اس عید پر کچھ عجیب سی باتیں ہوئیں۔ ہماری عید کی نماز ایک آئس ہاکی گراؤنڈ میں ہوتی ہے جس پر چھت بھی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہم لوگ اس گراؤنڈ میں عید کی نماز شمال کی طرف منہ کر کے پڑھتے رہے ہیں مگر اس دفعہ کسی بھلے مانس نے اس غلطی کا احساس دلایا اور قبلہ درست کیا گیا یعنی مشرق کی طرف۔

عربی لوگ نماز سے پہلے تقریر نہیں کرتے بلکہ صرف تکبریں کہتے ہیں اور تقریر نماز کے بعد خطبے میں کرتے ہیں۔ اس دفعہ دوسری نماز میں کسی مہمان کو امامت سونپی گئی۔ پھر کیا تھا امام صاحب نے موقع غنیمت جانا، اپنی کاپی کھولی اور تقریر پڑھنی شروع کر دی۔ ایک تو ساؤنڈ سسٹم خراب اور دوسرے انہوں نے چالیس منٹ سے زیادہ کا وقت لے لیا۔ عموماً یہ خطبہ پندرہ سے بیس منٹ کا ہوتا ہے۔ اس دوران نمازی تنگ آ کر اٹھنا شروع ہو گئے۔ جب آدھے سے زیادہ میدان خالی ہو گیا تو اپنا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور زندگی میں پہلی بار خطبے یا تقریر کو ادھوار چھوڑ کو ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیدھے مسجد انتظامیہ کے صدر کے پاس جا کر ان سے شکایت کی۔ انہوں نے بتایا کہ امام صاحب کو کئی پیغام لکھ کر پہنچائے جا چکے ہیں مگر وہ پھر بھی بولے ہی جا رہے ہیں۔ ایک دفعہ تو اپنا دل چاہا کہ امام صاحب سے بھی بات کی جائے مگر پھر سوچا ان کی باز پرسی کیلیے مسجد کی انتظامیہ ہی کافی رہے گی۔

عید کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو نیشنل اسمبلی کے دو امیدواروں سے ملاقات ہو گئی جو ووٹ مانگنے کیلیے آئے ہوئے تھے۔ انتخابات کینیڈا میں بارہ اکتوبر کو ہو رہے ہیں۔ ان سے بچوں کی یونیورسٹی میں ہڑتال کی بات کی اور انہوں نے مدد کی یقین دہانی کرائی۔ ہمارے کچھ لوگ تو ان گورےامیدواروں کو بھی عید گلے لگ کر مل رہے تھے۔ اس طرح عیدی ملنے کی کوفت ان کے چہرے پر عیاں تھی مگر وہ پھر بھی مسکرائے جا رہے تھے۔

دوپہر کو ہم نے اپنی فیملی اور مہمانوں کیساتھ باہر لنچ کیا اور گھر آ کر سوئیاں کھائیں۔ بچوں کو عیدی دی، پھر والدہ اور دوست احباب کو فون کر کے عید کی مبارک باد دی۔ کچھ دیر آرام بھی کیا۔

شام کو محلے والوں کیساتھ اپنے گھر عید منائی۔ اس پارٹی میں ہر فیملی اپنے ساتھ ایک ڈش لائی اور سب نے ملکر ڈنر کیا۔ ملکی حالات پر گپ شپ ہوئی، لطیفوں کا تبادلہ ہوا، باجماعت عشاء کی نماز ادا کی اور آخر میں گلی میں آدھا گھنٹہ چہل قدمی کی اور اس طرح عید کا تہوار ختم ہو گیا۔