کل رات سندھ کے وزیرِداخلہ کے گھر کے باہر مظاہرہ کرنے والے آرکیٹیکٹ ثمر علی خان کو پولیس نے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔ اس پر مقدمہ بھی شراب پی کر امن عامہ خراب کرنے کا قائم کیا گیا۔ جیو کیساتھ ثمرعلی خان نے ہوش و ہواس میں انٹرویو دیا اور وہ بالکل نشے میں دھت نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ بقول اس کے وہ ایک سماجی کارکن ہے۔ اس کا اپنا سستا تندور ہے اور وہ انصاف ویلفیئر ٹرسٹ کا چیئرمین بھی ہے۔

ہو سکتا ہے پولیسیوں کی بات درست ہو  یعنی احتجاج کرنے والا شراب کے نشے میں دھت تھا کیونکہ عام آدمی جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہے وہ  آج کل جنرل بشرف کے قول کے مطابق پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ یہ کوئی سر پھرا ہی ہو گا جو غریبوں کی بہتری کیلیے کسی وزیر کے گھر کے سامنے مظاہرہ کرنے نکل پڑے گا۔ بہرحال پولیس کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اب ملک میں مارشل لا نہیں ہے بلکہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں پرامن احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے۔ واہ ری پولیس تو کب سدھرے گی۔

ثمر علی خان بھولا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ حکمران جب اپنے وقت کے معروف سیاسی مخالفین کو بھینس چوری اور کلاشنکوف کے جرم میں سزا دلوا سکتے ہیں تو پھر وہ کس کھیت کی مولی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مظاہرین کا ہجوم اگر اب تک حکمرانوں کو ٹس سے مس نہیں کر سکا تو پھر وہ اکیلا ان کا کیا بگاڑ لے گا۔

ہم وزیرِداخلہ سندھ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ثمر علی خان کا نہ صرف مقدمہ ختم کر دیں گے بلکہ اسے اپنے دفتر میں بلا کر اس کی فریاد بھی سنیں گے۔