صدر اوبامہ نے کل مصر کی یونیورسٹی میں مسلمانوں کو لیکچر دیا۔ ان کا لیکچر لگتا ہے اس شخص نے تیار کیا جو مسلمانوں کے دلوں کے تار چھونے کی مہارت رکھتا ہے۔ تبھی تو ان کی تقریر میں قرآن کی آیات کے حوالہ جات شامل تھے۔ انہوں نے اس دفعہ ٹیررازم کی بجائے لفظ ایکسٹریم ازم استعمال کیا۔
ان کی اس بات پر حاضرین نے خوب داد دی۔ ” قرآن کا حکم ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے”۔ اللہ کرے وہ اور ان کا ملک خود بھی اس حکم پر عمل کرے۔
صدر اوبامہ نے ایک اور بات بڑے مزے کی کہی جو امید ہے مسلمانوں کے دلوں کو چھو گئی ہو گی۔ انہوں نے کہا امریکہ کو بھی مسلمان ملکوں میں شمار کیا جانا چاہیے کیونکہ امریکہ میں مسلمان کی تعداد کئی مسلمان ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ حاضرین کو اسلام علیکم کہنے کے بعد انہوں نے امریکی مسلمانوں کیطرف سے بھی تہنیتی پیغام پہنچایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ امریکہ میں ابھی تک ایک بھی مسجد نہ جلائی گئی ہے اور نہ گرائی گئی ہے۔
لگتا ہے صدر اوبامہ کئی دنوں سے اس تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے تقریر زبانی کی مگر لگتا ایسے ہی تھا جیسے رٹی ہوئی ہے کیونکہ ان کی تقریر میں بہت سارے الفاظ ایسے تھے جو عام زندگی میں کم ہی بولے جاتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور صدر کی طرح نہیں کہ ٹی وی پر بھی وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھیں ناں کہ کریں۔
خدا کرے کہ صدر اوبامہ نے جو کہا وہ اس پر عمل بھی کریں۔ وہ صرف زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ثابت کر کے دکھائیں کہ امریکہ کو مسلمانوں کیساتھ کوئی خار نہیں ہے۔ اسے ثابت کرنے کیلیے انہیں افغانستان، عراق، مشرق وسطی اور پاکستان سے اپنی افواج واپس بلوانا ہوں گی۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کو یقین ہے کہ امریکہ سپر پاور ہونے کی وجہ سے جو چاہے اور جس سے چاہے بات منوا سکتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس وقت اسرائیل امریکہ کے حکم کو رد کر دے کیونکہ اسرائیل صرف امریکی امداد پر زندہ ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو اس وقت فسلطینیوں اور کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دلوا سکتا ہے۔
10 users commented in " صدر اوبامہ کا مسلمانوں کو لیکچر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاوبامہ کی تقریر تو بلاشبہ لاجواب تھی۔ لیکن یہ اس وقت تک صرف زبانی جمع خرچ کہلائے گی جب تک مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھتا دکھائی دیتا۔
اوبامہ نے کہا ہے امریکہ میں ابھی تک ایک بھی مسجد نہ جلائی گئی ہے اور نہ گرائی گئی ہے۔اور فلسطین میں لبنان میں اسرائیل نے ۔ عراق و افغانستان میں شدید بمباری سے سینکڑوں مساجد کس نے شہید کیں ہیں۔؟
قرآن کریم کا حوالہ دے کر اپنے مطلب کی بات کرنے والا اگر تو صاحب حوالہ قران کریم کو درست اور برحق مانتا ہے تسلیم کر رہا ہے تو پھر تو وہ ایک اور مسلمان ٹہرا اور اگر وہ یہ بھی کرتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں۔ مسلمانوں کو محض اور محض اپنی مطلب برارری کے لئیے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے حوالہ جات دے رہا ہے تو پھر وہ مسلمانوں کو بے وقوف بنانا چاہ رہا ہے۔
جب دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو مسلمان دنیا کی واحد جوہری طاقت پاکستان کی بات لازمی طور پہ ہوتی ہے۔ جو مشکلات پاکستان پہ امریکہ نے مسلط کر رکھی ہیں۔طالبان کے ہم پلہ نام نہاد طالبان پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے تیار کئیے ہیں۔اانہیں جدید ترین تربیت۔ اسلحہ ۔ روپیہ اور پاکستان کے بارے میں انتہائی اہم معلومات کو مہیا کرتا ہے۔؟ پاکستان کی افغانی سرحدوں کے ساھ ساتھ بھارت کے قونصل خانے وہاں کونسی سفارتی خدمات اور کس کو مہیا کر رہے ہیں۔ پاکستانی کی سرحدوں پہ بھارتی کی فوجی اینجبسیوں کے تین ھزار ایجنٹ کس کی ایماء پہ اور کونسے خفیہ امور انجام دے رہے ہیں ۔ کیا یہ سب امریکہ کے علم میں آئے بغیر بھارت سے افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان پہ اپنے بہروپیے طالبان مسلط کر کے ساری دنیا میں یہ بات پھیلانے میں کس کے تھنک ٹینک جوش و خروش سے پیش پیش تھے کی پاکستان کے جوہری ہتیار اور جوہری تنصیبات طالبان کے قبضے میں بس آنے ہی والے ہیں اور پوری دنیا کو پاکستانی جوہری ہتیار فوبیا میں کس نے مبتلاء کیا۔؟ اندرون خانہ پاکستان کے کمزور حکمران۔ امریکن جرنیلوں اور حکمرانوں کو بارہا ثبوت مہیا کر چکے ہیں مگر امریکہ کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ پاکستان کے کمزور حکمرانوں کی منت و سماجت کے باوجود پاکستان پہ ڈرون حملے جس میں ھزاروں بے گناہ پاکستانی سول شہری شہید ہوچکے ہیں۔ کیا پوری ڈھٹائی سے جاری یہ حملے پاکستان کے عوام سے بالخصوص اور دنیا کے مسلمانوں سے بالعموم ہمدردیاں جیتنے کے لئیے ہیں۔؟
مسلمانوں کی چھاتی پہ مونگ دلنا۔ اور ساتھ ساتھ کہتے جانا۔میں تو تمھارا دوست ہوں۔ یہ مسلمانوں کی ذھانت کی توہین ہے۔
اچھے اور بہتر تعلقات کے لئیے ضروری تھا کہ امریکہ کی وجہ سے یا امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پچھلی دو دہائیوں سے مارے گئے کئی درجن لاکھ مسلمان باشندوں کی اموات اور مسلمان ملکوں کو ناحق تباہ و برباد کرنے پہ۔ امریکہ کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی طرف سے موصوف معافی مانگتے۔ اور کچھ نہیں ابوغریب ۔ گوانتانوموبے جیسی جیلوں میں مسلمانوں پہ ناحق اور انسانیت سوز ظلم وتشدد اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں عفت مآب مسلمان بیٹیوں کی آبروریزی اور قتل و غارت جو انکی اپنی عدالتیں ثابت کر چکی ہیں ۔ انہی پہ مسلمان قوم سے معافی مانگ لیتے۔
مسلمان ملکوںسے فوجیں واپس منگوانے کا ایک ٹائم ٹیبل دیتے۔ اور مسلمان عوام کے نقصانات کے ازالے کا کوئی حل پیش کرتے۔ آخر دنیا کے مٹھی بھر یہود کو بھی تو امریکہ نے اپنی ناک کا بال بنا رکھا ہے۔ جبکہ ہم تو صرف وہ نکتہ بیان کرنا چاھتے ہیں جو امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے۔
کیونکہ امریکہ اس سدا بہار جنگ سے مسلمانوں پہ کبھی بھی قابو نہیں پاسکے گا۔مسلمان عوام تو اپنی آزادی عزت جانیں اپنے مذھب کا عالمی احترام سب گنوا چکے ہیں۔ اب ہمارے پاس ضائع کرنے کو کچھ نہیں کہ کوئی غم باقی رہ گیا ہو۔ جس پہ مسلمان اُمہ نے خون کے آنسو نہ بہائے ہوں۔
مسلمان عوام اس ننگ انسانیت جنگ کے پہلے اور اولین جھٹکوں کے بعد اب ردعمل اور مدافعتی قوت کا کا مظاہرہ کرنے کی ابتداء کر چکے ہیں۔ اور امریکہ کو یہ علاقے ہر صورت میں چھوڑتے ہی بنے گی۔ ایسے میں وہ نیو ورلڈ آڈر کس پہ چلے گا۔؟ اب یہ جنگ بند کرنا اور مسلمانوں سے تعلقات بہتر کرنا امریکہ کی مجبوری ہے ۔
مجھے علم ہے امریکہ کے نزدیک یہ سب باتیں دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ کونسے نئے تعلقات اور کس بنیاد پہ۔؟ جب دیکھا کہ جنگ و جندل امریکہ کو بھاری پڑنے لگی ہے تو جناب اوبامہ ایک نیا جال لے کر پہنچ گئے ہیں۔
امریکہ کے سیاسی نظام کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اوبامہ محض ایک صدر ہے۔ جب تک امریکہ کی کانگریس۔ سنئیٹرز ، پینٹاگون ، پالیسی ساز ادارے ، مسلمانوں کے بارے انتہائی زہریلی سوچ رکھنے والے تھنک ٹینک، میڈیا اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتیں مختلف لابیاں۔ وغیرہ وغیرہ میں مسلمانوں کے بارے میں ہمدردی اور احترام کے جذبات پیدا نہیں ہونگے ۔تب تک یونہی اپنا وقتی مطلب نکالنے کے لئیےامریکہ کے اوبامہ من گھڑت اعدادو شمار سے مسلمانوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔
اس بات کی کیا ضمانت ہے ۔ کل کو یہی اوبامہ مسلمانوں کے حق میں کسی بل پہ دستخط کرتے ہوئے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ کانگرس نہیں مان رہی۔ اور بش سنئیر کے بعد کلنٹن کے سے معمولی وقفے کے بعد بش جونئیر نے مسلمانوں سے خوب کھل کھیلا۔ اور اوبامہ کے بعد امریکہ کی وقتی مصحلتوں کے تحت پھر سے مسلمانوں سے متعلقہ پالیساں بدل جائیں۔
امریکہ کا طرز حکومت ایک اوبامہ نہیں بہت سے لوگ ہیں۔ جو آج بھی دلوں میں مسلمانوں سے کدورت رکھتے ہیں ۔
کہ جسطرح امریکہ مسلمانوں پہ اپنے پورے غضب اور قہرو جبر کے ساتھ ۔ ہاتھی اور چیونٹی کے مصداق پوری فرعونیت سے مسلمانون عوام، مسلمان ممالک اور ان کے وسائل حملہ آوار ہوا تھا۔ اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وہ اس جنگ کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ ہمارا دعواہ ہے کہ اگر امریکہ نے عملی اقدام نہ اٹھائے اور مسلمانوں سے صرف زبانی کلامی کرتے ہوئے عملی طور پہ مسلمانوں کے ممالک اور اور وسائل پہ پہلے کی طرح ریشہ خطمی رہا ۔ تو یہ زبانی کلامی دعوے امریکہ کے لئیے مسلمانوں میں ہمدریدی پیدا کرنے میں ناکام رہیں گی۔
ایک سروے کے مظابق آج بھی امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت گوانتاموبے کو بند کرنے کے حق میں نہیں۔ اگر کل کو ایسے لوگوں سے ووٹ لیکر ایک نیا بش حکومت میں آگیا اور کئی ایک نئی گوانتاناموبے جیسی جیلیں قئم کرنے پہ مصر ہو تو پھر ایسے میں مسلمان کدہر جائیں گے۔؟
امریکہ جارح ہے اور اگر امریکہ اس جنگ کو اپنی مجبوری کی وجہ سے بند کرنا چاھتا ہے تو وہ باہمی احترام پہ مبنی ٹھوس اقدام کرے۔ اور مسلمان عوام پہ اپنی مرضی کے مسلط کردہ بودے حکمرانوں سے نہیں بلکہ مسلمان عوام سے معاملہ کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کرے۔
سلام پاکستان جی
انتخابات سے پہلے اسلامی ممالک کی اکثریت امریکن حکومت کی اور ان کی پالیسیوں کے خلاف تھی اوبامہ نے تبدیلی کے نعرہ بلند کیا امریکن پالیسی چینج نہیں ھوگی صرف طریقہ کار چینج ھو رھا ھے اسے سیاست کہتے ھیں کہو وہ جو لوگ سننا چاھتے ھیں کرو وہ جو تمہارے مفاد میں ھے
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس وقت اسرائیل امریکہ کے حکم کو رد کر دے کیونکہ اسرائیل صرف امریکی امداد پر زندہ ہے۔
😮
بد تمیز کاش آپکی بات سچ ثابت ہوجائے ہماری تو یہی دعا ہے،مگر نہ جانے کیوں سعدیہ کی بات میں زیادہ جان دکھائی دیتی ہے،فرض کریں اوباما سنجیدہ ہے بھی تو اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑ سکتا ہے، اور ملین ڈالر کا سوال امریکہ کس کی امداد پر زندہ ہے؟
فرنگ کی جاں پنجہ یہود میں ہے،
اگر واقعی کوئی چینج آسکتا ہے تو وہ مسلمانوں کا ایک ہو کر اور ڈت کر کھڑا ہوجانا ہے،جس کے فلحال کوئی آثار نہیں،کشمیر کی مثال لے لیں اگر گلف کنٹری اور سعودی عرب انڈیا سے صرف یہ کہ دیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے ورنہ ہم تم سے ہر قسم کے روابط ختم کر دیں گے تو انڈیا کی حالت پتلی ہوجائے گی، مگر اے بسائے آرزو کہ خاک شد
http://www.jang.net/jm/6-6-2009/pic.asp?picname=1054.gif
معاف کیجیئے گا بدتمیز مینے دھیان ہی نہیں دیا کہ یہ افضل صاحب کا جملہ ہے جسے آپنے دھرایا ہے اور کیوں دھرایا ہے یہ سمجھ میں آگیا ہے 🙂
دیکھیں جی دہائیوں میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک ایسی امریکی انتظامیہ آئی ہے جو مشرق وسطی میں امن کے لیے کچھ سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور اسرائیل پر بھی کچھ سخت فیصلوں کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے ۔۔ اگر دو قومی حل سے مشرق وسطی میں امن آسکتا ہے تو اس طرف پیش رفت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔۔ اگر آپ عام لوگوں کی رائے مختلف امریکی بلاگز یا نیوز سائٹس پر پڑھیں تو ایک ابھرتی ہوئی رائے یہ بھی ملے گی کہ امریکی عوام اب یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ کیا اسرائیل کی قیمت پر امریکہ کو ایک عالم سے تعلقات خراب رکھنے چاہئیں؟ یہ ایک بہت اہم تبدیلی ہے اب یہ تو مسلمان حکومتوں پر ہے کہ کس طرح ایک ممکنہ سفارتی حل کی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پائیدار امن کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور اس حوالے سے اسرائیل پر شدید دباؤ ہے۔
بدتمیز صاحب
امریکی امداد سے ہماری مراد مالی، شخصی، عسکری، سفارتی امداد تھی۔ ویسے آپ کی طنز کا انداز اچھا لگا۔
السلام علیکم معزز دوست
آپکی تحریر میں نے پڑھی اور اوبامہ صاحب کی تقریر بھی سُنی تھی۔
امریکی صدر نے جو کچھ کہا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ
نے مسلمانوں کے خلاف جو جنگ شروع کی اس میں وہ مکمل طور پر ناکام
ہو چکے ہیں۔ وہ جنگ ہار چکے ہیں۔ صدارت سے پہلے اُباما کا بیان تھا کہ میں اقتدار
میں آتے ہی پاکستان پہ حملہ کروں گا۔ کیوں کہ طالبان یہاں چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن آج تک سوائے
خون بہانے کے اُسے کچھ نہیں ملا۔
بُش نے بھی اپنے دور صدارت میں کہا تھا کہ یہ صلیبی جنگیں ہیں۔
جب سے امریکیوں کو عراق میں جُوتے پڑے ہیں تب سے ان کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے۔
اُباما کی موجودہ تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں اب امریکیوں کو مزید جُوتے نہ پڑہں۔
اسی لیئے آج وہ ہمارے خیر خواہ ہیں۔
اور سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے ۔ اسلئے اب وہ ہمیں جتنی مرضی تسلیاں دے لیں
ہم اُن پہ اعتبار نہیں کر سکتے۔
آُبامہ کے لئیے میں یہ الفاظ ضرور استعمال کروں گا کہ ۔
” اُبامہ صاحب آپ کا اچھا اخلاق اچھے خون کی ضمانت ہے
Leave A Reply