ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلۓ تعلیم کا ہونا ضروری ہے۔ اب پرابلم یہ ہے کہ تعلیم عام کیسے کی جاۓ۔ جیسا کہ حضرت عمر کا قول ہے کہ تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت کے پاس تعلیم عام نہ کرنے کے سو بہانے ہیں۔ سب سے بڑا بہانہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کیلۓ رقم نہیں ہے۔حالانکہ یہ بہانہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔ اصل بہانہ یہ ہے کہ حکومت کے کرتا دھرتا ملک سے مخلص نہیں ہیں اور یہ کسی اور کے ایجینڈے پر کام کر رہے ہیں اور جن کا ٹارگٹ یہی ہےکہ مسلمانوں کو تعلیم سے جتنا ممکن ہو سکے دور رکھا جاۓ اور ان کو ترقی نہ کرنے دی جاۓ۔ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اگر حکومت چاہے تو سب کچھ کر سکتی ہے۔ حکومت کے بہانے کو غلط ثابت کرنے کیلۓ آئیں آج اس بات پر غور کریں کہ تعلیم کیلۓ حکومت رقم کا بندوبست کیسے کرے۔ درج ذیل ممکنہ ذرائع کے ہوتے ہوۓ اگر حکومت تعلیم عام نہیں کرسکتی تو پھر حکومت کی نیت میں خلل ہے۔
١۔ حکومت نے اب تک کتنا تيل مہنگا کيا ہے اور عوام پھر بھي خاموشي سے اس کڑوے گھونٹ کو پي گۓ ہيں۔ اسي طرح اگر حکومت چاہے تو تيل پر ايک روپيہ في لٹر تعليم ٹيکس لگا سکتي ہے ۔ جب تعليم کے نام پر ٹيکس لگايا جاۓ گا تو اميد ہے عوام خوشي سے قبول کرلیں گے۔ ديکھيں ناں حکومت نے تيل مہنگا کيا جب عالمي مارکيٹ ميں تيل مہنگا ہو رہا تھا اور اب جب عالمي مارکيٹ ميں تيل سستا ہو گيا ہے مگر ہم نے تيل سستا نہيں کيا اور نہ ہي کسي نے شور مچايا ہے۔
٢ ۔ جس روڈ پر آپ جائيں آپ کو ٹال پلازہ نظر آئيں گے اور ان کا کنٹرول بھي فوجيوں کے پاس ہو گا۔ اگر آپ لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر کار سے کريں توآپ کو سو دو سوروپے ٹول ٹيکس دينا پڑے گا ۔ اب تک کسي اپوزيشن يا عوام نے اس ٹيکس کے خلاف احتجاج نہيں کيا اور آنکھيں بند کرکے ٹيکس اس لۓ ديۓ جا رہےہيں کيونکہ ان کا خيال ہے کہ اس ٹيکس کي آمدني سڑکوں کي ديکھ بھال پر خرچ ہورہي ہے۔ حالانکہ اندرہي اندر حکومت پتہ نہيں اس کو کہاں کہاں خرچ کر رہي ہے۔ اگر حکومت چاہے تو ہر ٹال پلازہ پر پچيس پيسے في گاڑي يا اس سے زيادہ تعليم ٹيکس لگا کر کافي رقم تعليم کے فروغ کيلۓ اکٹھي کر سکتي ہے۔
٣۔ پرائيويٹ سکولوں کالجوں کا جال بچھا ہوا ہے اور لوگ اس کاروبار سے بے تحاشا پيسہ بنا رہے ہيں۔ اگر يہ لوگ سال کے آخرميں فيسيں بڑھاتے ہيں تو کوئي احتجاج نہيں کرتا اور چپ چاپ ان کي آمدني ميں اضافے کا سبب بنا رہتا ہے۔ حکومت کے پاس يہ طريقہ بھي ہے کہ وہ ان پرائيويٹ تعليمي اداروں پر سو روپے سے پانچ سو روپے في طالبعلم تعليم ٹيکس لگا سکتي ہے اور ہميں يقين ہے کہ کسي کو اس پر کوئي اعتراض نہيں ہوگا۔
٤ ۔ پاکستان ميں سينکڑوں صنعتيں مال پيدا کرکر کے اميروں کے پيٹ بھر رہي ہيں اور حکومت کو يہ امير لوگ ٹيکس بھي پورا نہيں ديتے۔ حکومت يہ بھي کر سکتي ہے کہ في کس صنعت پر تعليمي ٹيکس لگا دے اور اس آمدني سے سکول تعمير کرے۔
٥ ۔ ہمارے ملک ميں وڈيروں، جاگيرداروں اور صنعتکاروں کي کمي نہيں ہے۔ اگر حکومت چاہے تو ان لوگوں کے ذمے ايک سکول في وڈيرہ لگا سکتي ہے۔ اس طرح يہ امير لوگ اپنے اپنے علاقے ميں سکول قائم کريں گے اور تعليم پسماندہ علاقوں ميں بھي پھيلے گي۔
٦ ۔ حکومت اگر چاہے تو چندہ مہم شروع کر سکتي ہے اور ہر وزير کے ذمے ايک مخصوص کوٹہ لگا سکتي ہے۔ اس طرح ہمارے وزير تعليم کيلۓ فنڈ اکٹھے کريں گے اور سکول بنائيں گے۔
٧ ۔ حکومت ايک اور کام يہ کرسکتي ہے کہ ملک ميں لاٹري شروع کرے۔ اس سے پہلے ہلالِ احمر يہ کامياب تجربہ کرکے کافي رقم اکٹھي کر چکي ہے ۔ ہميں اميد ہے کہ لوگ چونکہ تن آسان ہو چکےہيں اسلۓ وہ شارٹ کٹ سے امير بننے کيلۓ ضرور لاٹري کے ٹکٹ خريديں گے اور حکومت کے پاس تعليم کي مد ميں کافي رقم جمع ہع جاۓ گي۔
ان طريقوں کے علاوہ ہماري حکومت کے شاطر گرو اور بہت سارے کام جانتے ہوں گے جن سے رقم اکٹھي کي جاسکتي ہے۔ مگر بات وہيں پہ آکر رکتي ہے کہ حکومت اس معاملے میں مخلص بھي ہے کہ نہيں۔ اگر حکومت مخلص نہ ہو تو پھر ساري تجويزيں بے کار ہيں۔ دوسري طرف اگر حکومت مخلص ہے تو يہ اپنے مارشل لا کے زور پر وہ کچھ کر سکتي ہے جو عام سول حکومت نہيں کر پاۓ گي۔مگر کيا کيا جاۓ جب حکومت کسي بيروني ايجينڈے پر کام کررہي ہو اور اس کا کام ہي ملک کا بيڑہ غرق کرنا ہو تو پھر کچھ بھي نہيں ہو گا۔ ياد رکھيں اگر ابھي تک کسي سابقہ حکومت نے کچھ نہيں کيا تو اس کے پيچھے ضرور کوئي بڑي سازش ہوگي اور يہي سازش اس حکومت کو کچھ بھي نہيں کرنے دے رہي۔