جو حضرات نيويارک ميں رہے ہيں اور پھر اس پر طرہ يہ کہ وہ ٹيکسي ڈرائيوروں کے روم ميٹ رہے ہيں انہيں معلوم ہوگا کہ ٹيکسي ڈرائيوروں کو اپني آپ بيتياں سنانے کا کتنا چسکا ہوتا ہے۔ اور جب دوچار ٹيکسي والے ملکر بيٹھ جائيں تو ان کي لچھے دار باتيں سننے والي ہوتي ہيں۔ اگر کبھي وہ اپني ديہاڑي کے بارے ميں بات شروع کرديں تو سب ايک دوسرے سے بڑھ کر اپني آمدني بتائيں گے۔ کبھي کبھي تو سننے والے کو ان کي آمدن کا سن کر ان پر رشک آنے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ تو بے کار ميں وقت برباد کر رہا ہے اصل کمائي تو انہي کي ہے۔
اسي طرح کي کچھ محافل ميں ہم نے بھي شرکت کي ہے اور ٹيکسي ڈرائيوروں کے سناے ہوۓ قصے ابھي تک ياد ہيں۔
ايک بھائي نے بتايا کہ وہ سواري اتار کر واپس آرہے تھے کہ راستے ميں ہائي وے پر انہوں نے ديکھا کہ ايک جوڑا اپني گاڑي کے پاس کھڑا مدد کيلۓ ہاتھ ہلا رہا ہے۔ انہوں نے ہمدردي کيلۓ گاڑي روکي تاکہ رات کے آخري پہر ميں مدد کے منتظر جوڑے کي مدد کرسکيں۔ پوچھنے پر بتايا گيا کہ گاڑي خراب ہوگئ ہے اور اگر وہ چيک کر کے بتا سکيں کہ کيا خرابي ہے تو ان کي مہرباني ہوگي۔ جونہي انہوں نے گاڑي کا بونٹ اٹھا کر گردن اندر کي پيچھے سے اجنبي نے گن کنپٹي پر رکھ کر ان کو لوٹ ليا اور جاتے ہوۓ ان کي گاڑي کي چابي بھي ساتھ لے گۓ تاکہ وہ ان کا پيچھا نہ کرسکيں۔
يہ واقعہ سن کر دوسرے صاحب بولے کہ ايک دن جب انہوں نے نئ نئ ٹيکسي چلاني شروع کي تھي ايک جوڑے نے ان کي ٹيکسي روکي اور برونکس جانے کو کہا۔ برونکس نيو يارک کا خطرناک ترين علاوہ ہے جہاں جرائم بہت ہيں اور ڈرائيور اکثر وہاں جانے سے کتراتے ہيں۔ پہلے تو وہ جوڑا انجان بن کے بيٹھا رہا اور ٹيکسي والے صاحب کو بتايا کہ انہيں راستے کا پتہ نہيں ہے۔ ٹيکسے والے صاحب پوچھتے پچھاتے جب ان کے گھر کے پاس پہنچے تو اندھيري گلي ميں مسافر نے ان کے سر پر پستول رکھ کر ان کي ساري رقم چھين لي اور دھمکي دے کر روانہ کيا کہ اگر پيچے ديکھا تو گولي مار دي جاۓ گي۔ اسي اثنا ميں پوليس کي گاڑي آتي نظر آئي۔ پوليس کو اشارہ کيا اور پوليس والے نے انہيں گاڑي سائيڈ ميں پارک کرنے کيلۓ کہا۔ انہوں نے ابھي گاڑي پارک کي ہي تھي کہ پوليس والے وہاں سے بھاگ گۓ۔
اب تيسرے صاحب کي سنۓ۔ وہ فرمانے لگے کہ ايک دن وہ اور ان کا دوست رات کي شفٹ ختم کرکے سب وے سے واپس آرہے تھے کہ سٹيشن پر انہيں ايک مقامي لڑکوں کا گروپ مل گيا۔ ان صاحب نے تو ساري رقم ان کے کہنے پر ان کے کے حوالے کردي مگر ان کے دوست اڑ گۓ۔ بدمعاش لڑکوں نے ان کو زبردستي گھر بھيج ديا اور دوست کو ادھر ہي روک ليا۔ جب کافي دير تک ان کے دوست واپس نہيں آۓ تو وہ سب وے کي طرف واپس گۓ۔ وہاں کيا ديکھتے ہيں کہ ان کا دوست زمين پر ليٹا کراہ رہا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا راہزنوں نے مزاحمت پر ان کو تيزاب پلا ديا ہے۔ انہيں ہسپتال پہنچايا گيا مگر وہ اگلے دن ہي اللہ کو پيارے ہوگۓ۔
اب آخري ٹيکسي ڈرائيور سے بھي نہ رہا گيا اور انہوں نے اپني روداد سناني شروع کردي۔ کہنے لگے کہ ايک دن انہوں نے رات کي شفٹ ختم کي اور گاڑي گھر کے سامنے پارک کرکے جب بلڈنگ ميں داخل ہونے لگے تو ايک چھوٹے قدد کے لڑکے نے ان کو چاکو کي نوک پر لوٹ ليا۔ جب راہزن واپس جانے لگا تو ان کے ذہين ميں يہ آیا کہ ميں گوجرانوالہ کا پہلوان اور يہ چھوٹا سا چوہا۔ يہ کيسے مجھ سے رقم چھين کر بھاگ سکتا ہے۔ انہوں نے جونہي لڑکے کو گريبان سے پکڑا دور اندھيرے ميں کھڑے لڑکے کے دوسرے ساتھي نے ان پر گولي چلا دي۔ گولي ان کے پيٹ ميں لگي اور لٹيرے وہاں سے بھاگ گۓ۔ بروقت ہسپتال داخل ہونے کي وجہ سے ان کي جان بچ گئ۔
اس سے پہلے کہ پہلے دوست اپنا اگلا واقعہ سناتے ہميںنيند آگئ اور ہم بستر پر دراز ہوگۓ۔ يقين مانيں ساري رات خواب ميں لٹيرے ہمارا پيچھا کرتے رہے اور ہم آگے آگے بھاگ کر ان سے اپني جان بچاتے رہے۔
5 users commented in " نيو يارک کے ٹيکسي ڈرائيور "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکیا یہ سچے قصے ہیں؟
کیا خیال ہے آپ کی پوسٹ سے کالوں کے خلاف کچھ تعصب نہیں جھلک رہا؟
ذکريا صاحب
آپ کي بات سے ہم سو فيصد متفق ہيں اور آئيند احتياط کريں گے۔ ليکن يقين مانيں يہ سچے واقعات ہيں اور ميں حلفيہ ان کي سچائي کي گواہي ديتا ہوں۔ يہ پچھلي صدي کي آخري دھائي کا دور ہے جب نيو يارک جرائم کا گڑھ ہوتا تھا۔ يہ تو بھلا ہو جلياني کا جس نے جرائم کو بلکل ختم نہيں تو بہت کم ضرور کرديا۔
میرا پاکستان صاحب: واقعات کی سچائی سے میں نے انکار نہیں کیا۔ نیو یارک اور دوسرے بڑے شہر 1980 اور 1990 کی دہائی میں جرائم کا شکار تھے۔ مگر ہم آسانی سے جرائم پیشہ کی نسل وغیرہ کو اس کا اہم جز سمجھ لیتے ہیں۔ اسے شاید انگریزی میں سٹیریوٹائپ کہتے ہیں۔
میں ایسے تمام واقعات کو سچا نہیں مانتا، اکا دکا واقعات ہوتے ہیں اور باقی سب لوگ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ۹-۱۱ والے دن بہت سے لوگ ورلڈ ٹریڈ سینٹر والي جگہ پر موجود تھے چاہے وہ زندگي بھر وہاں نہیں گئے ہوں،
دوسری بات ٹیکسیوں والے بھي لوٹنے میں کسي سے پیچھے نہیں رہے، جب سیر کو آئے لوگوں سے ۱۵۰ ڈالر تک کے ٹول لے لینا اور میٹر کے بغیر ٹیکسي میں منہ مانگے دام وصول کرنا جس کي وجہ سے ایک سپیشل پولیس فورس ٹیکسي اینڈ لیموزین کمیشن کے نام سے وجود آئي، کیا کبھي کسي نے ایسا واقعہ نہیں سنایا؟
Leave A Reply