بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق اسلام آباد کے گرین ایریا میں سور بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور اب ان سوروں کو مارنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد کا گرین ایریا ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم پر مشتمل ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں ایوانوں پر آج کل سوروں کا قبضہ ہے۔

گرین ایریا میں گولی چلانے کی اجازت نہیں ہے اسلیے ان دونوں ایوانوں کے سوروں کو زہر دے کر مارنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں کے سور اتنے بہادر ہیں کہ ان پر چھوٹا موٹا زہر اثر ہی نہیں کر رہا۔ اچھا ہوتا اگر سور مارنے والے دونوں ایوانوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع کر دیتے تا کہ سور اندھیرے سے ڈر کر بھاگ جاتے۔

جب سے مغربی سفارتکاروں کو سور مارنے کے لائسنس جاری ہوئے ہیں یہ سور گرین ایریا کو سکیورٹی زون کر سمجھ صدارتی ایوانوں میں چھپتے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مغربی سفارتکاروں کی نظروں میں نہ آئیں۔ کیونکہ جس دن وہ مغربی سفارتکاروں کے ہتھے چڑھ گئے وہ جان سے گئے۔ کچھ سور مغربی سفارتکاروں نے مارنے کی بجائے زندہ پکڑ لیے ہیں اور ان سے نسل بڑھانے کا کام لے رہے ہیں۔

ایک وقت تھا اسلام آباد اتنا صاف ستھرا ہوتا تھا کہ اس پر کسی یورپی ملک کا گمان ہوتا تھا۔ اسے نفسا نفسی اور قومی دولت کی لوٹ میں ملوث ہمارے حکمرانوں نے اتنا گندہ کر دیا ہے کہ سور اس کی گندگی کو چاٹنے  سرشام سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ان سوروں کا تعلق چونکہ گوری چمڑی سے ہے اور لگتا ہے پچھلی حکومت گوری چمڑی کی غلامی میں جانے کے بعد سوروں کے بھی نخرے اٹھانے پر مجبور تھی، یہی وجہ ہے مارنے کی بجائے ان کی پرورش کی گئی تا کہ غیرملکی سفارت کار ان کا شکار کر سکیں۔

یہ سور اتنے ذلیل ہیں کہ انہوں نے دونوں ایوانوں پر قبضہ کرنے کیلیے کسی گندگی کی پرواہ بھی نہیں کی۔ سی ڈی اے کیمطابق سور مارگلہ کی پہاڑیوں سے نکاسی آب کے گندے نالے کے ذریعے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں داخل ہو چکے ہیں اور لگتا ہے انہوں نے بھی اگلے پانچ سال کیلیے یہیں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

سی ڈی اے والے کہتے ہیں کہ انہیں سوروں کی تعداد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے کیونکہ ان کا سروے ہی کبھی نہیں ہوا۔ سی ڈی اے والوں سے بھلا کوئی پوچھے کہ کبھی صدارتی ایوانوں کا بھی سروے ہوا ہے جو اب ہو گا۔ یہاں اندر کیا ہوتا ہے یہ صرف سوروں کو ہی پتہ ہے اور وہی جانتے ہیں کہ وہ دن رات کیا کیا خباثتیں پھیلاتے ہیں اور ان کی گندگی کا کتنے لوگ شکار ہوتے ہیں۔

غدار حکمرانوں اور سوروں میں ویسے تو بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن ایک دو عادتوں کی وجہ سے تو ان میں فرق کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں غلاظت کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ جس طرح سور نہ صرف اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں سورنی کیساتھ اپنا منہ کالا کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی دعوت دیتا ہے، اسی طرح غدار حکمران بھی اپنی ہی قوم کا سودا کرکے اپنا منہ کالا کرتا ہے۔