اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا ہے کہ قابض جگہوں پر مساجد کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ اس کیساتھ انہوں نے حکومت کے روشن خیالی کے نظریے کو بھی اسلام سے متصادم قرار نہیں دیا۔

ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر صاحب کا بیک گراؤنڈ کیا ہے اور ان کی اسلام پر کیا اتھارٹی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ بھی اسی پاکستانی قانون کی بات کررہے ہیں جو برطانوی راج کی باقیات میں سے ایک ہے۔ یہ قانون موم کی ناک کی طرح ہے جسے جب حکومت چاہے ایک آرڈینینس کی ہتھوڑے سے توڑ مروڑ سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جس کی اسلام کیلیے خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں ایک حکومتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی میعاد حکومت نے کم کرکے تین سال کردی ہوئی ہے اور یہ میعاد اب ختم ہونے والی ہے۔ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب نے بناں سوچے سمجھے ایک درباری ملا کی حیثیت سے یہ بیان داغ دیا ہے تاکہ وہ اگلے تین سالوں کیلیے دوبارہ منتخب ہوسکیں۔ حالانکہ انہیں بیان دینے سے پہلے مساجد کے قانونی اور غیرقانونی ہونے کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا اور یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ جو قانون مساجد پر لاگو ہورہا ہے کیا وہی قانون دوسری جگہوں پر بھی لاگو ہے۔

اس بیان کا ٹارگٹ اسلام آباد کی لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ اور وہ مساجد ہیں جن کو حکومت یا تو شہید کرچکی ہے یا ان کو نوٹس بھجوا چکی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو بیان دینے سے پہلے ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ اگر مساجد غیرقانونی بھی ہیں تب بھی یہ کسی کے ذاتی مفاد کیلیے تعمیر نہیں کی گئیں بلکہ خلق خدا کی سہولت کیلیے بنائی گئ ہیں تاکہ لوگ یہاں پر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں بے تحاشا ایسی املاک ہیں جو غیرقانونی ہیں جو ذاتی ملکیت ہیں مگر حکومت ان کو گرانے کی بات نہیں کرتی ۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہئے تھا کہ انصاف سے کام لیتے اور کہتے کہ اسلام آباد میں قبضہ گروپ کی تمام املاک غیرقانونی ہیں اور حکومت ایک جیسا سب کیساتھ برتاؤ کرے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد کی فیصل مسجد میں سابق جنرل ضیا کی قبر کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ یہ غیر قانونی عمل اسلیے قانونی ہے کیونکہ حکومت وقت نے اس کی اجازت دی تھی۔ اگر ایک جنرل کی صرف بتیسی دفن کرنے کیلیے حکومت مسجد کی جگہ پر قبضہ کرکے اسے قانون کے دائرے میں لاسکتی ہے تو پھر قبضہ کی زمین پر غیرقانونی مساجد کو قانونی کیوں نہیں بنا سکتی۔ مزے والی بات یہ ہےکہ یہ مساجد کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کرکے نہیں بنائی گئیں بلکہ حکومت کی زمین پر بنی ہیں اور حکومت کیلیے ان کو قانونی حیثیت دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

گوادر کی بندرگاہ کا جب منصوبہ بنا تو وہاں کی مقامی آبادی کو زبردستی بیدخل کردیا گیا اور جن کو معاوضہ دیا بھی گیا وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اب گوادر کی پراپرٹی جو مقامی آبادی کی مرضی کے خلاف زبردستی اونے پونے داموں خریدی گئی اب کروڑوں اربوں روپے کی ہے اور اس سے فائدہ حکومت کے گماشتے اٹھا رہے ہیں۔ چونکہ حکومت کی یہ سکیم تھی اسلیے اسے قانونی قرار دیا گیا اور مقامی آبادی کے ساتھ زیادتی ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کو نظر نہیں آئی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا اپنا ادارہ قانونی ہے مگر بے بس ہے۔ اس کی سفارشات کی قدر ایک ردی کے ٹکڑے سے بھی کم ہے۔ اس ادارے نے آج تک پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جتنی کوششیں کی ہیں سب کے سامنے ہیں۔ یہ ادارہ جسے ایک جنرل نے اسلامی نظام کے ڈھونگ کی خاطر بنایا تھا صرف دکھاوا ہے اور کچھ نہیں۔ اس ادارے سے جب حکومت چاہتی ہے اپنی مرضی کا فتویٰ لے لیتی ہے۔

پاکستان میں ہر وہ چیز غیرقانونی ہے جو روشن خیال حکومت کی نظر میں اسلام کی ترویج کررہی ہے چاہے وہ مسجد ہو یا مدرسہ۔ قانونی چیز وہی ہے جو حکومت اور اس کے چمچوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اگر مناسب سمجھے تو مندرجہ ذیل قبضوں پر بھی اپنا فتویٰ جاری کرے۔

کیا حکومت پر ایک جنرل کا قبضہ قانونی ہے؟

کیا اسلام آباد میں بڑے بڑے زمینی قطعات جن پر پراپرٹی مافیا کا قبضہ ہے قانونی ہیں؟

 کیا مسلمانوں کو غیروں کے ہاتھوں بیچ کر انعام حاصل کرنا قانونی ہے؟

کیا اپنے شہریوں کو دن دہاڑے اٹھا لینا قانونی ہے؟

کیا وردی اتارنے کا وعدہ کرکے مکر جانا قانونی ہے؟

کیا کراچی کی بارہ مئ کی دہشت گردی کو طاقت کا مظاہرہ کہنا قانونی ہے؟

کیا سو سے زیادہ وزیر سفیر مشیر بنا کر قومی خزانے پر بوجھ ڈالنا قانونی ہے؟

کیا ایک وزیر مملکت کا شادی شدہ عورت کیساتھ نکاح کے بغیر رہنا قانونی تھا؟

کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو بناں کسی جرم کےگھر میں نظربند رکھنا قانونی ہے؟