ہم اب تک مولانا طاہر القادری کو ان کی دینی خدمات کی وجہ سے شک کا فائدہ دیتے آ رہے تھے مگر جب پاکستانی کالم نگاروں کی اکثریت نے ان کے متضاد بیانات کے حوالے دینے شروع کیے تو ہمیں اس گمان سے باہر نکلنا پڑا۔ ان کے اپنے بیان سے پھرنے کی دو چار مثالیں تو ہم نے پچھلے ہفتے ہی دیکھ لی ہیں۔ ایک وقت وہ کہتے ہیں کہ وہ عبوری حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں مگر بعد میں انکاری ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت میں وہ جلسے میں تین مشکل ترین ٹارگٹ سیٹ کرتے ہیں مگر بعد میں وہ صرف اور صرف عبوری حکومت کیلیے فوج اور عدلیہ کے مشورے تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ان کے متضاد بیانات کی ایک ویڈیو بھی آج کل میڈیا پر چل رہی ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ ویڈیو سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی ہے۔
مولانا کو مشرف دور کے انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست اور سیاست سے توبہ کرنے سے سبق حاصل کر لینا چاہیے تھا۔ بہتر ہوتا اگر وہ خود کو دینی تبلیغ تک ہی محدود رکھتے۔ اچھی بھلی ان کی عزت تھی اور بے شمار ان کے چاہنے والے تھے تو پھر کیا ضرورت تھی سیاست کے کانٹوں بھرے میدان میں دوبارہ قدم رکھنے کی۔ اب ہر کوئی مولانا کو سرعام جھوٹا اور بات کر کے مکرنے والا کہہ رہا ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے ایک ایسی سیکولر جماعت سے اتحاد کر لیا جس کی خودغرضی دیکھیے پچھلے بیس سالوں سے وہ ہر حکومت کا حصہ چلی آ رہی ہے۔ الطاف حسین اور طاہرالقادری میں صرف اور صرف یہی قدر مشترک ہے کہ وہ دونوں ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لے چکے ہیں اور پھر بھی بضد ہیں کہ وہ پاکستان کیلیے جیتے مرتے ہیں۔