جنگ کی تازہ خبر ہے کہ پی آئی اے کا طیارہ جو ٹورانٹو ایئرپورٹ پر مرمت کیلۓ کھڑا تھا اور جب مرمت کے بعد اس کی پرواز کی باری آئی تو مسافروں نے دیکھا کہ اس کے کپتان عامر اور گبول شراب کے نشے میں دھت ایئرپورٹ میں داخل ہورہے ہیں۔ مسافروں نے کپتانوں کو شراب کی حالت میں دیکھ کر طیارے میں سوار ہونےسے انکار کردیا اور پرواز ایک روز کیلۓ مؤخر کردی گئ۔ معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے نے فوری ایکشن لیتے ہوۓ دونوں شرابی کپتانوں کو معطل کردیا ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیا پاس ہونے والا حقوقِ نسواں بل ان مردوں کیلۓ چھوٹ فراہم کرتا ہے۔ اور اگر کوئی چھوٹ نہیں ہے تو پھراتنے زیادہ گواہوں اور پکے ثبوتوں کے بعد کیا حکومتِ پاکستان ان کپتانوں پر حد جاری کرے گی ۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت ایک اسلامی حکومت ہونے کے ناطے ان کپتانوں پر حد جاری کرے اور انہیں سرِ عام کوڑے مارے تاکہ  دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ شراب پی کر جہاز اڑانے کی کوشش نہ کریں تاکہ معصوم مسافروں کی جانیں محفوظ رہ سکیں۔

ہوسکتا ہے کہ حکومت یہ سوچ کر کوئی قدم نہ اٹھاۓ کہ جرم پاکستان کی سرزمین پر نہیں بلکہ باہر ہوا ہے۔ حکومت یہ بھی سوچ سکتی ہے کہ اگر اسی طرح اس نے کپتانوں پر فردِ جرم عائد کرنا شروع کردی تو پھر جہاز اڑانے والا کوئی نہ بچے گا۔

لوگ بھی بیوقوف تھے جنہوں نے شراب میں دھت کپتانوں کیساتھ جہاز میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔ شرابی کپتان ہوسکتا ہے ان کے سفر کو خوشگوار بنانے کیلۓ زیادہ تفریح مہیا کرتے بلکہ خود ہی جہاز میں مسافروں کے سامنے امیتابھ کی فلم شرابی کا گیت سنانا شروع کردیتے۔