قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کا مندرجہ ذیل واقعہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں نہیں لکھا۔ یہ واقعہ انہوں نے مشہور مصنف نسیم حجازی کو سنایا۔ نسیم حجازی نے ہمارے دوست کو اور ہمارے دوست نے ہمیں۔ [اس پوسٹ کے چھپنے کے بعد ہمارے بلاگرز احباب نے بتایا کہ یہ واقعہ شہاب نامہ میں درج ہے۔ اسلیے ہم اپنے دوست کی بات پر بناں تصدیق کیے یقین کرنے پر معذرت چاہتے ہیں]۔

قدرت اللہ شہاب ریٹائرمنٹ کے بعد یونیسیف میں ملازم ہوگئے۔ یونیسیف والوں کو معلوم ہوا کہ ان کی امداد سے چلنے والے اسرائیلی سکول بچوں کو تعصب سے بھرپور تعلیم دے رہے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کیخلاف۔ شہاب صاحب کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ اسرائیل کا دورہ کریں اور شواہد اکٹھے کرکے لائیں۔ شہاب صاحب کو پاسپورٹ ایرانی حکومت نے بنادیا کیونکہ ان دنوں ایران کے اسرائیل کیساتھ اچھے تعلقات تھے۔ شہاب صاحب کو اسرائیل میں ایک ٹیکسی ڈائیور دے دیا گیا جو انہیں ایک سکول سے دوسرے سکول لیے پھرتا رہا۔ آخری دن جب ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں ایئرپورٹ پر اتارا تو شہاب صاحب نے ٹیکسی ڈرئیور کی اچھی سروس کے بدلے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے سکے تھے اسے ٹپ دے دی۔ ڈرائیور نے وہ سکے اپنے جیب میں ڈالے اور رخصت ہوگیا۔

کچھ عرصے بعد جب انگلینڈ میں انہیں ایک کروڑ پتی عرب ملا اور بتایا کہ اس کے پاس ان کی امانت ہے اور وہ کافی عرصے سے انہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ اس نے جیب سے بلینک چیک نکالا اور شہاب صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے اس میں رقم لکھ لیجیے گا۔ شہاب صاحب نے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ امیر عرب نے بتایا کہ وہ اس ٹیکسی ڈرئیور کا باپ ہے جو انہیں اسرائیل میں ملا تھا۔ اس کا بیٹا سرطان کے مرض میں مبتلا ہوکر مر گیا اور اس نے نصیحت کی تھی کہ اس کی جمع پونجی آپ کو دے دی جائے۔ شہاب صاحب کو وہ واقعہ یاد آگیا جب انہوں نے بڑی نخوت سے ریزگاری اس ٹیکسی ڈائیور کو دی تھی اور اس نے بناں چوں چراں کیے رکھ لی تھی۔

اسی دوران شہاب صاحب کی ملاقات سعودی سفیر سے طے ہوئی۔ ان دنوں شہاب صاحب کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ اسلیے وہ سفیر کو ایک مناسب سے ریسٹورینٹ میں لے گئے اور اسے چائے پلائی۔ جب رقم ادا کرنے کی باری آئی تو شہاب صاحب کے پاس ریزگاری کم پڑگئ۔ انہوں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں تو انہیں وہی بلینک چیک مل گیا۔ انہوں نے اس چیک پر بقایا رقم لکھی اور بہرے کو تھما دیا۔