اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا ہے کہ قابض جگہوں پر مساجد کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ اس کیساتھ انہوں نے حکومت کے روشن خیالی کے نظریے کو بھی اسلام سے متصادم قرار نہیں دیا۔
ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر صاحب کا بیک گراؤنڈ کیا ہے اور ان کی اسلام پر کیا اتھارٹی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ بھی اسی پاکستانی قانون کی بات کررہے ہیں جو برطانوی راج کی باقیات میں سے ایک ہے۔ یہ قانون موم کی ناک کی طرح ہے جسے جب حکومت چاہے ایک آرڈینینس کی ہتھوڑے سے توڑ مروڑ سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جس کی اسلام کیلیے خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں ایک حکومتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی میعاد حکومت نے کم کرکے تین سال کردی ہوئی ہے اور یہ میعاد اب ختم ہونے والی ہے۔ لگتا ہے ڈاکٹر صاحب نے بناں سوچے سمجھے ایک درباری ملا کی حیثیت سے یہ بیان داغ دیا ہے تاکہ وہ اگلے تین سالوں کیلیے دوبارہ منتخب ہوسکیں۔ حالانکہ انہیں بیان دینے سے پہلے مساجد کے قانونی اور غیرقانونی ہونے کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا اور یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ جو قانون مساجد پر لاگو ہورہا ہے کیا وہی قانون دوسری جگہوں پر بھی لاگو ہے۔
اس بیان کا ٹارگٹ اسلام آباد کی لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسہ اور وہ مساجد ہیں جن کو حکومت یا تو شہید کرچکی ہے یا ان کو نوٹس بھجوا چکی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو بیان دینے سے پہلے ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ اگر مساجد غیرقانونی بھی ہیں تب بھی یہ کسی کے ذاتی مفاد کیلیے تعمیر نہیں کی گئیں بلکہ خلق خدا کی سہولت کیلیے بنائی گئ ہیں تاکہ لوگ یہاں پر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں بے تحاشا ایسی املاک ہیں جو غیرقانونی ہیں جو ذاتی ملکیت ہیں مگر حکومت ان کو گرانے کی بات نہیں کرتی ۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہئے تھا کہ انصاف سے کام لیتے اور کہتے کہ اسلام آباد میں قبضہ گروپ کی تمام املاک غیرقانونی ہیں اور حکومت ایک جیسا سب کیساتھ برتاؤ کرے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد کی فیصل مسجد میں سابق جنرل ضیا کی قبر کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ یہ غیر قانونی عمل اسلیے قانونی ہے کیونکہ حکومت وقت نے اس کی اجازت دی تھی۔ اگر ایک جنرل کی صرف بتیسی دفن کرنے کیلیے حکومت مسجد کی جگہ پر قبضہ کرکے اسے قانون کے دائرے میں لاسکتی ہے تو پھر قبضہ کی زمین پر غیرقانونی مساجد کو قانونی کیوں نہیں بنا سکتی۔ مزے والی بات یہ ہےکہ یہ مساجد کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کرکے نہیں بنائی گئیں بلکہ حکومت کی زمین پر بنی ہیں اور حکومت کیلیے ان کو قانونی حیثیت دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کا جب منصوبہ بنا تو وہاں کی مقامی آبادی کو زبردستی بیدخل کردیا گیا اور جن کو معاوضہ دیا بھی گیا وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اب گوادر کی پراپرٹی جو مقامی آبادی کی مرضی کے خلاف زبردستی اونے پونے داموں خریدی گئی اب کروڑوں اربوں روپے کی ہے اور اس سے فائدہ حکومت کے گماشتے اٹھا رہے ہیں۔ چونکہ حکومت کی یہ سکیم تھی اسلیے اسے قانونی قرار دیا گیا اور مقامی آبادی کے ساتھ زیادتی ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کو نظر نہیں آئی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا اپنا ادارہ قانونی ہے مگر بے بس ہے۔ اس کی سفارشات کی قدر ایک ردی کے ٹکڑے سے بھی کم ہے۔ اس ادارے نے آج تک پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جتنی کوششیں کی ہیں سب کے سامنے ہیں۔ یہ ادارہ جسے ایک جنرل نے اسلامی نظام کے ڈھونگ کی خاطر بنایا تھا صرف دکھاوا ہے اور کچھ نہیں۔ اس ادارے سے جب حکومت چاہتی ہے اپنی مرضی کا فتویٰ لے لیتی ہے۔
پاکستان میں ہر وہ چیز غیرقانونی ہے جو روشن خیال حکومت کی نظر میں اسلام کی ترویج کررہی ہے چاہے وہ مسجد ہو یا مدرسہ۔ قانونی چیز وہی ہے جو حکومت اور اس کے چمچوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل اگر مناسب سمجھے تو مندرجہ ذیل قبضوں پر بھی اپنا فتویٰ جاری کرے۔
کیا حکومت پر ایک جنرل کا قبضہ قانونی ہے؟
کیا اسلام آباد میں بڑے بڑے زمینی قطعات جن پر پراپرٹی مافیا کا قبضہ ہے قانونی ہیں؟
کیا مسلمانوں کو غیروں کے ہاتھوں بیچ کر انعام حاصل کرنا قانونی ہے؟
کیا اپنے شہریوں کو دن دہاڑے اٹھا لینا قانونی ہے؟
کیا وردی اتارنے کا وعدہ کرکے مکر جانا قانونی ہے؟
کیا کراچی کی بارہ مئ کی دہشت گردی کو طاقت کا مظاہرہ کہنا قانونی ہے؟
کیا سو سے زیادہ وزیر سفیر مشیر بنا کر قومی خزانے پر بوجھ ڈالنا قانونی ہے؟
کیا ایک وزیر مملکت کا شادی شدہ عورت کیساتھ نکاح کے بغیر رہنا قانونی تھا؟
کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو بناں کسی جرم کےگھر میں نظربند رکھنا قانونی ہے؟
21 users commented in " غیرقانونی مساجد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے سارا زور اس بات لگا دیا کہ چونکہ اسلام آباد میں اور بھی چیزیں غیر قانونی ہیں تو چلیں مساجد بھی ہوجائیں تو کیا مضائقہ؟ یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی ۔ اسلام کی طرف داری کرتے وقت اسلام کا سب سے اہم اصول حق بات کا ساتھ دینا پس پشت ڈال دینا کیسی عقل مندی ہے؟
یہ جو سارے کام آپنے لسٹ کر دئے تو کیا اب آئندہ ھر قسم کہ غیر قانونی کام کی اجازت مل گئی؟ اگر نہیں تو علی اعلان کہئے ببانگ دہل کہیے کہ قبضہ کی عمارت پر مسجد تعمیر ہی نہیں ہو سکتی ۔
ہمارا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ غلط کو غلط نہیں کہتے چناچہ گو علماء نے نام نہاد مولانا عزیز کی حرکات سے لا تعلقی اختیار کی ہے لیکن اس کی اس طرح مذمت نہیں کی جیسا کہ میراتھن کی کرتے۔ اصل میں موجودہ رویہ دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اسلام پسندوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ فحاشی ہے باقی سب اس کے آگے کوئی مسئلہ ہی نہیںچناچہ عورت کے عریاں ہوجانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن قتل ہو جانے پر سہمی ہوئی آواز نکالتے ہیں۔
احمد صاحب
آپ نے ہمارے لکھے کا الٹا مطلب لیا ہو سکتا ہے ہمارے لکھنے کے انداز نے یہ غلط فہمی پیدا کردی ہو۔
ہم نے کہیںبھی یہ اقرار نہیںکیا کہ مقبوضہ جگہوں پر مساجد غیرقانونی نہیںہیں بلکہ ارباب اختیار کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ باقی غیرقانونی تعمیرات کو قبول کرسکتے ہیںتو پھر مسجدوں کو کیوں نہیں جو کہ ذاتی مفاد کیلیے تعمیر نہیںکی گئیں۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مساجد کو غیرقانونی کہتے ہیںتو پھر دوسری ناجائز تعمیرات کو کیوں نہیںکہتے۔
ہم نے تو بلکہ اس کا حل بھی پیش کردیا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی خوشنودی کیلیے حکومت ان غیرقانونی مساجد کو قانونی بنا دے اور ثواب دارین حاصل کرے۔
ثواب دارین کے لئے یہ روایت نہ ہی پڑے تو اچھا ہے بلکہ مناسب ہو کہ حکومت اگر کوئی اور جگہ مختص کردے اگر کرنا ہی ہے تاکہ ان قبضہ گروپوں کی حوصلہ شکنی ہو جو دین کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں ذاتی مفاد نہیں ہے جو غلط ہے کیونکہ اس میں مسجد کی انتظامیہ کہ گھر بھی ہوتے ہیں اور کبھی کراچی آئیںتو دیکھیں کہ منافع بخش دکانیں بھی ہوتی ہیں۔
دوسری ناجائز تعمیرات کو غیر قانونی کہنے میں کوئی بحث کی ضرورت ہی نہیں تو اسلامی نظریاتی کاونسل کیوں ٹانگ اڑائے؟ جس چیز میں اتفاق رائے نہیں اسی کی وضاحت کردی ہے جو کہ بالکل صحیح طریقہ ہے۔ اب اگر ان معاملات پر جو آپنے لکھیں ہیںجیسے وذیر کا نا محرم کے ساتھ رہنا پر کاونسل وضاحت کرے تو کافی عجیب بات ھوگی۔
احمد صاحب
ذاتی مفاد نہ ہونے کی بات ہم نے اسلیے کی ہے کہ ان مساجد میں ہزاروں مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اتنی بڑی خدمت کے سلسلے میں مسجد کی انتظامیھ کچھ ذاتی مفاد حاصل کر بھی لیتی ہے تو کوئ بڑی بات نہیں۔ ہاں مساجد اور مدرسوں کو کاروبار بنا لینا بری بات ہے۔
ثواب دارین کے لئے یہ روایت نہ ہی پڑے تو اچھا ہے بلکہ مناسب ہو کہ حکومت اگر کوئی اور جگہ مختص کردے اگر کرنا ہی ہے تاکہ ان قبضہ گروپوں کی حوصلہ شکنی ہو جو دین کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں ذاتی مفاد نہیں ہے جو غلط ہے کیونکہ اس میں مسجد کی انتظامیہ کہ گھر بھی ہوتے ہیں اور کبھی کراچی آئیںتو دیکھیں کہ منافع بخش دکانیں بھی ہوتی ہیں۔
احمد صاحب؛
آپ کس روایت کی بات کر رہے ہیں، یہ روایت تو برسوں پہلے پڑ چکی تھی۔ جب مسجد تعمیر ہو رہی تھی تو حکومت کو کچھ نظر نہیں آیا، اور ایک سہانی صبح حکومت کو اچانک خیال آیا کہ یہ غیر قانونی ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اگر حکومت نے یہ کام نیک نیتی سے کیا ہوتا تو پورا پاکستان حکومت کے ساتھ ہوتا۔ عوام کےلئے یہ کسی طرح بھی باور کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ مشرف کی روشن خیالی کے نتیجے میں نہیں ہورہا ہے۔
جناب کوئی بھی صحیح کام کیا جائے تو آپ کیا اسے یہ کہ کر مسترد کر دیں گے کہ پہلے کیوں نہیںکیا ؟ مشرف کے روشں خیالی کے فلسفے سے میں ہرگز متفق نہیں لیکن اگر کوئی صحیح کام کیا جائے تو کیا محض اس بناء پر مسترد کردیں کہ مشرف امریکہ کا غلام ہے؟ جو بھی کام ہو رہا ہے اسے آپ صحیح اور غلط کے حوالے سے جانچیں نہ کہ مشرف کے حوالے سے!
آپ لوگوں کے پاس کوئی قران و حدیث سے منطق ہو تو بے شک اس کام کو غلط قرار دیں لیکن اگر آپ کو واضح معلوم ہے کہ یہ کام ناجائز ہے تو آپ مسجد سے محبت کے نام پر اسلام سے نفرت کا ثبوت دے رہے ہیں
بھائی جس ذمین پر قبضہ کیا جائے وہ قیامت میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی اور اس میں کہیں بھی مسجد کو استثناء نہیں دیا گیا۔ اسلام کہ محض اپنے پسندیدہ پہلو چن لینا کیسا انصاف ہے؟
احمد صاحب
عام حالات میں آپ کا کہنا بجا ہے لیکن اسلام آباد مین جو کچھ ہوا اس لحاظ سے آپ بے خبر لگتے ہیں ۔ جو مساجد اور مدرسے گرائے گئے ہیں اور جن کو گرانے کے نوٹس دیئے گئے تھے ان میں سے اکثر حکومتِ وقت کی اجازت سے حکومت کے مہیا کردہ فنڈز سے بنے اور کچھ پاکستان بننے سے پہلے کے تھے ۔
علاوہ ازیں ایسی مساجد ہیں جو بغیر اجازت غیر قانونی طور پر بنائی گئیں مگر ان کو نہ کسی نے نوٹس دیا اور نہ گرایا گیا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ صدر جنرل کے سیکیورٹی اڈوائزر اس کے آقا نے ایف بی آئی سے مہیا کئے ہوئے ہیں جنہوں نے مشورہ دیا تھا کہ جن سڑکوں سے وی آئی پی کا گذر ہو سکتا ہے ان کے قریب بنے ہوئے مدرسے اور مسجدیں گرا دی جائیں ۔
آپ نے نام نہاد مولوی عبدالعزیز کا ذکر کیا ۔ وہ ڈبل ایم اے ہے اور مدرسہ کا پڑھا ہوا نہیں ہے ۔ مدرسہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ حکومت کی اجازت اور حکومت کے مہیا کردہ فنڈز سے تعمیر ہوئے تھے تو غیر قانونی کیسے بن گئے ؟ جامعہ فریدیہ تو ایک طرف ہے لیکن مدرسہ حفصہ ایسی جگہ ہے کہ ہر کس و ناکس کی اس جگہ پر نظر رہتی ہے تو ایک ناجائیز عمارت ایسی جگہ پر کیسے بن سکتی ہے ؟
میں نے افضل صاحب کی اس تحریر کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اصل صورتِ حال مزید واضح ہو سکے ۔ اشاء اللہ پرسوں یعنی اتوار 17 جون کو میری تحریر پڑھئے آپ کا نقظہ نظر بھی صحیح ثابت ہو جائے گا اور افضل صاحب کا بھی ۔اس تحریر کا یو آر ایل ہو گا
http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/06/17/
کیا اسلام آباد میں بھی کوئ ادارہ ایسا نہیں ہے جو کسئ زمین پر کھچہ
بنانے سے پہلے اجازت دے؟
یا وہ عمارت بن جانے کے بعد ہئ سو کر اٹھتے ہیں !!!!!!!!!!!!!!!!!!!
اجمل صاحب آپکی تحریر کا انتظار رہے گا۔ نام نہاد اس لئے کہا کہ وہ فتنہ پھیلا رہے ہیںاور وفاق المدارس ان سے لاتعلقی کا اعلان کر چکا ہے ۔ اب وہ ڈبل ایم اے ہوں یا پی ایچ ڈی اس سے کیا فرق پڑتا ہے ان کو فتنہ پھیلانے کا لائسنس تو نہیں مل گیا۔
میری لاجک عام حالات کے لئے ہی تھی اب اگر کسی قانونی مسجد کو گرا دیا تو اس کی بھر پور مذمت کرنی چاہئے اور اگر مسجد قبضہ پر بنائی گئی ھے تو اسکی بھی بھرپور مذمت کرنی چاہئے
جامعہ حفصہ یا کوئی اور جامعہ محض اس لئے نہ رہنے دی جائیں کہ پہلے کیوں نہ خیال آیا۔ مولانا عزیز اینڈ کمپنی چاہے مدرسے کہ پڑھے ہو یا آکسفورڈ کہ ان کی فتنہ انگیز حرکتوں کا علماء ساتھ دینے سے انکاری ہیں (لیکن افسوس کہ نیم دلی سے مذمت کی ہے نہ کہ اس طرح جیسا حقوق نسواں بل کی کی تھی)
اسلام علیکم۔۔۔
میں اگرچہ ‘میرا پاکستان‘ کی فکر کی بالکل حمایت کرتا ہوں مگر یہاں پر مجھے احمد صاحب سے مکمل اتفاق ہے۔ہاں، مشرف اور ان کی حکومت اور خالد مسعود کے عزائم کچھ اور ہی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں ایسی چیز کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جوکہ بظاہر تو اچھی لگے لیکن وہ دراصل زیادہ نقصان دہ ہے۔
جب رسول(صلى الله عليه وسلم)نے مسجدِ نبوی کی تعمیر کیلئے زمین بغیر قیمت خریدنے سے انکار کردیا اور بس یونہی مسجد نہ بنا ڈالی تو میں کہتا ہوں کہ پھر کوئی اور مسجد تو سرے سے قبضہ کی ہوئی جگہ پر بنائی ہی نہیں جاسکتی۔ میرا تعلق اسلام آباد سے نہیں ہے تو جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ وغیرہ حکومت کی دی ہوئی زمین پر بنائی گئ تھی تو وہ لوگ بہتر جانتے ہیں۔
لیکن یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان میں قبضہ کی ہوئی زمینوں پر مساجد بنائی جاتی ہیں اور یہ اسلامی لحاظ سے بالکل غلط حرکت ہے۔ یہ چوری اور حق تلفی کے زمرے میں آتی ہے اور اس سے ہمارے پیارے لبرلز حضرات کو زہر اگلنے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ ایسی مسجدوں کی تعمیر سے اسلام اور ملسلمانوں کی کوئی خدمت نہیں ہوتی۔ ہم جذبات میں آکر اسلام کی خاطر اسلام ہی کی تعلیم سے ہٹ کر کام نہیں کرسکتے۔
ایک اور بات۔۔۔یہ “مولانا“ عبدالعزیز نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہو یا پی اچ ڈی ان کی اسلامی تعلیم کیا ہے؟ کس علماء کے ساتھ انہوں نے پڑھا، کس علم میں عالم کی ڈگری حاصل کی، کیاعلوم الحدیث میں؟ علوم الفقہ میں؟ کیا فقہ الحدیث میں؟ کیا اصول الفقہ میں؟ کیا تفسیر میں؟ میرا کہنا کا مطلب ہے کہ ان کی کیا قابلیت ہے؟ ان کے پاس کس، کس علماء کی اجازت ہے؟ جو لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے ڈبل ایم اے کیا ہوا ہے اگر ان کو معلوم ہے تو ہمیں بھی بتائیں کیوں کہ ان کے بیانات سے تو نہیں لگتا کہ انہوں نے کسی مستند اسلامی جامعہ یا بڑے مدرسے میں اصل علماء کے ہاتھوں اسلام کے علوم سکھے ہوں۔ کون عالم اپنی طالبات کو ڈنڈے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جاوٰاور شہر کی لائبریری پر قبضہ کرلو؟ کون سا عالم دھمکی دیتا ہے کہ اگر حکومت نے بات نہیں مانی تو خودکش حملے کیے جائیں گئے؟ بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دیکھ کر وہ حدیث یاد آتی ہے کہ اللہ تعالی دین کی تعلیم اور سمجھ بوجھ اصل عالموں کے انتقال کے ذریعے سے اٹھالیگا اور لوگ ان پڑھ لوگوں کو اپنا عالم بنا لیں گے (ظاہر سی بات ہے کہ میں نے حدیث کا صرف خلاصہ دیا ہے نہ کے اصل ترجمہ)۔ واللہ عالم
جیسا کہ ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ قبضہ کی زمین پر مسجد بنانا درست نہیں ہے اور سراسر ناجائز ہے۔ لیکن یاد رکھیں مسجد شاید ہی کسی آدمی کی جگہ پر قبضہ کرکے بنی ہو اور نہ کوئی اس طرح بنانے دیتا ہے۔ اکثر مساجد حکومتی زمینوں پر حکومت کی مرضی کے بغیر بنی ہیں جو غیرقانونی ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کر اگر حکومت کاروباری مقاصد کیلیے قبضہ کی گئ زمینوں کو واگزار نہیںکرارہی تو پھر مسجدوں کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہے۔ حالانکہ کاروباری رقبوں کو واگزار کرانا فائدے مند ہے۔ دوسرے خدا کی خوشنودی کیلیے ان غیرقانونی مساجد کو گرانے کی بجائے حکومت قانونی حیثیت دینے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔ کیا حکومت کی اس بدنیتی سے اجمل صاحب کا نقطہ نظر واضح نہیں ہوجاتا کہ مساجد سیکیورٹی رسک اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلیے گرائی گئیں نہ کہ غیرقانونی قبضہ کی ہوئی زمینوں کی وجہ سے۔
محترم خالد مسعود صاحب کا حق بنتا ہے کہ وہ کسی معاملے پر اسلام کے حوالے سے بات کریں کیونکہ وہ جید عالم دین ہیں ۔ اس وقت میرے پاس ان کا بائیو ڈیٹا موجود نہیں ورنہ آپ کی معلومات کے لئے درج کردیتا ۔
مجھے علم نہیں کہ انہوں نے عام طور پر مساجد کی غیرقانونی زمین پر تعمیر کو غلط قرار دیا ہے یا یہ بات انہوں نے اسلام آباد کی مساجد کے معاملے سے متعلق خاص طور پر کی ہے ۔ اگر عام طور پر بات کی ہے یا اپنی رائے ظاہر کی ہے تو بالکل بجا اور صائب اور اگر اسلام آباد کے مساجد کے خصوصی حوالے سے انہوں نے بات کی ہے تو میرے خیال میں اس پر ان کی تفصیلی رائے آنی چاہیئے ۔ ظاہرہے انہوں نے بھی خود تحقیق کی ہوگی ، وہ کوئی بچے نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور علمی ادارے “اسلامی نظریاتی کونسل“ کے سربراہ ہیں ۔
آپ کو یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہمارے معاشرے میں مساجد اور مدارس کا ذاتی مفاد کے لئے استعمال عام سی بات ہے جو کہ سراسر غلط اور خلاف اسلام ہے ۔ جسے یہ کہہ کر صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا کہ “اور بھی تو بہت سے غلط کام ہورہے ہیں ۔“ اور یہ غلطی اور سنگین صورت اختیار کرجاتی ہے جب یہ مساجد اور مدارس غیرقانونی زمین پر بنائے گئے ہوں چاہے وہ فرد کی ملکیت ہو یا ریاست کی ۔
افضل آپ نے اس نکتے پر بہت زور دیا کہ مساجد اگر غیرقانونی زمین پر تعمیر بھی کی جائیں تو کیا ہوا اس میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے لیکن آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ غیرقانونی طور پر تعمیر زمین پر تعمیر ہونے والی عمارت کیا مسجد کا درجہ پانے کی مستحق ہے ؟ اور کیا اس میں عبادت صحیح ہے ؟
ajeeb log hain agar inse kaho keh Molana hai alim hai tu unka sara ilm khatir main naheen late aur kehte hai wo dukianoosi hai, jahil hain (astaghfirrullah) aur agar in dunya ke maron ko kaha jaey keh ji unhon ne apke matlab ka MA , Phd etc ker rakhi hai tu kehte hain isse kia hooa, denni taleem kia hai? asal baat hai inke dil main deen ke alim ki izzat hai hi naheen. bhai agar deen ki qadar hoti aur zindagi main deen hota tu uske ulma ki qadar bhi hoti.
khair islam yeh naheen kehta keh qabza kerke masjid banai jaey warna masjide nabawi kelyie zameen khareedi na jaati magar yahan sahib-e-mazmoon ke baat kerne ka maqsad yeh tha keh yeh masjid kab ki bani hai aur yaqeenan uswaqt iski ijazat sab kuchh hoaa hoga ab kion keh zalim qadiani , shia aur deen bezaar logon ko sirif aaise hi logon se khatra hai jahan se logon ki life main deen aajey aur unka kaam bigre wo ya tu ulma hi ko khatam kerrahe hain ya masjid madirsa.
yaar pehle MQM ke offices , ghair qanooni ploting aur doosre qbzon per bhi koi baat ker lain. aur yeh jo islami nazriati counsil hai ismain kon log hain aur ulma ki inke bare main kia raey hai yeh bhi daikh lain
ab aakhir main aik baat. wafaqul madaris ne molana aziz se taluk khatam naheen kia balke tasadum se unhon ne khamoshi ikhtiar ki hai. unke bayanat bhi akhbar pe rmojood hain. aur bhai aap yeh batain keh un ulma ki pehle aap konsi bata maan lete hain?
kelyie
میرا مقصد صرف یہ تھا کہ ہمیں یہ منطق نہیں استعمال کرنی چاہئے کہ دوسرے تجاوزات ختم کروائیں پھر ہم مسجد کے بارے میں سوچیں گے۔ ایسی سوچ اسلام کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اسلام عدل پر زور دیتا ہے نہ کی یہ کہ وہ بھی غلطی کررہے ہیں تو تم بھی کرلو۔
میں نے پھلے ہی یہ واضع کردیا تھا کہ خالد مسعود اور حکومت کی نیت پر مجھے بھی بھروسہ نہیں ہے اور میں یہ بھی کہنا ہوں کہ کسی غیر قانونی مسجد کو آج حکومت کے کہنے پر نہیں ختم کردینا چاہئے کیونکہ اس سے حکومت کو اور شہ ملے گی۔ لیکن ہم کو اپنے حلقوں میں غیر قانونی مساجد کا دفاع بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ سراسر اسلام کے منافی ہے۔ یعنی، ہمیں یہ پرچار نہیں کرنا چاہئے کہ ہاں،ہاں ان مساجد کو گرادو لیکن اسلام کی صیحح فھم کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس بات کو یاد رکھیں کہ اگر اچھی نیت سے کوئی آدمی یا حکومت اپنی زمین مانگنے آئے تو ہم اس کو کافر یا اسلام دشمن نہ کہیں۔ لیکن آج کی حکومتِ وقت کے عزائم کچھہ اور ہی ہیں۔
بھائی، میں اصل علماء ہی کی خاطر کہہ رہا ہوں کہ “مولانا“ عبدالعزیر کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے۔ ان کے غیر اسلامی بیانات اور حرکتوں سے اصل علماء کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔خود وفاق المدارس ہی کو دیکھیں کس مشکل میں اس کو ڈالا گیا۔ میں نے الحمداللہ کافی علماء کو سنا ہے اور ایک روز ڈاکڑ شاہد مشھود کا عبدالعزیز صاحب سے انٹرویو سنا تو وہ کسی بھی طرح سے ایک عالم کے جیسے گفتگو نہیں کرپارہے تھے۔ میں صرف ان کے اس انٹرویو ہی کے بنا پر اپنی رائے نہیں دے رہا ہوں۔
یہ خالد مسعود ہی تھے نا جنھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے استفعی دینا چاہا تھا کیونکہ علماء کی تجاویز حدود بل کی ترمیم میں شامل کرلی گئی تھیں؟ ایسے صاحب “جید“ عالم کیسے ہوسکتے ہیں جنہیں اس بات پر تکلیف ہوئی کہ علماء کی تجاویز کے ذریعے ترمیم کو اصل اسلام کے مطابق بنایا جارہا تھا؟؟!!
ہم تیسری بار یہ بات لکھ رہے ہیں جو ہمارے قارئین سمجھ نہیںپارہے۔ حکومت اگر صرف مساجد کو غیرقانونی کہ رہی ہے تو اس کی نیت ٹھیک نہیں۔ اسی لئے ہم نے بار بار یہ کہا ہے کہ صرف مساجد ہی نہیںبلکہ حکومت دوسری تجاوزات کو بھی ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی اختیار کرے۔ ایک اور بات جس پر ہم لوگ غور نہیں کررہے وہ یہ ہے کہ اگر حکومت نیب زدگان کو معاف کرسکتی ہے اور اپنے حواریوں کے قرضے معاف کرسکتی ہے تو پھر مساجد کو قانونی شکل دے کر ثواب کیوں نہیںکماتی؟
mera pakistan ki baat theek hai aur is baar janab Ibrahim sahib ne bhi makool baat ki hai.
aik baat Ibrahim bhia se arz kerna hai. jab moalana aziz sahib alim naheen hain tu kabhi bhi unka ilhaq wafaqul madaris se naheen hota. jo log wafaqul madaris aur unke ulma ko jaante hain wo achhi tarah jaante hain yeh wo log hain jinka khoon aur paseena yahan islam ki tarweej main laga hai.aur fitnon ko rokne main inhi ka asal kirdar hai.
aur yeh hakoomat jiske tareeban sab hi log peene pillane wale hain aur kuchh khulamkhula munafik hain aur kuchh chuppe hoeey, sikarnder Mirza ke baad sabse ziada shia aur qadiani inke saath hain. poora mulk behayai main laga dia hai, zina aam hai, sharab aam hai. wazir taleem ke 40 paron ki baat sabit kerti hai keh wo bhi shia hai. tu bhai unka masjidain hatana , madaris band kerna sab samajh main ata hai. iswaqt pehla kaam yeh hai keh masjid ka tahafuz kia jaey.karachi main log 2 1/2 ya 3 feet ki gallery ki jaga berha lete hain kia wo log apna gher torna pasand karain ge? bhai yeh silam ke khilaf jang hai. pehla kaam imaan bachao warna aapki naslain kuchh aur tu hongi muslim naheen
ہماری بات کو اجمل صاحب نے آگے بڑھایا ہے جسے پڑھ کر ہمارا نقطہ نظر مزید واضح ہوجائے گا۔ آپ ان کی پوسٹ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔
http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/06/17/%d8%ba%db%8c%d8%b1%d9%82%d8%a7%d9%86%d9%88%d9%86%db%8c-%d8%aa%d8%ac%d8%a7%d9%88%d8%b2%d8%a7%d8%aa/
اتنے حساس موضُوع پر بات کرنے کے لۓ وسيع تر معلُومات کی ضرُورت ہوتی ہے ليکن قُرآن پاک اور احاديث سے ثابت بات ميرے خيال ميں زيادہ معنی رکھتی ہے جيسا کہ محترم ابراہيم صاحب نے
کہا کہ„جب رسول(صلى الله عليه وسلم)نے مسجدِ نبوی کی تعمیر کیلئے زمین بغیر قیمت خریدنے سے انکار کردیا اور بس یونہی مسجد نہ بنا ڈالی تو میں کہتا ہوں کہ پھر کوئی اور مسجد تو سرے سے قبضہ کی ہوئی جگہ پر بنائی ہی نہیں جاسکتی۔ „تو ميرے خيال ميں اُس کے بعد اور کسی بھی بات کی کوئ گُنجائش ہی نہيں رہتی باقی اور جائز نا جائز عوام و خواص کی اپنی صوابديد پر ہے يا اُن کے دل کے ماننے يا نا ماننے پر ہے کہ اگر کوئ اللہ اور اُس کے رسُول کی مُتعيّن کردہ حدُود سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اُس کا اور اللہ کا معاملہ ہے،باقی ميرے محترم کرم فرما ؤں نے اپنے اپنے طور پر جو کُچھ بھی کہا درُست ہی سوچ کر کہا ہوگا، يہاں بات صرف مسجد کی ہے تو يہ مثال کافی معلُوم ہوتی ہے آپ کيا کہتے ہيں؟
دُعاگو
شاہدہ اکرم
Bhui doosray qabzeen upnay ko Islam ka maam nahian qarar detay na kisee ko jabran kisee kam say roktay hain na upnay ko zaroorat say ziada naik qarar detay hain….jubkay yeah molvi choree ka maal kha kay bhee upnay ko Islam ka mama batatay hain aur doosroon pay zabardastee upnay wala Islam thonstay hain jiska inko haq kia hay aakhir? Khud choree kurnay wala doosroon ko Islam ka pay qail karay ga? Doosroon ko naseehat khud mian faseehat. Isee leay koi aajkal Molvioon pay atebaar nahain kar raha.
Why we r fighting with each others. This type of peple r highly paid by the gov and its clear that they will not go against it
Leave A Reply