عيد الاضحي اور حج کے مبارک موقع پر آپ سب کوعید مبارک ۔

 اس عيد اور حج کے پيچھے جو فلسفہ پوشيدہ ہے وہ ہم فراموش کرچکے ہیں اورصرف اور صرف قرباني کے گوشت کا مزہ لينے کيلۓعيد مناتے ہيں۔

اب ہم مسلمان وہ مسلمان نہيں رہے جو حضرت ابراہيم کي سنت پر عمل کرتے ہوۓ اپني سب سے پياري چيز خدا کي راہ ميں قربان کرسکيں۔ اب تو ہماري حالت يہ ہے کہ ہم اس سنت سے بچنے کيلۓ بہانے ڈھونڈتے رہتے ہيں۔

 آپ نے يہ قصہ تو سنا ہوگا کہ ايک صاحب کھجور کے درخت پر چڑھ تو گۓ مگر ان کيلۓ اترنا مشکل ہو گيا تو انہوں نے منت ماني کہ اگر وہ درخت سے صيحح سلامت نيچے اتر آۓ تو اونٹ کي قرباني ديں گے۔ جب وہ تھوڑا نيچے سرکنے ميں کامياب ہوگۓ تو انہوںنے اونٹ کي بجاۓ گاۓ کي منت مان لي۔ جب درميان ميں پہنچے تو بکري کي قرباني کرنے کا عہد کيا۔ اسي طرح جوں جوں وہ نيچے اترتے گۓ ان کي منت کي مقدار کم ہوتي گئ اور آخرميں جب وہ چند فٹ کے فاصلے پر رہ گۓ تو مرغي کي منت مان لي۔ ليکن جب وہ صيحح سلامت نيچے اتر آۓ تو فرمانے لگے کہ نہ کھجور پر چڑھنے کا پنگا ليں گے اور نہ قرباني ديں گے۔ اسي طرح اب  ہمارابھي يہي خيال ہوتا ہے کہ کام بھي ہوجاۓ اور محنت بھي  نہ کرني پڑے۔

بہرحال خدا سے دعا ہے کہ ہميں ہمارے دين کي اصل روح سے آشنا کرے اور ہميں باعمل مسلمان بناۓ ۔ آجکل باعمل مسلمان بننے ميں بے شمار رکاوٹيں ہيں۔ ہمارے اپنے لوگ اب غيروں کے غلام ہو چکے ہيں اور انہي کے ايجنيڈے پر کام کر رہے ہيں۔ يورپ نہيں چاہتا کہ اصل مسلمان دوبارہ طاقت پکڑيں اور ان کے مقابلے پر اتر آئيں۔ جتنا ہمارے اپنے اور پراۓ اسلام سے ہميں ڈرا رہے ہيں اتنا اسلام خوفناک نہيں ہے ۔ اجتہاد اسلام کا باقائدہ ايک حصہ ہے اور اس  طريقے کو استعمال کرتے ہوۓ ہم اسلام کو قدرت کا مزہب ثابت کرسکتے ہيں۔

بات دور چلي گئ۔ تو صاحبان اس عيد پر غربا کو مت بھولۓ اور ان غربا کو جو بے چارے کھلے آسمان تلے دن گزارنے پر مجبور ہيں۔ ہماري خدا سے دعا ہے کہ وہ ہماري زندگي ميں آسانياں پيدا کرے اور ہميں متحد کرے۔