متحدہ مجلسِ عمل سے ایم ایم اے نہیں بنی بلکہ اس کی قلابازیوں کی وجہ سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ملا ملٹری ایلائنس سے بنی ہے۔ سرحد حکومت کے وزیراعلیٰ کيخلاف عدم اعتمار کی تحریک پیش ہونے کے بعد اسمبلیوں سے استعفوں کی بجائے تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایم ایم اے نہیں چاہتی کہ سرحد اسمبلی تحلیل ہو۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد تو ہمیں بھی پکا یقین ہونے لگا ہے کہ ایم ایم اے واقعی ملٹری کی ٹیم ہے۔ خدا کے بندو کیا تحریک عدم اعتماد آپ کو استعفے دینے سے روکت رہی ہے یا اسمبلی تحلیل نہیں کرنے دے رہی۔ حزب اختلاف چاہے دس عدم اعتماد لاتی آپ کو چاہیے تھا کہ اسمبلی وعدے کے مطابق تحلیل کردیتے۔ اب آپ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے چکر میں کئی روز ممبران اسمبلی کی بحث کیلیے وقف کردیں گے اور تب تک صدارتی انتخاب ہوجائے گا۔ بعد میں پھر کہنا ہم تو اسمبلی تحلیل کررہے تھے مگر تحریک عدم اعتماد نے ہمارے قدم روک لیے۔

ظلم کی بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کیلیے ارکان کی تعداد ہی پوری نہیں تھی۔ وہ بھی ملا ملٹری ایلائنس نے اپنے دوارکان بھیج کر پوری کردی۔ لعنت ان دو ارکان کی مسلمانی پر جنہوں نے اسلام کے نام پر پہلے سینٹ کے انتخابات میں اپنے ضمیر بیچے اور اب تحریک عدم اعتماد میں اپنے آپ کو بیچ دیا۔ یہی سبب ہے کہ عام آدمی کے ذہن سے مولوی کی عزت ختم ہوتی جارہی ہے۔

ایم ایم اے اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپائی کہ وہ استعفے دے گی یا نہیں۔ آج بھی حکومتی ذرائع کی ایم ایم اے کیساتھ بات چیت کی خبر اڑی ہے اور کہنے والے کہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے ایم ایم اے استعفے دینے کی آپشن واپس لے لے۔ حکومتی ارکان جو سرعام روشن خیالی کا دم بھرتے ہیں طرح طرح سے مولویوں کو سرعام ننگا کررہے ہیں۔ کبھی انہیں سترہویں ترمیم کے بدلے وردی اتارنے کی پیشکش کرکے واپس لے لیتے ہیں، کبھی حزب اختلاف کی کرسی عنایت فرما دیتے ہیں، کبھی صوبائی حکومت دے دیتے ہیں اور کبھی ایک اور صوبائی حکومت میں حصہ دے دیتےہیں۔

اگر ایم ایم اے ملا ملٹری ایلائنس نہ ہوتی تو مولانا فضل الرحمان انگلینڈ میں اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں نہ تو چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک پر تنقید کرتے اور نہ مجبوراً استعفے دینے کی بات کرتے۔ ابھی چند روز قبل جب استعفوں کا اعلان ہوا تو مولانا سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ استعفوں کے سوال پر انہوں نے پھر بے یقینی کی صورتحال یہ کہ کر پیدا کردی کہ ان سے تو مشورہ ہی نہیں کیا گیا۔ پھر پاکستان واپس آکر اسی طرح کی بیان بازی کرنے لگے۔ ایم ایم اے کے آخری اجلاس میں جب مولانا نے ایک بار پھر جل دینے کی کوشش کی تو ان کی قاضی صاحب کے ساتھ شدید قسم کی جھڑپ ہوئی اور ایم ایم اے ٹوٹتی ٹوٹتی بچی۔

ابھی ایم ایم اے کے استعفے دینے کا وقت آن پہنچا ہے اور یار لوگوں کو اب بھی پکا یقین نہیں ہے کہ ایم ایم اے والے استعفے دیں گے یا نہیں۔

خدا کے بندو جس طرح اسلام میں واضح احکامات ہیں اور جس طرح صاف ستھرے لین دین کی نصیحت کی گئی ہے تم بھی صاف اور کھری بات کرو اور عوام الناس کو مخمصے میں نہ رکھو۔ پتہ نہیں مولانا فضل الرحمان دوسری جماعتوں کیساتھ اتحاد کیوں بنائے ہوئے ہیں اگر انہوں نے ان جماعتوں کی ماننی نہیں تھی۔

ایم ایم اے کی یہی قلابازیاں اسے اگلے انتخابات میں چاروں شانے چت کردیں گے۔ پھر مولانا بھی کف افسوس ملتے رہ جائیں گے اور صوبائی حکومت بھی ہاتھوں سے چلی جائے گی۔

ابھی تک پاکستان میں ایک بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو اپنے منشور پر عمل کررہی ہو اور جس کا لائحہ عمل مبہم نہ ہو۔ ہرکوئی تاش کے کھیل کی طرح اپنے اپنے پتے چھپائے بیٹھا ہے اور جیتنے کیلیے خاص موقعے کی تلاش میں ہے۔ نہ کھیل کے ضوابط کی پرواہ ہے اور نہ اپنی عزت کی۔ بس انہیں تو کرسی ملنی چاہیے چاہے اسکیلے انہیں کرسی کی ٹانگیں جی ایچ کیو سے لانی پڑیں۔