يہ بيماري پاکستان جيسے غريب ملکوں ميں گندگي اور کرپش کي وجہ سے تيزي سے پھيل رہي ہے۔ اس وقت ہمارے ملک ميں اگر ہر گھر ميں نہيں تو کم از کم ہر خاندان ميں ايک يا دو اشخاص اس بيماري کا شکار ہیں۔

جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ يہ بيماري دھول مٹي کھانے، گندہ پاني پينے، بيمار خون لگوانے اور استعمال شدہ سرنجوں کے دوبارہ استعمال سے لگتي ہے۔

 ہمارے ملک ميں پينے کا صاف پاني ميسر نہيں ہے اور لوگ جوہڑوں کے پاني کو استعمال کر کے اس بيماري کو گلے لگا ليتے ہيں۔ حکومت نے وعدہ کررکھا ہےکہ وہ اس سال کے آخر ميں ہر شہري کو پينے کا صاف پاني مہيا کرے گي مگر يہ وعدہ اتنا بڑا ہے کہ اس حکومت کے بس کي بات نہيں لگتي پھر بھي ہم نيک گمان کرتےہوۓ  اس وعدے پر يقين کرليتے ہيں۔

ہمارے ہاں جب خون کي ضرورت پڑتي ہے تو کوئي يہ بھي چيک نہيں کرتا کہ خون بيچنے والا کسي بيماري کا شکار تو نہيں ہے۔ کہتے ہيں کہ اس بيماري کے شکار کے خون کا ايک قطرہ بھي آپ کے خون کو مس کرجاۓ تو آپ اس بيماري کا شکار ہوسکتے ہيں۔ ہمارے ايک عزيز کے بقول ان کے بھائي سرجن تھے۔ ايک دن انہوں نے جب ہيپاٹائٹس والے شخص کا آپريشن کيا تو آپريشن کے دوران ان کي انگلي پر کٹ آ گيا اور مريض کا خون ان کے خون کے ساتھ مکس ہوگيا۔ اسي دن انہوں نے کہ ديا کہ اب ان کو يہ بيماري لگ جاۓ گي۔ واقعي وہ ہيپاٹائٹس کے مريض ہوگۓ اور دو سال کے اندر اندر اللہ کو پيارے ہوگۓ۔

ہمارے ملک ميں استعمال شدہ سرنجوں کو لوگ دوبارہ دھو کر پيک کرتےہيں اور پھر مارکيٹ ميں بيچ ديتے ہيں۔ يہ سرنجيں اس بيماري کے شکار لوگوں کي بھي ہوتي ہيں اور نشئ بھي انہي سرنجوں سے ڈرگ ليتے ہيں۔ يہ بہت ہي خطرناک کاروبار ہے جس سے حکومت آنکھيں چراۓ بيٹھي ہے اور اس کي وجہ سے بھي بہت سارے لوگ اس بيماري کا شکار ہو رہے ہيں۔

ہماري حکومت تو اس قابل ہے نہيں کہ وہ اس موضي بيماري کي روک تھام کيلۓ خصوصي اقدامات کرے۔ يہ ہم خود ہي ہيں جو اپنا خيال رکھ سکتے ہيں ۔ يہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بيماري کي انفارميشن عام آدمي تک پہنچائيں اور اس سے بچنے کي تدابير بھي ان کو بتائيں۔ اگر اس بيماري کي روک تھام اب نہ کي گئ تو يہ ايڈز سے بھي زيادہ خطرناک ثابت ہو سکتي ہے۔