ایک صاحب نے اس طرح غربت میں انجنیئرنگ مکمل کی کہ اکثر اوقات انہیں اچار یا پیاز کیساتھ سوکھی روٹیاں کھانا پڑتیں۔ وہ صاحب ہمارے کلاس فیلو اور روم میٹ تھے اور ہم نے انہیں اکثر پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اتنے غریب کہ پہننے کیلیے صرف دو چار کپڑوں کے جوڑے جو وہ باری باری پہنا کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں اکثر وہ دھوتی بنیان میں رہتے تھے۔

پڑھائی کے بعد وہ واپڈا ميں ایس ڈی او لگ گئے۔ انہیں رشوت لینے والوں کا گروہ مل گیا اور انہوں نے خوب مال کمایا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ دن کا کھانا اگر گوجرانوالہ میں کھاتے تھے تو رات کا کھانا لاہور کے فائیوسٹار ہوٹلوں میں۔ اب وہ خوش حال ہیں، ان کے بچے اچھے کالجوں میں پڑھ رہے ہیں اور ان کے گھر میں دنیا جہان کی آسائشیں ہیں۔ ہم نے آج تک انہیں یہ کہتے نہیں سنا کہ انہیں معلوم ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور انہیں اپنی آخرت کی فکر ہے۔ وہ کہتے ہیں جو انہوں نے کیا ٹھیک کیا اور خدا ان کی نیت کو جانتے ہوئے ضرور بخش دے گا۔

دوسرے صاحب ہمارے محلے میں رہتے تھے انہوں نے ہمارے ساتھ ایف ایس سی کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ بعد میں الیکٹریکل میں ڈپلومہ اور پھر ڈگری لینے کے بعد وہ بھی واپڈا میں ایس ڈی او لگ گئے۔ ایماندار تھے اسلیے رشوت لینے سے گریز کیا۔ کافی عرصہ کسمپرسی میں گزارا اور جب اولاد جوان ہوئی تو انہیں ان کے مستقبل کی فکر دامن گیر ہوئی۔ انہوں نے اپنی ایکس سی این کی پروموشن پر کینیڈا کی امیگریشن کو ترجیح دی۔ ان کے بچے اب کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی قرضوں پر پڑھیں گے کیونکہ ان کے پاس ان کی پڑھائی کیلیے رقم نہیں ہے۔ وہ اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں اور ایک فیکٹری میں پریس آپریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس انتہائی کسمپرسی کی زندگی پر وہ بھی مطمٔن ہیں اور انہیں آج تک ملال نہیں ہوا کہ انہوں نے واپڈا میں رہتے ہوئے مال نہیں بنایا۔

یعنی جس نے حرام کمایا وہ بھی مطمن اور جس نے حلال کمایا وہ بھی مطمٔن۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ایسا کیوں ہے؟