قرض اور مہنگائی دو ایسی چیزیں ہیں جن پر زوال نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کسی بہتری کی امید ہے کیونکہ قرض لینے والے اور مہنگائی بڑھانے والے ہمارے ہی حکمران ہیں۔

ایک صاحب جن کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں فراڈیے ہونے کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں سے سو درجے عقل مند اور ہوشیار ہیں۔ انہوں نے ساری عمر کام نہیں کیا اور قرض پر بچے بھی پالے اور سفید کرتے اور قمیض میں شان سے زندگی بھی بسر کی۔ مگر انہوں نے قرض ان لوگوں سے لیا جو قرض واپس مانگنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی طاقتور ہو بھی گیا تو انہوں نے قرض فوری طور پر ادا کر کے اپنی عزت بچا لی۔

ایک پاکستان کے حکمران ہیں کہ قرضہ بھی ان لوگوں سے لے رہے ہیں جو اپنی شرائط منواتے ہیں۔ ابھی کل آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلیے پاکستان میں بجلی تیرہ فیصد مہنگی کرنے کا اعلان ہوا اور آج آئی ایم ایف نے 1.2 بلین ڈالر کا مزید قرضہ منظور کر لیا۔ اس سے پہلے  پاکستان آئی ایم ایف سے 5.32 بلین ڈالر کا قرض لے چکا ہے۔

سوچنے والی یہ بات ہے کہ قرضوں کا حصول اور مہنگائی دونوں کے سامنے کب بریک لگے گی؟ کب وہ دن آئے گا جب ہم لوگ اپنی مرضی سے جی سکیں گے اور ہمارے وزرائے دفاع، داخلہ اور خزانہ غیروں کی مرضی سے نہیں چنے جائیں گے؟ کب وہ دن آئے گا جب غیرملکی پاسپورٹ ہولڈر ہماری کابینہ میں نہیں ہوں گے؟