ڈھاکا سارک کانفرنس دو دن کي تقريروں کے بعد ختم ہوگئ۔ اس دفعہ بھي شوآف کے علاوہ کسي واضح پروگرام پر سمجھوتہ نہ ہوسکااور صرف باتوں ميں ہي سارے مسائل حل کرنے کي کوشش کي گئ۔ اس کانفرنس کي کارکردگي کچھ يوں رہي۔
١۔ قدرتي آفات کي روک تھام کيلۓ سينٹر قائم کرنے اورمشترکہ حکمتِ عملي پر اتفاق
٢۔ علاقائي تعاون بڑھانے پر اتفاق
٣۔ آئندہ دس برسوں کو غربت کے خاتمے کا عشرہ قرار ديا جاۓ
٤۔ عوام کا معيارِ زندگي بلند کرنے کيلۓ سفارشات تيار
٥۔ تجارت، سرمايہ کاري اور انساني وسائل کي ترقي پر زور ديا گيا
٦۔ قدرتي آفات سے نمٹنے، توانائي، ماحوليات کے تحفط اور دہشت گردي کے خاتمے کيلۓ تعاون پر اتفاق
اگر ہم کانفرنس کي کارکردگي پر غور کريں تو سواۓ وعدے وعيد کے عملي طور پر کچھ نہيں ہوا۔ تمام سربراہوں نے اپنا فلسفہ جھاڑا اور کسي نے بھي کسي معاہدے پر دستخط نہيں کۓ۔
سب سے بڑا تير يہ مارا گيا کہ افغانستان کو رکنيت دي گئ اور چين کو مبصر کے طور پر شامل کيا گيا۔
اس کے علاوہ دہشت گردي کا ڈھنڈورا پيٹا گيا۔ نہ کوئي عملي قدم اٹھايا گيا اور نہ کسي نے کچھ کرکے دکھايا۔
جب سے يہ تنظيم قائم ہوئي ہے اسي طرح کے وعدے کۓ جاتے ہيں اور پھر سربراہ اپنے اپنے ملکوں ميں واپس جا کر سب کچھ بھول جاتے ہيں اور اگلي کانفرنس سے پہلے ايک تقرير لکھ کر لے آتے ہيں۔ چاہۓ تو يہ تھا کہ کچھ کر کے دکھايا جاتا۔ قدرتي آفات سے بچنے کيلۓ عملي اقدامات کۓ جاتے اور ان کيلۓ فنڈ قائم کيا جاتا۔ اسي طرح غربت کے خاتمے کيلۓ بھي عملي اقدامات کۓ جاتے اور معاہدے ہوتے۔ مگر کيا کريں سارے سربراہ امير لوگ تھے جن کا غريبوں کے مسائل سے دور کا بھي واسطہ نہيں ہے۔ وہ غربت کيا دور کريں گے۔
غربت دور ہوني ہے تو غريبوں کي کوششوں سے ہي دور ہوني ہے۔ وقت نے يہي ثابت کيا ہے کہ کوئي تمہارے لۓ کچھ نہيں کرے گا اور جو کرنا ہے خود ہي کرناہے۔