ممبئی میں پچھلے تین روز سے جو دہشت گردی کی لہر آئی وہ انتہائی منظم اور کسی تربیت یافتہ گروپ کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ لیکن حیرانی والی بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد فائیو سٹار ہوٹلوں میں سخت سکیورٹی کے باوجود گھس کیسے گئے۔ پاکستان میں پچھلے دنوں جو میریٹ ہوٹل پر حملہ ہوا وہ بھی گیٹ پر ہوا اور ٹرک کو اندر نہیں گھسنے دیا گیا۔ اسی طرح پچھلے سال ہم جب بھی میریٹ، پرل کانٹینیٹل اور مرینا ہوٹل گئے ہماری گاڑی کی مکمل تلاشی لی جاتی رہی اور ہمیں بھی باقاعدہ میٹل ڈیٹیکٹر کیساتھ چیک کیا گیا۔ مگر لگتا ہے ممبئی میں ایسی کوئی چیکنگ نہیں ہو رہی تھی۔
دنیا سے ایسی دہشتگردی ختم کرنے کیلیے ہمیں انگلینڈ کی تقلید کرنی پڑے گی جس نے کئی دہائیوں پرانی آئرلینڈ میں جاری دہشت گردی مذاکرات کے ذریعے ختم کر دی۔ اگر بھارت، پاکستان، امریکہ، افغانستان چاہیں تو یہ دہشت گردی دنوں میں ختم ہو سکتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر سیاسی فائدے اٹھانے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں کی اصل وجہ کوئی بھی جاننے کی کوشش نہیں کر رہا اور سب بناں سوچے سمجھے ایک دوسرے پر الزامات لگا دیتے ہیں۔
پاکستان نے پچھلے چند سالوں میں جس قدر بھارت کی چاپلوسی کی ہے اس سے تو یہ سوچنا ہی فضول ہو گا کہ ممبئی کی دہشت گردی میں پاکستان کی آئی ایس آئی ملوث ہو گی۔ ہمارے حکمران تو اس وقت یکطرفہ طور پر بھارت کی ہر بات مان رہے ہیں۔ خسارہ ہونے کے باوجود پاکستان بھارت کیساتھ تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا ہے اس کے باوجود پاکستان نے بھارت کیساتھ تعلقات دوستوں کی طرح بنائے رکھے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں قدم جما کر پاکستان کیخلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہوا ہے پاکستان نے پھر بھی افغانستان میں اتحادیوں کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ اپنے علاقوں میں اپنے ہی لوگوں پر بمباری ہوتے دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کی اس قدر فراخدلی کے باوجود اگر اس پر موجودہ دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے تو یہ سیاسی سٹنٹ ہی لگتا ہے اور اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کو اپنے عوام کی نہیں اپنی سیاسی زندگی کی زیادہ فکر ہے۔ اب یہی باقی بچا ہے کہ پاکستان اتحادیوں کیساتھ ساتھ بھارت کو بھی اپنے علاقوں پر بمباری کی اجازت دے دے تاکہ وہ بھی اپنا شوق پورا کر لے۔ اس کے علاوہ تو بھارت کو دوستی پر قائل کرنا اب کافی مشکل نظر آ رہا ہے۔
7 users commented in " ممبئی دھماکے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackممبئ دھماکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کیا چاھتے ہیں دشمن
ہیمنت کرکرے جو کہ جانچ کر رہے تھے مالیگاؤں بم دھماکوں کی انکو تین دن پہلے جان سے مارنے کی دھمکی ملتی ہے ہیمنت کرکرے کو شاید آپ جانتے ہی ہونگے یہی وہ افسر تھے جو ہندو دہشتگردوں کے خلاف مورچا کھولے ہوے تھے اور ایک ایک کرکے انکے خلاف سارے ثبوتوں کو منظر عام پر لا رہے تھے یہ دیکھکر سارے کے سارے ہندو دہشت گرد تنظیموں کے ہوش اڑ رہے تھے کہ ہاے اب کیا ہوگا ہندو مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا منصوبہ تار تار ہوتانظر آرہا تھا یہودی سربراہ کی طرف سے سجھائ گئ ترکیب ناکام ثابت ہو رہی ےتھی اور ہندو مسلمانوں میں کشیدگی بڑھنے کے بجائے وہ ایک ساتھ ہی دہشت گردوں کے خلاف جلوس نکال رہے تھے اور جمیعۃعلماء کی طرف سے دہشتگردی مخالف کانفرینس بھی خوب مقبول ہو رہی تھی ایسے میں یہودیوں اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے بیچ یہ قرار پایا کہ اب چھوٹے موٹے ڈراموں سے کام نہیں چلنے والا ہے اب ایک بڑا ڈرامہ کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ کام شروع ہو گیا اور جنرل پروہت جیسے ہی کسی غدار پولس افسر کے ساتھ ملکر گولہ بارود ان ہوٹلوں کے کمرےمیں بھر دیا گیا اور پھر شروع ہو گیا ناٹک اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو آنن فانن میں حالات پر قابو پانے کے لئے موقع واردات پر جانے کو کہا گیا لیکن انہین کیا معلوم تھا انکے خلاف ایک سازش رچی جا چکی ہے اور انکو سنبھلنے کا موقع تک نہیں ملیگا چنانچہ وہ جیسے ہی اپنے ساتھی افسر کے ساتھ کاما ہسپتال کے پاس اپنی گاڑی کو روکتے ہین ویسے ہی ایک پہلے سے تیار ایک دہشتگرد انکے پاسبہت ہی تیزی سے دوڑا ہوا آتا ہے اور انکے اوپر گولیوں کی بارش کر دیتا ہے انکو بلکل بھی سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا تابڑتوڑ فایرنگ سے گھایل ہوکر ہیمنت کرکرے دم توڑ دیتے ہیں اور دہشت گرد اسکا جشن مناتے ہیں اور اپنی کامیابی پر خوش ہو کر ہوٹلووں میں بموں اور گولیوں کی برسات کرنے لگتے ہیں اور اپنے یہ ناٹک آگے بڑھاتے ہیں دہشت گردی کی گند ی مثال پیش کرتے ہوئے بیقصوروں کو پھر سے مارنا شروع کر دیتے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہین تاکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے اپنے اس مشن کو آگے بڑھایا جاتا ہے ہوٹل میںبند سارے دہشت گردوں کوآسانی سے قیدی بنا کر دھیرے دھیرے باہر نکالا جاتا ہے اور ہوٹل میں پھنسے مسلمانوں کو آتنکوادی بتا کر پکڑ لیا جاتا ہے اور ایک بار پھر الام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گندی سازش رچی جاتی ہے کہ دیکھو اسلام کیسا مذہب ہے جو بے قصورون کو مارنے کو کہتا ہے مسلمان بیقصوروںکو مارتے ہیں لہذیٰ انکو بھی مارا جانا چاہئے مسلمان خطرہ ہیں لہذیٰ اب جبکہ آپریشن ختم ہو چکا ہے مسلمانوں کےتازے زخموں پر پھر سے نمک پاشی کا کام کیا جائگا اور اور پھر سے بھارت کے مسلمان ظلم و ستم کے اس مکروہ چہرہ کے دیکھنے کو مجبور ہونگے جس کو وہ آزادی ء ہند کے بعد سے ہی دیکھتے آ رہے ہیں
اور ان میڈیا والوں کا کردار بڑا مشکوک رہا اس پوری واردات کے اندر میڈیا نے جس طرح کی غیر ذمہ دارانہ رویے کو اپنایا وہ بہت ہی قابل مذمت ہے بھارت کی ایک عدالت ایک مرتبہ کہ بھی چکی ہے کہ میڈیا صرف اپنی حدود کے اندر ہی کام کرے لیکن دیکھا گیا کہ ایک طرف تو جانچ ایجینسیوں کے سربراہ اس معاملہ پر کچھ بھی کہنے اور کسی پر الزام تراشی سے گریز کر رہے تھے اور بغیر جانچ کے کچھ بھی کہنے اور کسی پر الزام رکھنے کو تیار نہیں تھے لیکن بعج میڈیا چینل اس پورے واقعہ کی تفتیش کے ساتھ یہ پوری سازیش کس طرح رچی گئ اور اس کے اندر پہلے سے کس طرح سے کیا کچھ تیاریان کیسے اور کب کی گیں ایک چینل بتا رہا تھا کہ کچھ مہمان ہوٹل کے کسی کمرے میں آکر رکے اور انسے ملنے کچھ لڑکے روزانہ آتے تھے اور اپنے ساتھ بڑے بڑے بیگ لاتے تھے اس طرھ سے انہون نے ا کمرے کے اند کافی مقدار میں بیگ اکٹھا کر لیے جنکے اندر گولہ بارود اور گرینیڈ اور رائفلیں بھری ہوئ تھیں
اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر روزانہ وہ لوگ اسلحہ سے بھری بیگوں کے ساتھ ہوتل مین گھس جاتے تھے تو اس وقت ہوٹل کے باہر کی سخت چیکنگ سے انکو کس طرح نکال دیا جاتا تھا آخر اتنا اسلحہ بیگون میں بھر کر ہوٹل کے اندر اگر اس طرح سے پہنچایا گیا تو کم از کم ایک دو بیگ سیکیورٹی گارڈس کے ہاتھ لگنے چاہیئے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ۔۔۔۔ خیر۔
اس سے پہلے چینل والے یہ بتا رہے تھے کہ آتنکوادی سمندر کے راستے ایک بوٹ میں بیٹھ کر آئے اورانکے پاس بڑے بڑے بیگ تھے جنکے اندر تمام طرح کا اسلحہ موجود تھا وہ بوت سے اٹرتے ہی ٹیکسی میں سوار ہو کر الگ الگ راستوں پر چل پڑے او اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے اوبرائے ہوٹل تاج محل ہوٹل اور نریمن ہاؤس پہنچ گئے اور اپنا مشن شروع کر دیا
اور بہت ساری جانکاریاں جو اس چینل والے اس طرح بتا رہے ہین گویا ان سب کچھ پہلے ہی معلوم تھا یا پھر انکی خفیہ آنکھین پہلے سے ہی اس پر نگاہیں رکھے ہوئے تھی ان ٹی وی چینلون کا کردار دیکھ کر کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ساری خفیہ ایجینسیوں کو ختم کرکے ساری جانچ کا ذمہ انہی جانچ ایجینسیون کو سونپ دیا جان چاہیئے اس سے کافی رقم بھی بچیگی جو کہ خواہم خواہ ہی خرچ کرنی پڑتی ہے لیکن کیا کہیں کل ملا کر اس پورے سانحے پر اور بھارت کے کردار پر پاکستان کے کردار پر یہودیت کے کردار پر عیسائت کے کردار پر یہ ایک سازش ہے جو کہ اتنے بڑے سکسیسفل ناٹک کی شکل مین ہمارے سامنے ہے اب کیا کہیں ۔۔۔۔۔۔
لب کچھ نہ کہین تو اچھا ہے یہ چپ ہی رہیں تو اچھا ہے
اس آگ اگلتی دنیا میں نہ جانے کون سچا تھا
ممبی دھماکوں میں ملوث جو بھی ہو بہارت کے پاکستان پر الزام لگانے کے پیچھے دیگر مقاصد پوشیدہ ہیں جن میں سرفہرست امریکہ کا پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی قرار دینا ہے اس سے پاکستانی حکمران اگر ہوش سے کام لیے تو امریکہ کے غیر نیٹو اتحادی بن کر اپنی دفاعی ضروریات آسانی سے حاصل کر سکتا ہے ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان کو دفاعی فائدہ ہونے کا امکان ہوا ہے وہاں بھارت نے ایسے ہے پروپیگنڈے کرکے پاکستان کو دنیا کے سامنے جنوبی ایشیا میں ایک شرانگیز ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اب بھی پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی ہونا ہی بھارت کے حلق کا کانٹا بن گیا ہے جسے نکالنے کے لیے وہ پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے
اس سے پہلے بھی بھارت میں ہونے والے دہماکوں کا الزام بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کمال ڈھٹائی سے۔ پاکستان اور بھارت میں بسنے والے بیچارے مسلمانوں پہ لگاتا رہا ہے اور بھارتی اینجنسیوں کو بھارتی مظلوم مسلمانوں پہ ظلم و تشدد کرنے کا آسان بہانہ مل جاتا رہا ہے۔ خواہ وہ مالیگاؤں دہماکے ہوں کہ جس میں مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی یا خواہ وہ پاکستانی ٹرین کو بھارتی حدود میں پاکستانی مسافروں سمیت جلا دینے والا دہشت ناک واقعہ ہو جس میں پاکستانی مسافروں کو باہر سے بند کر کے زندہ جلا دیا گیا۔ ہر صورت میں بھارت کی تان مظلوم بھارتی مسلمانوں پہ اور پاکستان کی ایجنسیوں پر آکر ٹوٹتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب بھی کبھی کسی قابل ذکر غیر ملکی شخصیت نے کشمیر وغیرہ کے موضوع پر بھارت کا دورہ کیا تب بھی وادی کشمیر میں پر اسرار طریقے سے کچھ ھندو مزدور یا سکھ مار دیے جاتے ہیں اور سارا الزام کشمیری مسلمانوں پہ عائد کر دیا جاتا ہے۔ اور طرف تماشہ یہ ہے کی مغرب و امریکہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش رہتا ہے۔ جبکہ کہ پاکستان کو رگیدنے کا کوئی موقعہ خالی نہیں جانے دیتا۔ بھارت سرکار کا آئے دن اس طرح کے ڈرامے کرنا معمول کی بات ہے۔ یہ ڈرامہ جس طرح بھارت کہتا ہے اگر پاکستان میں تشکیل دیا گیا ہوتا تو کیا ڈرامے کے ھدایت کار اتنے ہی وقوف تھے کہ وہ پاکستانی تجارتی بحری جہازوں کو اس مقصد کے لئیے استعمال کرتے۔؟ اور اپنے جہازوں کو بھارتی پانیوں سے نکل آنے سے پہلے اس طرح کی کاروائی کا آغاز کرتے ۔؟؟
اتنی آسانی سے پاکستان پہ الزام لگا کر دہمکی دینی بھی اتنی ہی قابل مذمت ہے جتنی دہشت گردی کی یہ واردات۔ اب پاکستان اتنا بھی تر نوالہ نہیں کہ جس کسی کا دل چاہے منۃ اٹھا کر دہمکیاں دینی شروع کر دے۔
جو بھی بے گناہ لوگ اس دہشت گردی میں مارے گئے ہم ان کے درد میں برابر کے شامل ہیں اور دہشت گردی کی اس واردات کی مذمت کرتے ہیں۔ بلکہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ مگر وہیں ہم بھارت سرکار سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات، قبائیلی علاقوں۔ اور پاکستان میں جاری حالیہ دہشت گردی کی نہ صرف مذمت کرے بلکہ افغانستان کے اندر پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ قائم کیے گیے اپنے لاتعداد قونصل خانوں کے زیر نگرانی چلنے والے دہشت گردی کے کیمپوں کے بارے میں وضاحت بھی کرے اور وہاں سے پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی بھی بند کرے۔ اور پاکستان کو دہمکیاں دینے سے بھی باز رہے۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
ارے بھائ جی امریکا اور یہودیوں کا ہی تو ناٹک ہے افغانستان میں منہ کی کھانے کے بعد پاکستان کو برباد کرنےاوراس پر حملہ کا جواز حاصل کرنے کو کچھ تو ناٹک ضروری ہی تھا تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان بڑا خطرناک ملک ہے اور اس پر حملہ کرکے اسے قابو کرنا ضروری ہے ابھی تک پاکستان کے ھیجڑے پاکستان پریمیوں کو پکڑ پکڑ کر دے ہی رہے تھے اور ان میں واضح کر چکے ہیں اور امریکا جی ولڈ ٹی سی ناٹک کے بعد پاکستان کوکمزورکرنے میں لگے ہی ہوۓ ہیں تاکہ آنےوالی جنگ میں پاک پر آسانی سے قبضہ کیا جا سکےاور پاکستان کے کایر حکمران کسی کام کے نہیں یہ خود ہی امریکا جی کے کرم اور نظرعنایت سے اقتدارکی چسکی لےرھے ہیں وہ امریکا کی اور یہودیوں کی نمک حرامی کبھی نہ کرینگے
انگریزوں نے دہشت گردے سے چھٹکارا جس طریقے سے پایا وہ ایک دماغ رکھنے والی قوم ہی کر سکتی ہے۔ باقی جن کا آپ نے ذکر کیا انکے لئے مشورہ بیکار ہے
Leave A Reply