آپ کے کچھ دوستوں کی عادت عجیب سی ہوتی ہے۔ وہ آپ سے مدد بھی مانگتے ہیں مگر اپنی کم علمی کو ظاہر بھِی نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے ہی ہمارے ایک مہربان ہیں جنہیں کئِ چیزوں کی الف ب بھِی نہیں آتی مگر جب بات کرتے ہیں تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ کئ دفعہ جب وہ تاریخ یا دینی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تو ہم اندر ہی اندر شرمندگی محسوس کرنے گلتے ہیں مگر انہیں ذرا برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔

یہ صاحب ہم سے کمپیوٹر کے بارے میں کئِ دفعہ مدد لے چکے ہیں حالانکہ انہوں نے کمپیوٹر میں ڈپلومہ بھِی کیا ہوا ہے۔ انہیں جب بھی کمپیوٹر کے مسئلے کا حل بتائیں وہ کہتے ہیں “اس کا تو انہیں پہلے ہی علم تھا کوئی اور طریقہ بتائِیں”۔ ایک دفعہ ابھِی ہم نے مسئلے کا حل پورا بتایا بھِی نہیں تھا وہ کہنے لگے اس طریقے کا تو انہیں پہلے سے علم تھا۔ جب ہم نے کہا کہ چلیں ٹھیک کر کے دکھائیں تو انہوں نے کی بورڈ پر انگلیاں چلانی چلانی شروع کر دیں۔ جب وہ تھک گئے تو پھر ہم نے انہیں پہلی دفعہ ان کی اس برائی کی نشاندہی کی مگر انہوں نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرے ہیں۔

اسی طرح ایک دفعہ انگلینڈ پلٹ بوڑھا ہماری مسجد میں وضو غلط طریقے سے کر رہا تھا تو مسجد کے موذن نے انہیں وضو کرنے کا صحیح طریقہ بتانے کی کوشش کی۔ وہ موٹی سی گالی دے کر کہنے لگے “چل تیرے جیسے مجھے کئی سمجھا چکے ہیں”۔ موذن بولا “چاچا تبھِی تو سدھرا ہوا ہے”۔

اس ہفتے ایک میوزیکل پروگرام میں انڈین موسیقار اسماعیل دربار نے ایک گلوکار کو ٹوکا اور بڑے پتے کی بات کہی۔ کہنے لگے “جو بولتا ہے وہ سنتا نہیں ہے اور جو سنتا نہیں ہے وہ سیکھتا نہیں ہے”۔ یہ بات واقعی سچ ہے اگر آپ دوسروں کی بات پوری سنیں گے نہیں تو پھر سیکھیں گے کیسے۔ مگر کیا کیا جائے یہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام علوم ایک آدمی نہیں سیکھ سکتا اور اسی لیے نوکریوں پر الگ الگ لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں کوئی انجنیئر ہوتا ہے تو کوئِی ڈاکٹر، کوئی سائنسدان ہوتا ہے تو کوئی پروفیسر۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئِی آپ کو معلومات فراہم کر رہا ہو تو ان کا علم ہونے کے باوجود اس کی بات غور سے سنیں ہو سکتا ہے وہ آپ کو وہ بات بتا دے جس کا آپ کو پہلے سے علم نہ ہو۔ اگر آپ نے ابتدا سے ہی اسے ٹوک دیا تو پھر کام کی بات سے آپ محروم رہ جائیں گے۔