جونہی سول حکومت آئی، اسے لوڈشیڈنگ سمیت بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شاید رمضان کے مہینے میں شیطانوں کو بند کرنے کا شاخسانہ تھا کہ لوڈشیڈنگ رمضان میں کم ہو گئی۔ جونہی رمضان گزرا، شیطان آزاد ہوئے اور لوڈ  شیڈنگ نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس پر عوام دشمنوں نے بجلی کے ریٹ بھی بڑھا دیے۔

لوڈشیڈنگ تو جیسے تیسے عوام قومی مفاد میں برداشت کر رہے تھے مگر جونہی بجلی کے بل بڑھے تو عوام کی چیخیں نکل گئیں اور سڑکوں پر نکل آئے۔ ابھی عوامی احتجاج کو ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ حکمرانوں کی ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ان کے غیرملکی مشیروں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس سے زیادہ اگر عوام کا امتحان لیا گیا تو پھر غیرملکیوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ ان غلام حکمرانوں کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔

غلام حکمرانوں نے فٹافٹ اجلاس بلایا، بجلی کے بل چالیس فیصد کم کئے اور پھر لوڈشیڈنگ میں پچاس فیصد کمی کر دی۔ اب اس ہفتے سے جہاں کاروباری حلقوں نے سکھ کا سانس لیا ہے وہیں عوام بھی احتجاج چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ بجلی کے بل کی رقم چالیس فیصد جمع کرانے کا حکم عارضی تھا یا پھر واقعی بجلی کے ریٹ کم کر دیے گئے ہیں۔

اب سوچنے والی یہ بات ہے کہ یہ کونسی لوڈشیڈنگ تھی جو رمضان سے پہلے تھی، رمضان میں کم ہو گئی، رمضان کے بعد پھر بڑھا دی گئی اور اب احتجاج کے بعد پھر کم کر دی گئی ہے۔ یہ معمہ اگر کوئی حل کر سکے تو کر دے۔