امریکہ کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ دنیا کے جتنے بھی حال ہی میں سروے ہوتے رہے ہیں ان میں یہی بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے سوا ارب مسلمانوں کی اکثریت امریکہ کے دوہرے معیار کو پسند نہیں کرتی لیکن مسلمانوں کے ان خیالات کو بدلنے کیلیے امریکہ نے ابھی تک سنجیدگی سے کچھ نہیں کیا اس کی وجہ شاید سوا ارب مسلمانوں کی بے وقعتی ہے۔
ابھی اسی ہفتے جب ڈیموکریٹک امیدوار مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ آئے تو انہوں نے ایک سٹیڈیم میں بیس ہزار کےمجمعے سے خطاب کیا۔ جہاں اوبامہ نے بیٹھنا تھا ان کے پیچھے بیٹھنے کیلیے ان کے سپورٹر مخصوص لوگوں کو دعوت دے رہے تھے۔ جب انہوں نے ایک عرب امریکن گروپ کو دعوت دی تو انہوں حجاب والی دوست کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بھی ان کیساتھ ہے اس پر سپورٹر نے حجاب پر اعتراض کیا اور اسے انکار کر دیا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ دوسری عرب مسلمان عورت کیساتھ پیش آیا۔ دونوں عرب خواتین کو اوبامہ کے پیچھے بٹھانے سے اسلیے انکار کردیا گیا کہ انہوں نے اپنے سر حجاب سے ڈھانپ رکھے تھے اور جواز یہ پیش کیا کہ وہ ٹی وی کیمرے میں اوبامہ کے پیچھے حجاب میں نظر آسکتی تھیں۔
چونکہ اوبامہ کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان کے بیٹے ہیں اور ان کے نام کے درمیان میں حسین آتا ہے اس لیے ان کے سیاسی کارندے نہیں چاہتے تھے کہ حجاب والی عورتوں کو ان کے پیچھا بیٹھا دکھا کر ان کے مسلمانوں کیساتھ کسی تعلق کو مزید تقویت ملے۔ بعد میں ان عورتوں نے ریڈیو اور ٹي وی پر شکایت کی اور اوبامہ کے کیمپ کو معافی مانگنا پڑی۔ کیونکہ اوبامہ کے منشور میں لکھا ہے کہ وہ تمام مذاہب کو ساتھ لیکر چلیں گے اسلئے اس دوہرے معیار پر انہیں خفت اٹھانی پڑی۔ حقیقت میں وہ بھی دوسرے امیدواروں کی طرح یا تو عیسائی اکثریت سے ڈر گئے یا پھر یہودی لابی سے خوف کھا گئے۔ جس طرح مسلمانوں کیخلاف امریکہ میں جان بوجھ کر پچھلے آٹھ سال سے نفرت کی مہم چلائی جارہی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک صدارتی امیدوار جو خود اقلیتی نسل سے تعلق رکھتا ہے مسلمانوں کیساتھ کوئی تعلق جوڑتے ہوئے ڈرتا ہے۔
ہمیں یاد ہے اس سے پہلے ہلری کلنٹن نے اپنی سینٹ کی سیٹ کی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی رقم یہ کہ کر واپس کر دی تھی کہ وہ یہودیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔
یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کا صدر بننے کیلیے ہر آدمی کو یہودیوں سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے کیونکہ میڈیا بھی انہی کا ہے، حکومت میں اثرورسوخ بھی انہی کا ہے اور انتخابی مہم کیلیے فنڈز بھی دل کھول کر مہیا کرتے ہیں۔
عرصہ ہوا امریکہ کی اس منفی سوچ پر کبھی مسلم دنیا سے ردعمل نہیں آیا لیکن کل ایک پاکستانی طالبعلم نے امریکی سفیر سے ہاتھ ملانے اور ایوارڈ لینے سے انکار کرکے سب کو حیران کردیا۔ وہ سیدھا مائیک پر گیا اور اس نے تیس سیکنڈ میں قبائلی علاقے میں امریکہ کے پاکستانی فوج پر حملے اور ایک آمر صدر مشرف کی امریکی حمایت پر احتجاج ریکارڈ کرا کے سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ کہاں دنیا کی بہترین فوج کا کمانڈر جنرل مشرف جس نے ایک فون پر لبیک کہ دیا اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا اور کہاں ایک معمولی سا طالبعلم جس نے سرعام احتجاج ریکارڈ کرا کے بازی جیت لی۔ ہمیں تو اب یہی کھٹکا لگا ہوا ہے کہ کہیں طالبعلم صمد خرم کو بھی جنرل مشرف ڈالروں کے عوض ناں بیچ دیں اور اسے دہشت گرد قرار دے کے کر گوانٹاناموبے پہنچا دیا جائے. اس حادثے کی ویڈیو آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہيں۔
خرم پر جنگ کے انور شعور نے ایک قطعہ لکھا ہے
دے دیا قومی حمیت کا ثبوت
عمر بھر مظبوط و مستحکم رہو
سر ہمارا تم نے اونچا کر دیا
اے صمد خرم، خوش و خرم رہو
ہم پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ دنیا کی ون ففتھ آبادی کو ناراض نہ کرے اور مسلمانوں کیساتھ جنگ کی بجائے مذاکرات کر کے اپنے امیج کو بہتر بنائے۔ یہ مانا کہ یہودی اس وقت دنیا کی معیشت پر قابض ہیں مگر یہ معیشت ڈھیر ہو جائے گی اگر اس معیشت کو سہارا دینے والے سوا ارب مسلمانوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ گاہک ہیں تو کاروبار ہے اگر گاہک ہی نہ رہے تو پھر کاروبار بھی ختم ہو جائیں گے۔
13 users commented in " امریکہ سے نفرت کیوں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہم پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ دنیا کی ون ففتھ آبادی کو ناراض نہ کرے
dunya kee 1/5th abadee bhee to dunyaa kee 4/5th badee ku naraaz na karay aur secualr tarzay amal ikhtiyaar karay takay saaray log araam say reh sakain.
ان خواتین کی نشستیں اوبامہ کے پیچھے نہیں تھیں بلکہ اوبامہ کی کمپین کے لوکل رضاکار کچھ لوگ اکٹھے کر رہے تھے جنہیں ان سیٹوں پر بٹھایا جائے کہ وہ ٹیوی اور تصاویر میں نظر آئیں اور انہوں نے ان خواتین کے ساتھیوں کو دعوت دی مگر ان کو نہ دی۔
ان خواتین نے اوبامہ کمپین سے رابطہ کیا اور کمپین نے ان سے معافی مانگی۔ پریس میں بات بعد میں آئ کیونکہ وہ خواتین چاہتی ہیں کہ کمپین کی بجائے اوبامہ بذاتِ خود انہیں کال کرے اور معافی کے علاوہ انہیں کسی اور جلسے میں ایسی ہی سیٹیں دے۔
سیئیٹل میں ایک ریلی میں پہلے اوبامہ کے پیچھے ٹیوی کوریج میں مسلمان نظر آ چکے ہیں۔ اسی طرح اوبامہ کی ایک تصویر جس میں ایک حجابی لڑکی بھی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ ڈیٹرائٹ ریلی میں رضاکاروں کی غلطی تھی اور کمپین کی یہ پالیسی نہیں ہے۔
جہاں تک یہودیوں کے اثر و رسوخ کی بات ہے آپ اسے کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے فنڈ میں یہودیوںکا حصہ ان کی آبادی کی نسبت زیادہ ہے مگر یہ کہنا کہ زیادہ فنڈ وہی فراہم کرتے ہیں غلط ہے۔
صمد خرم کے گوانتانمو جانے کا کوئ چانس نہیں بلکہ وہ تو ہارورڈ میں کئ سال سے پڑھ رہا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس نے آخر کیا کیا ہے۔ بلاگز پر اس بارے میں پڑھ کر تو یہ لگتا ہے کہ اس نے تقریب میں سفیر سے ایوارڈ لینے سے انکار کیا مگر سکالرشپ شاید اسے مل ہی رہا ہے اور ہارورڈ سے شاید وہ اگلے سال گریجویٹ کرے۔
ہیلری نے جو رقم واپس کی وہ مسلمانوں کے ایسے گروپ کی تھی جو کہ یہودیوں کے خلاف کھلم کھلا بولتا ہے۔ امریکہ میں کھلم کھلا کسی گروہ کو نشانہ بنانہ بری بات سمجھی جاتی ہے۔ یہودیوںاثر رو رسوخ ہو گا لیکن مسلمان اگر پانچ ملین دیتے ہیں تو یہودی پچاس ملین دیں گیں یہودیوں سے کی گئی بات چیت ساری زندگی نہیں سامنے آنی جبکہ مسلمان ہر وقت یہودیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان دے کر ہیلری کی جان عذاب میں ڈالیں رہے گے۔ اب وہ یہ تو کہہ سکتی ہے نہ کہ اس نے ایسا کچھ نہیںکیا۔
جمہوریت اسی کا نام ہے نہ شخصی انسلٹ ملکی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی
دوست جن کو آپ گاہک کہہ رہے ہیں وہ گاہک نہیں بلکہ حاجتمند اور محتاج ہیں یہ کوئی آزاد منڈی تو نہیں کہ جو کچھ چاہا جہاں بیچ دیا اور اس کے بدلے جس سے چاہا خرید لیا!
زیک صاحب
آپ کے تبصرے کے بعد لفظوں کے ہیر پھیر سے پیدا ہونے والے غلط تاثر کو دور کرنے کیلیے اپنی تحریر میںترمیم کردی ہے۔
صمد یا سرمد خرم نے جو کیا وہ کیمرے کی آنکہ قلمبند کر چکی ہے جسے ہمارے دیے گئے یو ٹیوب کے لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔
عمیر صاحب
تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کا شکریہ
رضوان صاحب
آپ کی بات درست ہے مگر حاجتمندی اور محتاجی گاہکی میںبدل سکتی ہے اگر مسلمان آپس میںاتحاد کرلیں اور ان میںتھوڑا شعور پیدا ہو جائے۔
تمیزدار صاحب
آپ کی بات سے ہمیںاتفاق ہے مگر یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا ترقی کیلیے لومڑی جیسی مکاری ضروری ہے۔
لفظ اکلیتی غلط ہے ۔ درست لفظ ہے “اقلیتی“ مائنوریٹی کو اقلیت کہا جاتا ہے
ہمیں آپ سے ایک شکایت ہے – آپ نے مشرف کے بارے میں ُ کہاں دنیا کی بہترین فوج کا کمانڈر جنرل مشرف ، اور سرمد خرم کے بارے ُ کہاں ایک معمولی سا طالبعلم، لکھ کر ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے – اس سے یہ تاثر ملتا ھے کہ جیسے مشرف بڑا غیر معمولی انسان ہو اور جبکہ سرمد خرم کو آپ نے معمولی طالبعلم لکھا ہے – میں سمجھتا ہوں کہ مشرف اور مشرف کے حواری، چمچے ، چیلے ، بینگن ، لفافے اور لوٹوں جیسے چھوٹے انسان شاید ہی پاکستان اور باقی مسلم ممالک میں کبھی اقتدار پہ قابض یا براجمان ہوئے ہوں – ذاتی و قومی ہر قسم کی غیرت و حمیت سے عاری ننگِ ملت و اُمت کبھی غیر معمولی اور بڑے نہیں ہوتے- ان میں جراءت و عظمت کےوہ جراثیم سرے سے ہی عنقا ہوتے ہیں جو قوموں کو درپیش مشکل مرحلات میں فیصلہ کُن ثابت ہوتے ہیں – اس لئے ایسے لوگوں کو ٹھگنے، بالشتیے اور چھوٹے قد کےکہا جاتا ہے اور مستقبل کا مؤرخ اس بات کی تصدیق کرے گا – جبکہ سرمد خرم یا صمد خرم ( ان کا جو بھی نام ہو ) ایسے افراد اپنی ذات میں ملت ہوتے ہیں اور اپنی ذات میں ملت ہونے والے انسان انتہائی ُغیر معمولی، لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے مایوس طبقوں کو امید کی جلا بخشتے ہیں اور باطل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنیوں کا پتہ دیتے ہیں – سوچ کی سمت بتاتے ہیں – اور ایسے لوگ ُمعمولی ، نہیں ہوتے- تاہم اچھا ہوتا کہ آدابِ میزبانی کے پیشِ نظر وہ امریکن سفیر کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے جواب میں آداب کرنے کے بعد اپنے جذبات کے اظہار کے لئیے پوڈیم کا رُخ کرتے اور ایوارڈ نا لینے کی وجہ بیان کرتے-
میں سمجھتا ہوں ایک بات کی وضاحت یہاں ہونی چاھیے کہ ہمیں امریکن عوام سے نہیں بلکہ امریکن حکومت ، حکومتی انتظامیہ اور پالیسی سازوں سے تکلیف ہے اور اس کے لئیے مشرف جیسے بودے اور مطلق العنان آمر حکمران نہیں بلکہ جمہور کے منتخب حکمران اور مقرر کردہ عامل ہی امریکہ جیسے فرعون ممالک سے معامعلات کر سکتے ہیں اس ضمن میں ایک مثال غالبا ایران کی دی جاسکتی ہے-
بد تمیز کی اس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ ھمیں اپنی سوچ اور انداز میں وسعت اور گہرائی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ صالح اعمال اور اخلاص کے بغیر مذھبی تفاخر کا وقت بے وقت اظہار فائدے کی بجائےعموما نقصان دہ ہوتا ہے اور خاصکر غیر مسلم اور متعصب معاشروں میں –
خیر اندیش
جاوید گوندل – بآرسیلونا ؛ اسپین
قدیر صاحب
ہجے کی درستگی کا شکریہ
جاوید صاحب
ہم نے طنز کے طور پر ایسا لکھا تھا وگرنہ آُپ کی بات سو فیصد درست ہے سرمد معمولی آدمی نہیںہے اس نے چوہدری افتخار کی طرح ایک سوچ کو بدلنے کیلیے پہلا پتھر مارا ہے۔ آپ کی اس بات سے بھی ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اسے ہاتھ ضرور ملانا چاہیے تھا لیکن دوسرے طرف ہاتھ نہ ملا کر جو اس نے ملکہ عالیہ کی تذلیل کی وہ شاید انہیں اپنے بارے میںسوچنے پر مزید مجبور کر دے۔
Salam,
Kia likh diaa hai aapney, kah itney sarey log comments likhney agaey hain.
Bhi jan, bohat achaa hogaa agar aap aik page likhdain jahan urdu key pad ho.
Mujhey abhee tak pata nahee chal saka kah baree ‘Yai’ aur chotee ‘hai’ kaisey likhoon.
محترم!
آپ نے آپ نے امریکہ یا امریکن سفیر کا حوالہ دیتے ہوئے غالبا غلطی سے ُمابدولت، لکھ ڈالا ہے جبکہ یہ لفظ اپنے یعنی ُ ہم، یا ُ ہمارے ذریعے سے ، کے لئے استعمال کیا جاتا ہے – ُما، یعنی ُ ہم ، اور ُ بدولت، یعنی ُ ذریعے سے، یہ ُمیں، ُ ہم، ُہمارے ، یا ُہمارے ذریعے سے، کے لیے استعمال ہوتا ہے- تصیح فرمالیں –
——————————————————————————–
ما [ما] (فارسی)
فارسی میں ضمیر شخصی ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور ضمیر شخصی استعمال ہوتا ہے۔ 1892ء میں “مہتاب داغ” میں مستعمل ملتا ہے۔
ضمیر شخصی ( جمع – متکلم )
حالت: فاعلی
1. ہم (جمع متکلم نیز واحد متکلم بھی مستعمل)۔
“اقبال کے ہاں ما اور جمع متکلم کے صیغے بھی ہیں مگر وہ بھی من ہی کی بدلی ہوئی آواز ہے۔” ( 1974ء، مسائل اقبال، 75 )
مترادفات
ہَم اَساں اَسِیں
——————————————————————————–
ما[2] [ما] (فارسی)
ضمیر شخصی
1. ہم (جمع متکلم نیز واحد متکلم بھی مستعمل)۔
انگریزی ترجمہ
we; us; our
——————————————————————————–
بَدَولَت [بَدَو + لَت]
عربی زبان سے ماخوذ اسم ‘دولت’ کے ساتھ فارسی حرف جار ‘ب’ بطور سابقہ لگنے سے ‘بدولت’ مرکب بنا۔ اردو لت میں بطور متعلق فعل مستعمل ہے اور گاہے بطور اسم صفت بھی مستعمل ہے۔ 1836ء میں “ریاض البحر” میں مستعمل ملتا ہے۔
متعلق فعل
1. ذریعے سے، طفیل میں، وجہ سے۔
“کرنل فرینک کی بدولت وہ معاملہ طے ہوا۔” ( 1944ء، افسانچے، 40 )
صفت ذاتی
1. بالذات، بالنفس، اصالۃً ضمیر کے ساتھ مستعمل، جیسے : خود بدولت، مابدولت۔
“مابدولت و اقبال تجھ کو اس کام کے کرنے کے لیے حکم دیتے ہیں۔” ( 1881ء، بحرالفصاحت، 485 )
——————————————————————————–
خیر اندیش
جاوید گوندل – بآرسیلونا، اسپین
گوندل صاحب دوبارہ شکریہ
Leave A Reply